ہم سب گدھے ہیں
شیئر کریں
علی عمران جونیئر
دوستو، ملک بھر میں گدھوں کی تعداد میں ایک سال کے دوران ایک لاکھ کا اضافہ ہوگیا جو 57لاکھ سے بڑھ کر 58لاکھ ہوگئی، اقتصادی سروے رپورٹ میں گدھوں سمیت دیگر جانوروں کی تعداد کے حوالے سے اعداد و شمار جاری کردیے گئے جس کے مطابق ملک میں گدھوں کی تعداد مزید ایک لاکھ بڑھ گئی جس کے باعث گدھوں کی تعداد 57 لاکھ سے بڑھ کر 58 لاکھ ہو گئی۔سروے رپورٹ کے مطابق ایک سال میں بھینسوں کی تعداد میں 13 لاکھ کا اضافہ ہوا جس کے بعد ملک میں بھینسوں کی تعداد 4 کروڑ37 لاکھ سے 4 کروڑ 50 لاکھ ہو گئی،ایک سال میں بھیڑوں کی تعداد میں 4 لاکھ کا اضافہ ہوا، اضافے کے بعد ملک میں بھیڑوں کی تعداد 3 کروڑ 23 لاکھ ہوگئی۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ ملک میں بکریوں کی تعداد میں بھی 22 لاکھ کا اضافہ ہوا، ملک میں بکریوں کی تعداد 8 کروڑ 25 لاکھ سے 8 کروڑ 47 لاکھ ہو گئی ہے۔اقتصادی سروے کے مطابق ملک میں گھوڑوں، اونٹوں اور خچروں کی تعداد میں کوئی اضافہ نہیں ہوا، گھوڑوں کی تعداد 4 لاکھ اور خچروں کی تعداد 2 لاکھ برقرار رہی جبکہ ملک میں اونٹوں کی تعداد 11 لاکھ پر برقرار ہے۔
گدھا بار برداری کا جانور ہے اور اس وقت پاکستانی قوم کی حالت اسی بار برداری کے جانور جیسی ہے جو بیوقوفوں کی طرح بوجھ اٹھاتا ہے لیکن بوجھ سے نجات حاصل نہیں کرتا۔سیاست، بیوروکریسی، میڈیا، عدلیہ، تعلیم، صحت، کھیل غرض ہر شعبہ حیات میں ایسے گماشتے بیٹھے ہیں جو صرف اپنی خواہشات کے غلام ہیں۔ سیاست میں تقریباً چار دہائیوں سے ابن الوقتوں کا طوطی بول رہا ہے۔ جو بھی سیاست اور حکومت میں آیا۔ اُس نے اربوں روپیہ کمایا۔ عوامی بہبود کے حوالے سے کچھ کرتے موت آ گئی۔ آج بنگلہ دیش، انڈونیشیا، ملائیشیا، سری لنکا، بھارت، چین سب ہم سے آگے اور انتہائی ترقی پر ہیں اور ہماری تنزلی کی داستانیں ختم نہیں ہوتیں۔ ملک میں جس طرح کے حالات چل رہے ہیں، اس سے تو ایسا ہی لگتا ہے کہ ہم سب گدھے ہیں، جہاں مرضی ہانک دیا، جو مرضی کھانے کو دیا، جو مرضی پینے کو دیا، جب مرضی مہنگائی کردی، جب مرضی عید کردی، جب مرضی لوڈشیڈنگ کردی، جب مرضی سڑک توڑ دی، جب مرضی ملک میں اپنی پسند کا قانون نافذ کردیا، سمجھ نہیں آتا کہ اس قوم کا بنے گا کیا؟
بند دکان کے تھڑے پر بیٹھے دو بوڑھے آپس میں باتیں کرتے ہوئے ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہے تھے کہ،ایک متجسس راہگیر نے ان سے اتنا خوش ہونے کی وجہ پوچھ لی۔۔ایک بوڑھے نے اپنی ہنسی پر قابو پاتے ہوئے بتایا کہ ہم نے ملک کے مسائل حل کرنے کے لیے ایک شاندار منصوبہ ڈھونڈ لیا ہے،اور وہ منصوبہ یہ ہے کہ ساری قوم کو جیل میں ڈال دیا جائے،اور ان سب کے ساتھ ایک گدھا بھی جیل میں ڈالا جائے۔راہگیر نے حیرت سے دونوں کو دیکھا اور پوچھا کہ،وہ سب تو ٹھیک ہے،مگر ساتھ گدھے کو کیوں قید کیا جائے؟دونوں بوڑھوں نے فلک شگاف قہقہہ لگاتے ہوئے ایک دوسرے کو دیکھا،اور ایک بوڑھے نے دوسرے سے کہا،دیکھا شرفو، آگیا یقین تجھے میری بات پر، میں نہیں کہتا تھا کہ یہ قوم اپنے بارے میں کبھی پریشان نہیں ہو گی، سب کو بس گدھے کی ہی فکر ہو گی۔ہمارے معاشرے کی ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ یہاں ہر بندہ دوسرے کو گدھا سمجھتا ہے۔واقعی یہ حقیقت بھی ہیں کہ ہم اتنے گدھے ہیں کہ کوئی بھی ہمیں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگادیتا ہے اور دوڑے چلے جاتے ہیں، کچھ سوچتے ہیں نہ سمجھتے ہیں، بس لبیک کہتے ہیں۔
ایک گدھے نے کہیں سے شیر کی کھال حاصل کرکے اپنے جسم پر اوڑھ لی۔ اب وہ جنگل میں جس طرح جاتا سبھی جانور اس کو دیکھ کر بھاگتے۔ گدھا بڑا خوش تھا کہ جنگل کے جانور اسے شیر سمجھتے ہیں اور ڈرتے ہیں۔اسی غرور میں گدھا ایک دن جنگل میں گھوم پھر کر جانوروں پر اپنی دہشت طاری کر رہا تھا کہ اچانک ایک کچھار سے شیر نکل آیا مگر گدھا ذرا نہ گھبرایا اور اسی ٹھاٹھ سے چلتا رہا۔ شیر نے اسے غور سے دیکھا تو نقلی شیر کو پہچان لیا۔ بپھر گیا اور گرجا۔آخر گدھا ہے نا۔ گدھے میں عقل کہاں؟ شیر کی کھال اوڑھ کر نقلی شیر بن گیا لیکن شیر کی طرح چلنا نہ سیکھا۔اتنا کہہ کر شیر نے گدھے پر حملہ کر دیا اور اسے ادھیڑ کر رکھ دیا۔ایک میراثی نے گدھی پال رکھی تھی۔ وہ جب اس سے ناراض ہوتی تو کان کھڑے کر لیتی اور اسے ایک عدد لات جڑدیتی۔ میراثی نے سوچا کہ ضرور اس کے کان میں کوئی گڑ بڑ ہے جو یہ لات مارنے سے پہلے اظہار ناراضی کے لیے کان کھڑے کرلیتی ہے۔ چنانچہ اس نے ایک دن اس کے دونوں کان درانتی سے کاٹ دیے۔ اس کے بعد جب بھی وہ قریب سے گزرتا وہ اسے لات جڑدیتی، جس پر میراثی بولا کہ کم از کم کانوںسے یہ تو پتا چل جاتا تھا کہ یہ ناراض ہے یا راضی۔ملاجی کے ایک پڑوسی نے تھوڑی دیر کے لیے ان کا گدھا مانگا۔ ملاجی اپنا گدھا دینا نہیں چاہتے تھے۔ انہوں نے بہانہ کیا، ”گدھا یہاں نہیں ہے۔” اسی وقت مکان کے پیچھے سے گدھے کے رینگنے کی آواز سنائی دی۔ پڑوسی نے شکایت کی، ”ملاجی، آپ نے تو کہا تھا کہ گدھا نہیں ہے اور یہاں تو گدھے کی آواز آ رہی ہے۔” ملاجی نے جواب دیا، ”خدا تمہارے ایمان کی کمزوری کو معاف کرے۔ ایک جانور پر اعتبار کرتے ہوئے اور مجھ جیسے سفید داڑھی والے بوڑھے آدمی پر اعتبار نہیں کرتے!”۔یہی ملاجی ایک بار گدھے پر ترکاری لاد کر بیچنے کے لیے نکلے۔ جب وہ آواز لگاتے تو گدھا بھی ساتھ ساتھ رینگتا اور ان کی آواز سنائی نہ دیتی۔ وہ ایک سڑک پر پہنچے جہاں بہت بڑا مجمع تھا۔ انہوں نے بہت زور سے صدا لگائی اور گدھا بھی ان کے ساتھ ساتھ اتنے زور سے رینگا کہ ان کی آواز بالکل دب کر رہ گئی۔ اس پر ملا جی کو غصہ آ گیا۔ انہوں نے گدھے کے ڈنڈا مار کر کہا، ”بتا ترکاری میں بیچ رہا ہوں یا تو؟”
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔سیانے کہتے ہیں صبر کا پھل پھر میٹھا ہوتا ہے لیکن آج کل صبرکرو تو پھل کی کہیں اور شادی ہوجاتی ہے۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
٭٭٭