میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
عدالتِ عظمیٰ میں جے آئی ٹی رپورٹ پیش‘شریف خاندان کے انجام کا آغاز

عدالتِ عظمیٰ میں جے آئی ٹی رپورٹ پیش‘شریف خاندان کے انجام کا آغاز

ویب ڈیسک
منگل, ۱۱ جولائی ۲۰۱۷

شیئر کریں

وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی کی صورت میں عدالت کیس کا حتمی فیصلہ دے سکتی ہے، احتساب عدالت میں ریفرنس بھی جا سکتا ہے
نوازشریف کو پانچ رکنی بینچ کے دو جج پہلے سے ہی نااہل قرار دے چکے ہیں، متاثرہ فریق کو دفا کا مکمل موقع ملے گا۔(قانونی ماہرین)
نجم انوار
عدالت عظمیٰ میںپاناما پیپرز کیس کے سلسلے میں قائم کی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے اپنی چوتھی اور حتمی رپورٹ پیش کردی۔ جے آئی ٹی کے ارکان نے واجد ضیاکی سربراہی میں سپریم کورٹ میں پیش ہوکر جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں تین رکنی عمل درآمد بینچ کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کی۔
تفصیلات کے مطابق جے آئی ٹی کے ارکان عدالتِ عظمیٰ میں پہنچے تو ان کے ساتھ 11 جلدوں پر مشتمل دو صندوق تھے۔ جو اُن کے ساتھ ہی کمرۂ عدالت میں لے جائے گئے ۔ اس دوران میں رینجرز کے خصوصی دستے نے جے آئی ٹی کے ارکان کو سیکیورٹی دی۔جبکہ عدالتِ عظمیٰ کے اطراف بھی حفاظتی انتظامات خصوصی طور پر کیے گئے۔
پاکستان میں قانونی ماہرین جے آئی ٹی کی رپورٹ پیش ہونے کے بعد سپریم کورٹ کے ممکنہ فیصلے اور اس کے اثرات کو مختلف طریقے سے دیکھ رہے ہیں۔ مشہور ماہر قانون ایس ایم ظفر کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی شواہد جمع کرنے والی ایک کمپنی ہے جس نے شواہد جمع کرنے کے بعد اپنی رپورٹ خصوصی عدالت میں جمع کرادی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کو شواہد جمع کرنے کا کام دیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کو اس معاملے میں اپنی رائے نہیں دینی چاہیے کیونکہ یہ ان کے دائرہ اختیار سے باہر ہے جو اس کیس میں شامل لوگوں پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ چونکہ سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کے 2 جج صاحبان پہلے ہی وزیراعظم نواز شریف کو نا اہل قرار دے چکے ہیں ،لہٰذا ممکن ہے کہ وہ مزید عدالتی کارروائی کا حصہ نہیں ہوں گے اور نتیجتاً باقی 3 جج صاحبان جے آئی ٹی رپورٹ پر مزید کارروائی کریں گے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کی جانب سے پیش کی جانے والی رپورٹ کی کاپیاں درخواست دہندگان اور جواب دہندہ گان کوحاصل کرکے انہیں اپنے دلائل اور اعتراضات کے لیے طلب کرلیا ہے۔
عدالت اب اس کیس میں شامل افراد کے دلائل سننے کے بعد وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی کی صورت میں اس کیس کا حتمی فیصلہ دے سکتی ہے یا پھر عدالت اس کیس کے ریفرنس کو احتساب عدالت جیسے مناسب فورم پر بھی بھیج سکتی ہے۔جے آئی ٹی کے شواہد کے مطابق اگر وزیراعظم نواز شریف ایماندار نہیں پائے گئے تو سپریم کورٹ انہیں نااہل قرار دے سکتی ہے یا پھر اس معاملے کو الیکشن کمیشن پاکستان (ای سی پی) کو بھیج سکتی ہے۔یاد رہے کہ سابق چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چوہدری نے بھی جعلی ڈگری رکھنے کے جرم میں کئی پارلیمنٹیرنزکو نااہل قرار دے کر گھر بھیج دیا تھا۔
الیکشن کمیشن کے ایک سینئر عہدیدار نے بتایا کہ ای سی پی میں جعلی ڈگری جمع کرانے کے جرم میں ریپریزنٹیشن آف پیپلز ایکٹ کے تحت اْس قانون ساز کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے جس میں تین سال تک قید اور بھاری جرمانہ شامل ہے لیکن، وزیراعظم نواز شریف کا معاملہ اس سے الگ ہے لہٰذا خصوصی عدالت اسے آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت دیکھے گی۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر کامران مرتضٰی کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی کو سپریم کورٹ کے حکم پر تشکیل کیا گیا تھا لہٰذا سپریم کورٹ ہی اس معاملے کی مزید کارروائی کو دیکھے گی۔ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نواز شریف کو نااہل قرار نہیں دے سکتی کیونکہ یہ قدرتی انصاف کے اصول کے خلاف ہے جبکہ سپریم کورٹ جے آئی ٹی کی رپورٹ سے متاثرہ فریق کو اپنا دفاع کرنے کا مکمل موقع فراہم کرے گی۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جواب دہندگان سپریم کورٹ کا لارجر بینچ بنانے کے لیے درخواست دائر کریں گے تو موجودہ بینچ اس درخواست پر اپنا فیصلہ سنا سکتا ہے یا پھر اس درخواست کو چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار کی جانب بھیجا جاسکتا ہے تاکہ وہ اس درخواست کے حوالے سے مناسب فیصلہ دیں۔
دوسری جانب پاکستان بار کونسل کے سابق چیئرمین محمد رمضان چوہدری کا کہنا ہے کہ پاناما کیس کے 5 رکنی بینچ نے چیف جسٹس پاکستان سے درخواست کی ہے کہ وہ پاناما فیصلے پر عملدرآمد کے لیے خصوصی بینچ تشکیل دیں۔
پس منظر
پاکستان کے سیاسی افق پر پاناما لیکس کے معاملے نے اپریل 2016 میںاُس وقت ہلچل مچائی، جب بیرون ملک ٹیکس کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور لا فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقت ور اور سیاسی شخصیات کے ‘آف شور’ مالی معاملات عریاں ہوئے تھے۔اس پر پاکستان میں اُٹھنے والے شور اور تحریک انصاف کی طرف سے احتجاج نے بالآخر عدالت عظمیٰ کو اس جانب متوجہ کیااور رواں برس 20 ؍اپریل کو عدالت کے ایک پانچ رکنی بینچ نے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیتے ہوئے پاناما لیکس کیس کے فیصلے میں کہا تھا کہ ایف آئی اے کے سینئر ڈائریکٹر کی سربراہی میں جے آئی ٹی تشکیل دی جائے جو 2 ماہ میں اپنی تحقیقات مکمل کرے گی، جبکہ جے آئی ٹی کو ہر 2 ہفتے بعد سپریم کورٹ کے بینچ کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کرنے کی بھی ہدایت کی گئی تھی۔اس کے بعد 6 مئی کو سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل تین رکنی خصوصی بینچ نے جے آئی ٹی میں شامل ارکان کے ناموں کا اعلان کیا تھا۔
جے آئی ٹی کا سربراہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل واجد ضیاکو مقرر کیا گیا جبکہ دیگر ارکان میں ملٹری انٹلیجنس (ایم آئی) کے بریگیڈیئر کامران خورشید، انٹر سروسز انٹلیجنس (آئی ایس آئی) کے بریگیڈیئر نعمان سعید، قومی احتساب بیورو (نیب) کے گریڈ 20 کے افسرعرفان نعیم منگی، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے بلال رسول اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے عامر عزیز شامل تھے۔
پاناما پیپرز کی جانب سے انٹرنیشنل کنسورشیم آف انوسٹی گیٹیو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والا یہ ڈیٹا ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات پر مشتمل ہے، جس میں روس کے صدر ولادی میر پوٹن، سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان، آئس لینڈ کے وزیر اعظم، شامی صدر اور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سمیت درجنوں حکمرانوں کے نام شامل تھے۔ویب سائٹ پر موجود ڈیٹا کے مطابق، پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کے بچوں مریم، حسن اور حسین ’کئی کمپنیوں کے مالکان ہیں یا پھر ان کی رقوم کی منتقلی کے مجاز تھے‘۔موزیک فانسیکا کے نجی ڈیٹا بیس سے 2.6 ٹیرا بائٹس پر مشتمل عام ہونے والی ان معلومات کو امریکی سفارتی مراسلوں سے بھی بڑا قرار دیا جا رہا ہے۔
عدالت عظمیٰ نے تصویر لیک کا معاملہ نمٹا دیا
عدالت ِ عظمیٰ نے جے آئی ٹی رپورٹ سے قبل وزیراعظم کے صاحبزادے حسین نواز کی فوٹو لیک کے معاملے پردائر درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے حکومت کو اس میں ملوث شخص کے خلاف کارروائی کی اجازت دے دی۔تصویر لیک کے معاملے پر عدالت نے حکومت کو ہدایت کی کہ اگر وہ چاہے تو ذمہ دار کے خلاف کارروائی کرسکتی ہے، اس کے علاوہ حکومت تصویر لیک کے معاملے پر کمیشن بنانا چاہے تو بنا سکتی ہے، کیونکہ کمیشن بنانے کا معاملہ عدالت کے دائر اختیار میں نہیں آتا۔اس موقع پر عدالت نے جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاکو ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ تصویر لیک کے ذمہ دار کا نام منظر عام پر لایا جائے۔تاہم عدالت نے ساتھ ہی واضح بھی کیا کہ ’’ہمارے خیال میں تصویر لیک کے معاملے پر کمیشن بنانے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہمارے کہنے کے باجود پر حکومت نے ذمہ دار کا نام ظاہر کرنے میں دلچسپی نہیں لی‘‘۔اس موقع پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وفاق کو تصویر لیک کے ذمہ دار کا نام منظر عام پر لانے پر کوئی اعتراض نہیں۔
ایس ای سی پی کے چیئرمین ظفر حجازی کے خلاف مقدمہ درج کرنے کاحکم
عدالت عظمیٰ کے بینچ نے پاناما کیس پر قائم جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ جمع کر انے کے دوران میں ایس ای سی پی کے چیئرمین ظفر حجازی کی جانب سے ریکارڈ ٹیمپرنگ کے حوالے سے سوال کیا۔اس ضمن میںجسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ کال اور ریکارڈ ٹیمپرنگ کا کیا ہوا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ایف آئی اے نے چیئرمین ایس ای سی پی کو اس کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔اس پر عدالت نے کہا کہ سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے چیئرمین ظفر حجازی کے خلاف آج ہی ایف آئی آر درج ہونی چاہیے اور یہ بھی سامنے آنا چاہیے کہ کس کے کہنے پر ریکارڈ میں ردو بدل کیا گیا۔اس کے بعد سپریم کورٹ نے چیئرمین ایس ای سی پی ظفر حجازی کے خلاف مقدمہ درج کرانے کا حکم جاری کردیا۔اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایف آئی اے نے فوجداری مقدمہ درج کرنے کی سفارش کی ہے۔
وزیراعظم کے مشیر آصف کرمانی اور لیگی رہنماؤں کی تقاریر کے متن طلب
عدالت ِ عظمیٰ نے وزیراعظم کے سیاسی مشیر آصف کرمانی اور دیگر لیگی رہنماؤں طلال چوہدری اور سعد رفیق کی جانب سے کی جانے والی تقاریر کا متن طلب کرتے ہوئے کہا کہ تقاریر میں جے آئی ٹی کو دباؤ میں لانے کے ساتھ عدالت کو دھمکیاں بھی دی گئیں۔اس موقع پر تحریک انصاف کے رہنما اور ترجمان فواد چودھری نے کہا کہ رانا ثناء اللہ کی بھی تقریر کا متن طلب کیا جائے جس پر عدالت عظمیٰ کے بینچ نے کہا کہ کیوں نہ آپ کی گفتگو کا بھی متن طلب کر لیا جائے۔ جس پر عدالت میں ایک قہقہ بلند ہوا۔
نہال ہاشمی پر فردِ جرم عائد
عدالت عظمیٰ نے مسلم لیگ نون کے رہنما اور سینیٹر نہال ہاشمی پر توہین عدالت میں فردِ جرم عائد کردی۔ عدالت عظمیٰ میں جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الامین پر مشتمل تین رکنی بینچ نے توہینِ عدالت کیس کی سماعت کے دوران میں نہال ہاشمی کی تقریر کا متن پڑھا گیا۔ جس کے بعد جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ کیا یہ تقریر آپ نے ہی کی ہے۔ اس پر نہال ہاشمی کے وکیل نے کہا کہ یہ تقریر کا حصہ ضرور ہے مگر اِسے جس طرح پیش کیا گیا، ویسے یہ نہیں ہے۔ اور اس تقریر میں کسی جج کا نام نہیں لیا گیا۔ اس پر جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ آخر حساب کون لے رہا ہے۔ نہال ہاشمی کے وکیل نے ایک موقع پر کہا کہ یہ توہینِ عدالت نہیں اور شیطان کو بھی ایک وارننگ دی گئی تھی۔ جس پر جسٹس اعجازنے کہا کہ ہم نے آپ کو وقت دیااور اب فردِ جرم عائد کرنے کے بعد بھی آپ کو موقف پیش کرنے کا پورا موقع دیا جائے گا۔ ہم نے جیل نہیں بھیجا نہ ہی جرمانہ کیا۔ لیکن اب ہم نے فردِ جرم عائد کرنا ہے۔ اس پر نہال ہاشمی کے وکیل کی جانب سے مزید مہلت کی درخواست کی گئی جسے عدالت نے مسترد کرتے ہوئے فردِ جرم عائد کردی اور سماعت 24؍ جولائی تک ملتوی کردی۔
جنگ گروپ کو توہین عدالت کا نوٹس
عدالتِ عظمیٰ نے دی نیوز کی رپورٹنگ کو بھی سنجیدگی سے لیا اور جنگ گروپ کے پبلشر، ایڈیٹر اور پرنٹر کے نام طلب کرتے ہوئے جنگ گروپ، رپورٹر احمد نورانی اور میر جاوید الرحمٰن کو توہین عدالت کے شوکاز نوٹس جاری کرنے کی ہدایت کردی۔سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کو انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے معاملات دیکھنے کی خبر پر نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ جس نے اسٹوری فائل کی وہ چھپ کر بیٹھا ہے۔عدالت نے کہا کہ ایک رپورٹر کی یہ ہمت کیسے ہوئی کہ وہ جج کو فون کرے۔اب یہ وقت آگیا ہے کہ رپورٹر سپریم کورٹ کے جج کو فون کرے گا۔
نوازشریف بھی ایک آف شور کمپنی کے مالک نکل آئے
وزیراعظم اور اْن کے بیٹوں کی دولت اور اْن کے ذرائع آمدن میں کوئی مطابقت نہیں
شریف خاندان اپنی منی ٹریل ثابت کرنے میں ناکام،نیلسن اور نیسکول کی مالک بھی مریم نواز نکلیں
نیب آرڈیننس کیسیکشن 9 اے (وی )کے تحت کرپشن اور بدعنوانی ثابت،نیب میں ریفرنس دائر کیا جائے
پاناما لیکس پر عدالت عظمیٰ کے حکم پر قائم جے آئی ٹی نے وزیرا عظم نواز شریف، ان کے بیٹوں حسن نواز اور حسین نواز اور بیٹی مریم نواز کے خلاف نیب میں ریفرنس دائر کرنے کی سفارش کردی ہے۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے 256 صفحات پر مشتمل اپنی رپورٹ میں سفارش کی ہے کہ مدعا علیہان تحقیقاتی ٹیم کے سامنے رقوم کی ترسیلات کی وجوہات نہیں بتا سکے، جبکہ ان کی ظاہرکردہ دولت اور ذرائع آمدن میں واضح فرق موجود ہے۔مزید برآں وزیراعظم نوازشریف اور اْن کے بچے آمدنی کے ذرائع بتانے میں ناکام رہے اور وہ اپنی منی ٹریل ثابت نہیں کرسکے۔
جے آئی ٹی نے برٹش ورڑن آئی لینڈ سے مصدقہ دستاویزات حاصل کیں جس سے ثابت ہوا کہ آف شور کمپنیاں نیلسن اور نیسکول کی مالک مریم نواز ہیں اور ان دونوں کمپنیوں کے حوالے سے جمع کرائی گئی دستاویزات جعلی ہیں، جبکہ ’ایف زیڈ ای کیپیٹل‘ کمپنی کے چیئرمین نواز شریف ہیں۔ایف زیڈ ای کیپیٹل کے حوالے سے یہ خبر خاصی سنسنی خیز ہے کہ اس کے چیئرمین نوازشریف ہیں کیونکہ اب تک اس حوالے سے کوئی بات ذرائع ابلاغ پر سامنے نہیں آسکی تھی۔
جے آئی ٹی کی رپورٹ کے صفحہ 252 پیرا 8 سے واضح ہوتا ہے کہ سعودی عرب کی ’ہل میٹلز‘ اور متحدہ عرب امارات کی ’ کیپیٹل ایف زیڈ ای‘ کمپنیوں سے کافی بے قاعدہ ترسیلات کی گئیں، جبکہ بیقاعدہ ترسیلات اور قرض نواز شریف، حسن نواز اور حسین نواز کو ہی ملے۔ رپورٹ میں یہ حیران کن انکشاف بھی شامل ہے کہ برطانیا کی کمپنیاں نقصان میں ہونے کے باوجود بھاری رقوم کی ہیر پھیر میں مصروف تھیں، جبکہلندن کی جائیدادوں کو اس کاروبار کی وجہ سے قراردینا آنکھوں میں دھول جھونکنا ہے۔جبکہ یہی آف شور کمپنیاں برطانیامیں فنڈز کی ترسیل کے لیے استعمال کی گئیں، ان ہی فنڈز سے برطانیا میں مہنگی جائیدادیں خریدی گئیں۔
جے آئی ٹی رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ پاکستان میں موجود کمپنیوں کا مالیاتی ڈھانچہ مدعا علیہان کی دولت سے مطابقت نہیں رکھتا۔
اس پورے تناظر میں جے آئی ٹی نے قرار دیا کہ نیب آرڈیننس 1999 کے سیکشن 9 اے وی کے تحت یہ کرپشن اور بدعنوانی کے زمرے میں آتا ہے، لہٰذا جے آئی ٹی مجبور ہے کہ معاملے کو نیب آرڈیننس کے تحت ریفر کردے۔
عمران خان نے وزیراعظم کے استعفیٰ کا مطالبہ کردیا شریف خاندان کے نام ای سی میں ڈالے جائیں، ہمارے خدشات درست ثابت ہوئے ‘تحریک انصاف
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے جے آئی ٹی رپورٹ عدالت عظمیٰ میں پیش ہونے کے بعد پریس کانفرنس میں وزیراعظم کے استعفیٰ کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ شریف خاندان کے تمام افراد کے نام ای سی ایل میں ڈالے جائیں۔ عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ وزیراعظم اور حکومتی وزرا نے انصاف کے راستے میں رکاوٹیں ڈالیں جب کہ ایف آئی اے اور آئی بی سمیت دیگر اداروں کو اپنے حق میں استعمال کیا گیا اور سپریم کورٹ میں آئی بی کا کردار بھی سامنے آگیاجبکہ چیئرمین ایس ای سی پی ظفر حجازی پر مقدمہ درج کرنے کاحکم دیا گیا۔عمران خان کا کہنا تھا کہ ہمارے سارے خدشات سچ ثابت ہوگئے ہیں اور اب جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی میں وزیراعظم کو استعفیٰ دے دینا چاہیے کیوں کہ اب ان کے پاس مستعفیٰ ہونے کے سوا اور کوئی جوا ز نہیں ، عمران خان نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ نوازشریف کے خلاف دو ججز کا فیصلہ آنے کے بعد ہی انہیں مستعفیٰ ہوجانا چاہیے تھا۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ شریف خاندان نے اپنی چوری چھپانے اور ہمیں بلیک میل کرنے کے لیے ہمارے خلاف مقدمات دائر کروائے اور اپنے وزیروں کے ذریعے میرے خاندان والوں کو بدنام کیا جن کا سیاست سے کوئی تعلق ہی نہیں جب کہ میں تو صرف بطور اپوزیشن لیڈر اپنا فرض ادا کررہا تھا لیکن شریف خاندان کا یہی طریقہ واردات ہے جو یہ پچھلے 30 سال سے ملک کو لوٹتے آرہے ہیں۔
وزیراعظم کے کزن طارق شفیع کی گواہی جھوٹی قرار
جے آئی ٹی رپورٹ میں گلف اسٹیل مل سے متعلق رپورٹ کے ایک حصے پر متحدہ عرب امارات کی وزارت انصاف کے سرکاری جواب کو شامل کیا گیا ہے، جس کے مطابق یہ کہا گیا ہے کہ بادی النظر میں کیس کے اہم مدعا علیہ اور وزیر اعظم نواز شریف کے کزن طارق شفیع کے بیانات درست نہیں۔
وزیر اعظم کے کزن طارق شفیع نے دعویٰ کیا تھا کہ العہلی اسٹیل (گلف اسٹیل مل) کے 25 فیصد شیئرز اپریل 1980 میں ایک کروڑ 20 درہم میں فروخت کیے گئے، مگر یو اے ای کے سرکاری جواب کے تحت نہ تو ایسا کبھی ہوا اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی ریکارڈ موجود ہے۔ماہرین کے مطابق یہی بیان ذرائع آمدن سے متعلق شریف خاندان کے دفاع کا سب سے اہم حصہ تھا۔
جے آئی ٹی کی رپورٹ کے مطابق متحدہ عرب امارات کے سرکاری جواب میں کہا گیا ہے کہ انہیں 2001 سے 2002 کے درمیان اسکریپ مشینری کی دبئی کی العہلی اسٹیل ملز سے جدہ منتقلی کا کوئی کسٹم ریکارڈ نہیں ملا، بلکہ2001 سے 2002 کے عرصے میں بظاہر دبئی سے جدہ کوئی اسکریپ مشینری منتقل نہیں کی گئی۔لطف کی بات یہ ہے کہ طارق شفیع کے دعوے کے برخلاف متحدہ عرب امارات کی وزارت انصاف کے سرکاری جواب میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ یو اے ای کی مرکزی بینک کے ذریعے طارق شفیع کی طرف سے فہد بن جاسم بن جبار بن الثانی کو ایک کروڑ 20 لاکھ درہم منتقل کرنے کا بھی کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں