دستاویزات جعلی نکلیں‘ شریف خاندان کیخلاف کارروائی کی سفارش‘ نیب ریفرنس دائر کیا جائے‘ جے آئی ٹی کی رپورٹ پیش
شیئر کریں
اسلام آباد(بیورو رپورٹ) پاناما کیس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا نے حتمی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کردی ہے، جبکہ عدالت عظمیٰ نے جلد نمبر دس کے سوا رپورٹ اٹارنی جنرل اور تمام فریقین کو دینے کاحکم دیا ہے ۔ پیر کو جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی ۔جے آئی ٹی ارکان واجد ضیاء کی سربراہی میں سپریم کورٹ میں پیش ہوکر 3 رکنی عمل درآمد بینچ کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کی جس وقت جے آئی ٹی کے ارکان سپریم کورٹ پہنچے تو ان کے ساتھ دو باکسز بھی کمرہ عدالت میں لے جائے گئے جن پر انگریزی میں ایوی ڈینس یعنی ثبوت تحریر تھا دونوں باکسز کو سیاہ اور پیلے رنگ کی ٹیپ لگا کر بند کیا گیا تھا ۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ 10جلدوں پر مشتمل ہے۔سماعت کے دور ان جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ جلد نمبر 10پبلک نہ کی جائے ٗ اس میں غیرملکی قانونی معاونت شامل ہے ٗ یہ جلد مزید تحقیقات کیلئے استعمال ہوگی۔ عدالت نے جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء کی درخواست منظور کرتے ہوئے مدعا علیہ اور درخواست گزاروں کو جے آئی رپورٹ کے دیگر حصوں کی کاپی فراہم کرنے کا حکم د یتے ہوئے کہا کہ وہ یہ رپورٹ رجسٹرار آفس سے حاصل کر سکتے ہیں تاہم جلد نمبر 10 فراہم نہیں کی جائیگی عدالت نے ہدایت کی ہے کہ فریقین کاپی حاصل کرلیں اور آئندہ سماعت تک رپورٹ پڑھ لیں ۔عدالت نے فریقین سے کہا کہ جو دلائل اب تک دیئے جا چکے ہیں وہ اگلی پیشی پر نہ دیئے جائیں ۔دوران سماعت مسلم لیگ کے رہنماؤں کی جانب سے مختلف مواقع پر جے آئی ٹی کے خلاف کی گئی تقاریر پر جسٹس عظمت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ رہنماؤں کی جانب سے جے آئی ٹی کو کھلی دھمکیاں دی گئی جو توہین عدالت ہیں اس موقع پر سپریم کورٹ کے بینچ نے وزیر اعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر آصف کرمانی ٗوفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اور مرکزی رہنما طلال چوہدری کی جانب سے کی گئی تقاریر کا متن طلب کرلیا ۔سماعت کے دور ان تحریک انصاف کے ترجمان فواد چوہدری نے عدالت سے استدعا کی کہ عابد شیر علی اور رانا ثناء اللہ کی تقاریر کے متن بھی طلب کئے جائیں جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہاکہ کیوں نہ آپ کے بیانات بھی طلب کرلئے جائیں عدالت نے جے آئی ٹی ممبران کی سیکیورٹی یقینی بنانے کیلئے اٹارنی جنرل کو حکم جاری کرتے ہوئے کہا کہ تمام ممبران کے دفاتر اور گھروں کو سیکیورٹی فراہم کی جائے ۔عدالت نے کہاکہ اگر ان ارکان کو کسی نے تنگ کیا توسپریم کورٹ سے رجوع کریں عدالت نے اپنے حکم میں کہاکہ تمام ارکان واپس اپنے اداروں میں جائیں گے تو انہیں مکمل آزادی ہوگی ۔ بعدازاں عدالت نے سماعت آئندہ پیر تک ملتوی کر دی ۔جے ائی ٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ شریف خاندان نے جو دستاویزات پیش کی گئی وہ جعلی ثابت ہوئی ہیں اور یہ خاندان اپنے اثاثوں کو قانونی ثابت کرنے میں ناکام ہوا ہے جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی کہا ہے کہ شریف خاندان کے طرز زندگی اور انکے ذرائع آمدن میں مماثلت نہیں ہے جب کہ پاکستان میں موجود کمپنیوں کامالیاتی ڈھانچہ مدعاعلیہان کی دولت سے مطابقت نہیں رکھتارپورٹ کے مطابق شریف خاندان کی معلوم آمدنی اور اثاثوں میں فرق ہے مریم نواز نیلسن اور نیسکول کمپنیز کی بنیفیشل مالکہ ہیں وزیرعظم نواز شریف کی بھی ایف زیڈ ای کیپیٹل کی چیئرمین شپ ثابت ہوگئی جے آئی ٹی کی رپورٹ کے مطابق شریف خاندان کی جانب سے ڈکلیئریشن آف ٹرسٹ سے متعلق جعلی رپورٹ پیش کی گئی ثابت ہوگیا کہ ڈکلیئریشن آف ٹرسٹ سے متعلق شریف خاندان کی جمع کرائی گئی دستاویزات افسانوں پر مبنی ہیں رپورٹ کے مندرجات کے مطابق حسن اور حسین نواز جے آئی ٹی کے سامنے آمدنی کے ذرائع نہیں بتا سکے اور نہ ہی برطانیہ کی مہنگی جائیدادیں برطانیہ میں کسی کاروبار کی وجہ سے نہیں خریدی گئیں۔ رپورٹ کے مندرجات کے مطابق فنڈز سے برطانیہ میں مہنگی جائیدادیں خریدی گئیںنیب آرڈیننس کے تحت یہ کرپشن بدعنوانی کے زمرے میں آتی ہے اس لیے نواز شریف مریم نواز حسن اور حسین نواز کے خلاف نیب آرڈیننس کے تحت کارروائی کی جائے رپورٹ کے مطابق برطانیہ کی کمپنیاں نقصان میں تھیں مگر بھاری رقوم کی ترسیل میں مصروف تھیں بڑی رقوم کی قرض اور تحفے کی شکل میں بے قاعدگی سے ترسیل کی گئی بے قاعدہ ترسیلات لندن کی ہل میٹل کمپنی یو اے ای کی کیپیٹل ایف زیڈ ای کمپنیوں سے کی گئیں بے قاعدہ ترسیلات اور قرض نواز شریف حسین نواز اور حسن نواز کو ملا جے آئی ٹی رپورٹ میں شریف خاندان کی مزید تین کمپنیوں کا انکشاف ہوا ہے الانا سروسز لینکن ایس اے اور بلٹن انٹرنیشنل سروسز بھی شریف خاندان کی ملکیت ثابت ہوئی ہیں۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ کے مطابق 80اور 90کی دہائی میں جب کمپنیز قائم ہوئیں تو نواز شریف کے پاس عوامی عہدہ تھا معمولی سرمایہ کاری سے کمپنیز شروعکی گئیں کمپنیز میں زیادہ تر پیسہ ملکی و غیر ملکی بینکوں سے قرض لے کر شامل کیا گیا، پلانٹس اور مشینری لگانے کے لیے غیر ملکی کرنسی میں فنڈز جنریٹ کئے گئے ،فندز اکٹھا کرتے وقت زیادہ تر کمپنیز غیر فعال تھیں۔ زیادہ تر کمپنیز نقصان میں جارہی تھیں کمپنیز مین محمد بخش ٹیکسٹائلز ملز انجینئرنگ حمزہ بورڈ ملز شامل ہیں کمپنیز میں مہران رمضان ٹیکسٹائل ملز شامل ہیں تمام کمپنیز زیادہ تر نقصان میں چلتی رہیں رپورٹ کی جلد تھری میںطارق شفیع کی جانب سے دبئی میں اہلی سٹیل مل میں پچیس فیصد شیئر کے دعوے کی تصدیق کے لیے واجد ضیاء کی جانب سے وزارت انصاف کو خط لگھا گیا خط اور خط کا جواب بھی شام
ل کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق دبئی کی وزارت انصاف نے جے آئی ٹی کے سربراہ واجدضیا ء کے جواب میں لکھا ہے کہ طارق شیع کی جانب سے1980میں پچیس فیصدشیئر کی فروخت کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے اور نہ ہی 12درہم کی سرمایہ کاری کا ریکارڈ موجود ہے، ایسا کوئی ریکارڈ موجود نہیں جو طارق شیع کی جانب سے جمع کرائے گئے ان دستاویزات کی تصدیق کر سکے۔ رپورٹ میں شامل دبئی کی وزارت انصاف کے خط کے مطابق طارق شفیع کی جانب سے 2001اور2002میں دبئی سے جدہ اسکریپ کی منقلی کے حوالے سے ریکارڈ کی چھان بین کی گئی ہے، تاہم محکمہ کسٹم کے ریکارڈ میں منقتلی کا ریکاڈ موجود نہیں ہے جے ائی ٹی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ وزیراعظم حسن اور حسین نواز کی دولت معلوم ذرائع سے زیادہ ہے اور ایسی صورت میں نیب کے سیکشن 9کے تحت ریفرنس بنتا ہے نیب آرڈیننس سیکشن 9اے وی کا اطلاق تب ہوتا ہے جب اثاثے ذرائع آمدن سے زیادہ ہوں،مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہی کہ سعودی عرب کے اندر جو ہل میٹل اسٹیل ملز ہے اس کے لیے قرض لیے گئے اور جو دیگر ذرائع آمدن ہے اس کا واضح جواب نہیں دے سکے ہیں۔جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا یہ بات کہ لندن کی پراپرٹیز اس بزنس کی وجہ سے تھیں آنکھوں میں دھول جھونکنا ہے۔ رپورٹ کے مطابق حسن نواز کی لندن میں جو فلیگ شپ اونر کمپنی اور جائیدادیں ہیں اس میں بھی تضاد پایا جاتا ہے، کیونکہ برطانیہ کی کمپنیاں نقصان میں تھیں مگر بھاری رقوم کی ریوالونگ میں مصروف تھیں،جے آئی ٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہی کہ ان فنڈز سے برطانیہ میں مہنگی جائیدادیں خریدی گئیں انہی آف شور کمپنیوں کو برطانیہ میں فنڈز کی ترسیل کے لیے استعمال کیا گیا۔رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ نیب آرڈیننس سیکشن 9اے وی کی تحت یہ کرپشن اور بدعنوانی کے زمرے میں آتا ہے، لہذا جے آئی ٹی مجبور ہے کہ معاملے کو نیب آرڈیننس کے تحت ریفر کردے، جے آئی ٹی نے حدیبیہ پیپر مل میں اہم کردار ہونے پر نیشنل بینک کے صدر سعید احمد اور جاوید کیانی کانام ای سی ایل میں ڈالنے کی سفارش بھی کی گئی ہے۔جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ میں پیش کردہ رپورٹ میں الزام لگایا ہے کہ مریم نواز شریف نے جے آئی ٹی میں جعلی دستاویزات جمع کرائی، جو ایک جرم ہے، ان جعلی دستاویزات پر حسین نواز، مریم صفدر اور کیپٹن صفدر کے بھی دستخط ہیں۔رپورٹ کے مطابق مریم نواز کا یہ دعویٰ بھی غلط نکلا کہ وہ ایوان فیلڈ پراپرٹیز کی ٹرسٹی ہیں،جبکہ وہ اس جائیداد کی مالک نکلی ہیں۔جے آئی ٹی کی رپورٹ میں الزام لگایا گیا کہ مریم، حسین اور کیپٹن صفدر نے حقائق چھپانے والی دستاویزات پر دستخط بھی کیے۔