عدلیہ اورفوج کومتنازع بنانے سے گریز کیاجائے
شیئر کریں
نواز شریف کابینہ میں شامل چاراہم وزرا ء نے گزشتہ روز ایک پریس کانفرنس میں سپریم کورٹ کی تشکیل کردہ جے آئی ٹی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تاہم اس پریس کانفرنس پر بھی وفاقی وزرا ء غالباً مطمئن نہیں ہوئے اوروہ اس پریس کانفرنس کے بعد بھی جے آئی ٹی کو نشانا بنانے کے لیے بیانات کے گولے داغتے رہے۔ وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ کچھ مائنڈسیٹ پاکستان میں جمہوری حکومت نہیں چاہتے اوراگر ہمیں سیاست سے نکالنے کی کوشش کی توملک سے سیاست ہی ختم ہوجائے گی۔لاہور میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ بعض عالمی قوتیں پاکستان کو دست نگر بناکررکھنا چاہتی ہیں ۔اُنھوںنے کہا کہ ہمیں سیاست سے نکالنے کی کوشش کی گئی توملک سے سیاست ختم ہوجائے گی اور بہت سے لوگ اس کوشش میں خود فارغ ہوجائیں گے،انھوں نے یہ بھی دعویٰ کردیا کہ ہم جانتے ہیں کہ کون کون اس کھیل میں شریک ہے اور کہاں سے تالی بجتی ہے لیکن انھیں اس کھیل میں بقول ان کے شامل کسی فرد کا نام لینے کی جرات نہیں ہوسکی، سعد رفیق نے کہا کہ اس سیاست میں کسی کو کچھ نہیں ملا، جمہوری حکمتوں کو رسوا کرکے نکالنے کا رجحان ہے، ہمارے ساتھ پہلی بار نہیں ہورہا، تاریخ کا پہیہ اُلٹا گھمانے کی کوشش کی جارہی ہے، تاہم ایسا نہیں ہونے دیں گے ،انھوں نے جے آئی ٹی کو براہ راست نشانا بناتے ہوئے دعویٰ کیا کہ جے آئی ٹی بنانے کا مقصد کچھ اور تھا لیکن جے آئی ٹی نے کچھ اور کام شروع کردیا ہے ہمیں الہام نہیں ہوا تھا کہ جے آئی ٹی واٹس ایپ کال پر بن جائے گی۔انھوں نے دعویٰ کیا کہ ہم بار بار جے آئی ٹی کے سامنے گئے لیکن جب نظر آیا کہ یہاں انصاف نہیں ہورہا تو کیاتنقید بھی نہ کریں جب کہ عمران خان الیکشن کمیشن کو گالیاں دیتے ہیں، عدالتوں کے فیصلے ماننے پڑتے ہیں لیکن اگر اعتراض ہوگا تو سامنے لایا جائے گا۔وزیردفاع خواجہ آصف بھی پیچھے نہیں رہے بلکہ سعد رفیق سے ایک قدم آگے بڑھ کر انھوںنے یہ بھی دھمکی دے ڈالی کہ نوازشریف کو عوام نے اقتدار دیا اور اسے کوئی بھی نہیں چھین سکتا۔خواجہ آصف نے یہاںتک دھمکی دی کہ اب وقت بدل چکا ہے اب مخالفین کھلے لفظوں میں کان کھول کرسن لیں کہ کوئی میچ فکسنگ نہیں ہوگی، عوام نے جو اقتدار نوازشریف کو دیا اب اسے کوئی بھی نہیں چھین سکتا۔انھوںنے دعویٰ کیا کہ نوازشریف پر اس کاروبار کا الزام ہے جس کا وہ حصہ ہی نہیں ہیں۔
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے ن لیگ کے 4 وزیروں کی پریس کانفرنس اوران کے بیانات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاہے کہ پاناما کیس نواز شریف کے خاندان کے خلاف ہے، نواز شریف کے خلاف فوجداری تحقیقات ہورہی ہے، جو لوگ نواز شریف کا دفاع کررہے ہیں وہ نواز شریف کے ذاتی ملازم ہیں۔ شیخ رشید نے کہا کہ قطری شہزادہ حسین نوازکا گواہ ہے، قطری شہزادہ نوازشریف کے لیے نہیں بلکہ حسین نواز کی صفائی کے لیے آیا تھا، قطری نے کہا وہ پاکستانی عدالتوں کے دائرہ کار کو نہیں مانتا، جے آئی ٹی میں نواز شریف پیش ہوسکتے ہیں تو قطری شہزادہ کیوں نہیں، حکومت کی ذمہ داری تھی وہ قطری شہزادے کو پیش کرتی، ن لیگ والے فوج کو چیلنج کر رہے ہیں۔انھوں نے کہا کہ اس وقت پوری قوم فوج اور عدلیہ کے ساتھ کھڑی ہے لیکن بعض لوگ ملک میں خلفشار پھیلانا چاہتے ہیں، ساری قوم عدلیہ کے فیصلے کا انتظار کررہی ہے انہوں نے کہا کہ سپریم کو رٹ کا جو بھی فیصلہ ہوگا ہم تسلیم کریں گے۔پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا کہنا ہے کہ 1997 میں جس طرح سپریم کورٹ پر حملہ کیا گیا ایسا لگتا ہے کہ معاملہ دوبارہ اسی طرف جارہا ہے۔ انھوںنے سپریم کورٹ سے اپیل کی کہ وزیراعظم نواز شریف کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے کیوں کہ وہ ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔
جہاں تک جے آئی ٹی کاتعلق ہے تو یہ بات واضح ہے کہ جے آئی ٹی ایک تفتیشی ادارے کے طورپر ایک ایسے مسئلے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے تشکیل دی گئی تھی جس پر سپریم کو رٹ کے جج صاحبان کی رائے منقسم ہوگئی تھی، جے آئی ٹی کاکام صرف اس معاملے کی تفتیش کے بعد اس تفتیش کے دوران سامنے آنے والے شواہد کی بنیاد پر اپنی مرتب کردہ رپورٹ سپریم کورٹ کے سامنے پیش کرنا تھا جو اس نے پیش کردی ہے۔ اسے اس حوالے سے خود کوئی فیصلہ کرنے یاسنانے کااختیار حاصل نہیں ہے۔سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان جے آئی ٹی کی رپورٹ موصول ہونے کے بعد اس کابغور جائزہ لینے اور پوری چھان بین کے بعد اس حوالے سے کوئی فیصلہ کریں گے اور چونکہ جے آئی ٹی تفتیش کا یہ فریضہ سپریم کورٹ کے حکم پر انجام دے رہی ہے اس لیے اس کی کارکردگی پر سوال اٹھانا نہ صرف یہ کہ قبل از وقت ہے بلکہ اس سے سپریم کورٹ پر عدم اعتماد کا بھی اظہار ہوتاہے اور خود حکومت کی جانب سے ملک کی سب سے بڑی عدالت کے کسی فیصلے پر عدم اعتماد کا اظہار کسی طور بھی مناسب قرار نہیں دیاجاسکتا بلکہ ایسا کرنا سپریم کورٹ کی کارروائی میں مداخلت بیجا اور توہین عدالت بھی تصور کی جاسکتی ہے۔
جہاں تک وزرا کے استدلال کاتعلق ہے کہ اگر جے آئی ٹی نے قطری شہزادے سے تفتیش نہ کی تو وہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کو تسلیم ہی نہیں کریں گے تو اس حوالے سے حکمراں مسلم لیگ کے ارباب اختیار اور رپورٹ تسلیم نہ کرنے کی دھمکی دینے والوں کو یہ بات معلوم ہونی چاہئے کہ گواہ کو عدالت میں پیش کرنا گواہ کے نام پیش کرنے کی ذمہ داری ہے اور گواہ عدالت میں پیشی کے لیے کوئی پیشگی شرط عاید نہیں کرسکتا، اس حوالے سے عمران خان کا یہ کہنا حقیقت سے زیادہ قریب ہے کہ اگر قطری شہزادہ شکار کھیلنے پاکستان آسکتاہے اور یہاں کئی کئی دن قیام کرسکتاہے تو پھر وہ عدالت میں پیشی سے گریزاں کیوں ہے ۔ حکمراں پارٹی پر سپریم کورٹ نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ اگر قطری شہزادے عدالت میں پیش نہ ہوئے تو ان کی جانب سے بھیجا گیا خط ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جائے گا۔قطری شہزادہ حکومت کے دفاع کا اہم ذریعہ تھا ۔لہٰذا حکومت کی ذمہ داری تھی کہ وہ قطری شہزادے کو اپنی صفائی کے لیے لانے کا بندوبست کرتے۔
اس صورت حال میں عمران خان کا یہ بیان حقیقت کے قریب ترین معلوم ہوتاہے کہ حکمرانوں کو پتہ چل گیا ہے کہ تحقیقات اب اس نہج پر پہنچ چکی ہیں جہاں وزیراعظم کو نااہل قرار دیا جاسکتاہے لہٰذا اب انہوں نے یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ وہ رپورٹ تسلیم نہیں کریں گے۔ جہاں تک خود وزیر اعظم اور ان کے وزرا کی اس شکایت کا تعلق ہے کہ ان کے خلاف سازش کی جارہی ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ الزام لگاکر وہ حکومت کے کس ادارے کو نشانا بنانا چاہتے ہیںکیونکہ تمام ادارے حکومت کے کنٹرول میں ہیںصرف فوج اور سپریم کورٹ دو ادارے ایسے ہیں جو براہ راست حکومت کو جوابدہ نہیںہیں ،اس طرح حکومت کی جانب سے لگائے جانے الزام کارخ بظاہر ان ہی دو اداروں کی جانب محسوس کیا جاتاہے لیکن ہماری مسلح افواج اور عدلیہ کے اب تک کے کردار سے ایسے کوئی شواہد نہیں ملتے جن کی بنیاد پر ان
اداروں پر شکوک وشبہات کااظہار کیاجاسکے ،وزیر اعظم نواز شریف کو اس صورت حال پر غور کرنا چاہئے اور اپنے وزرا اور اہل خانہ کو ایسی باتوں سے گریز کی ہدایت کرنا چاہئے جس سے ملک کے ان دو مضبوط اور قطعی غیر جانبدار اداروں پر حرف آنے کااندیشہ ہو،کیونکہ ملک کومستحکم اورمضبوط رکھنے کے لیے ان دو اداروں کی غیر متنازع حیثیت کوبرقرار رکھنا اور اس کومتنازع بنانے سے گریز کرنے کی ذمہ داری سب سے زیادہ حکومت پر ہی عاید ہوتی ہے۔امید کی جاتی ہے کہ وزیر اعظم اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے پر توجہ دیں گے۔ ۔