کاسمو کلب اور باغ جناح
شیئر کریں
۔۔۔۔۔۔۔۔
روہیل اکبر
گزشتہ رات کاسمو پولیٹن کلب لاہور جانا ہوا تو ایک خوشگوار حیرت ہوئی ،پاکستان میں تبدیلی آئے نہ آئے اس کلب میں تبدیلی ضرور آگئی ہے۔ کلب میں جتنا وقت گزرا اس کے بعد اندازہ ہوا کہ یہاں بھی تبدیلی کسی کو گوارا نہیں۔ سب ہی ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں مصروف ہیں ۔نیا کیفے ٹیریا بنا تو اس کے خلاف اپنے ہی لوگوں نے درخواست دے دی کہ یہ کیوں بنا؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس کلب کو بھی دنیا بھرمیں موجود کاسمو پولیٹن کلب کی طرح ترقی دی جاتی۔ یہاں مہمانوں کے لیے کمرے بنتے اچھا جم ہوتا،میں سمجھتا ہوں کہ کلب ممبران کی خوش قسمتی ہے کہ انہیں سید زوار حسین جیسا صدر مل گیا۔ جس نے اب تک اس کلب کی بہتری کے لیے ایک کروڑ روپے سے زائد رقم اپنی جیب سے لگا دی اور جو 28لاکھ کلب کے نئے واش روم بنانے کے لیے کلب کے اکائونٹ میں جمع کروائی اس پر بھی کسی اور کی نظریں ہیں۔ اسی لیے تو ابھی تک کام شروع نہیں ہوسکا، اس کلب کی تاریخ تو بہت پرانی ہے 1927 کو خوبصورت پارک لارنس گارڈن میں بننے والا یہ اپنی نوعیت کے حساب سے تاریخی تو ہے ہی مگر جو تاریخ اس کلب میں سید زوار حسین نے رقم کردی ،وہ آج تک کوئی نہ کرسکا اور یہی ہماری بدقسمتی ہے کہ جو کام کرنے والا شخص ہوتا ہے۔ اس کی سب مل کر ٹانگیں کھینچنا شروع کردیتے ہیں۔ تاکہ وہ بھی خدمت کے مشن سے باز آجائے کیونکہ یہ ایک کلب ہے اور ہے بھی خوبصورت ترین جگہ پر کلب ایک ایسی جگہ ہوتی ہے ۔جہاں ممبران اپنے گھروں اور دفاتر کے معمولات کے سے ہٹ کر جمع ہوتے ہیں، تاکہ وہ ایک کھلے ماحول میں سکون کی فضا محسوس کریں اور اپنے اندر موجود فنکارانہ صلاحیتوں کا کھل کر استعمال کریں،دوستوں کی محفل کو وسیع کریں اور آزادانہ طور پر خیالات کا تبادلہ کریں۔ اس کلب کے ممبران کو یہ بھی فائدہ ہے کہ اس نام کے کلب دنیا بھر میںقائم ہیں جو آپس میں بھی رابطے میں رہتے ہیں وفود کے تبادلے ہوتے ہیں۔ خوشگوار یادوں کو دوبالاکرتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ بہترین وقت گزارتے ہیں ۔
مجھے یقین ہے کہ لاہور میں موجود اس کاسمو پولیٹن کلب میں دنیا کے دوسرے ممالک سے بہت کم لوگ آتے ہونگے بلکہ نہ ہونے کے برابر ہونگے اس کلب میں پڑھے لکھے لوگ ہیں اور صدر بھی کام کرنا چاہتا ہے تو مل جل کر مشاورت سے یہ بھی کمیٹیاں بنائیں جو دوسرے ممالک میں موجود کاسمو پولیٹن کلبوں سے رابطہ کریں انہیں دعوت دیں اور پھر انکی دعوت پر دنیا گھومیں اس وقت دنیا کے مختلف ممالک میں جہاں جہاں کاسمو پولیٹن کلب موجود ہیں۔ ان میں کاسموپولیٹن کلب (ونی پیگ) سب سے آگے ہے۔ جہاں جو ذیابیطس کی روک تھام اورنئے علاج کی دریافت کے لیے معاونت بھی فراہم کرتا ہے۔ ریاستہائے متحدہ میں کاسموپولیٹن کلب کی تحریک 1903 میں یونیورسٹی آف وسکونسن میں شروع ہوئی۔ جس کے بعدباتھ کاسموپولیٹن کلب (مین) 1913 میں قائم کیا گیا،الینوائے کاسموپولیٹن کلب 1907 میں قائم ہوا،کاسموپولیٹن کلب نیویارک جو خواتین کا نجی کلب 1909میں قائم کیا گیا،فلاڈیلفیا کا کاسموپولیٹن کلب 1928 میں قائم ہوا،شنگھائی کاسموپولیٹن کلب اپنی نوعیت کا خوبصورت کلب ہے ،بمبئی کاسموپولیٹن کلب 1891 میں قائم ہوا،نیوزی لینڈمیںماسٹرٹن کاسموپولیٹن کلب 1973 میں قائم ہوا،نیپئر کاسموپولیٹن کلب 1877 قائم ہوا، چارٹرڈ کاسموپولیٹن کلب1881 میں بنا ،اپر ہٹ کاسموپولیٹن کلب 1961 میں قائم ہوا،وانگانوئی کاسموپولیٹن کلب 1901 قائم ہوا،کاسموپولیٹن کلب (چنئی) بھارت 1873میں قائم ہوا جو 18 ہول گولف کورسز میں سے بھی ایک ہے،کاسموپولیٹن کلب (کوئمبٹور)1891میں قائم ہوا ،کوکاناڈا کاسموپولیٹن کلب (کاکیناڈا) 1918 میں قائم ہوا، کاسموپولیٹن کلب (لندن) 1852 میں فعال ہوا ،ہیملٹن کاسموپولیٹن کلب 1964 میں قائم ہوا اور لیون کاسموپولیٹن کلب 1901 کو بنا۔
یہ کلب دنیا بھر میں پھیلے ہوئے جہاں لوگ آکر سکون تو محسوس کرتے ہی ہیں ساتھ میں یاروں دوستوں کے ساتھ دکھ درد بھی بانٹے جاتے ہیں۔ پاکستان کے دل لاہور اور لاہور کے دل مال روڈ پر بنے ہوئے باغ جناح میں کاسمو پولیٹن کلب کی شان ہی نرالی ہے۔ تقریباً چار ایکڑ زمین پر پھیلا ہوا یہ کلب حکومت پنجاب کی ملکیت تھی اور اسے لیز پر دے دیا گیا جس کے بعد سے اس کے میمورنڈم اور آرٹیکلز آف ایسوسی ایشن کے ساتھ ساتھ ضمنی قوانین (جس میں وقتاً فوقتاً ترمیم کی جاتی ہے) کے مطابق اسکی باڈی کام کرتی ہے، جس کے انتخابات بھی اس کے ضمنی قوانین کے مطابق ہی ہوتے ہیں۔ یہ کلب پھولوں اور باغوں کے شہر کے خوبصورت ترین پارک باغِ جناح جو پہلے لارنس گارڈنز کے نام سے جانا جاتا تھاوہاں موجود ہے۔ یہ بھی پاکستان کا ایک تاریخی پارک ہے جس کے بڑے سبزہ زار میں بوٹینیکل گارڈن، مسجد دارالاسلام، اور قائداعظم لائبریری ہے۔ اس پارک کے اندر تفریحی اور کھیلوں کی سہولیات بھی ہیں ایک اوپن ایئر تھیٹر، ایک ریستوران، ٹینس کورٹ اور جم خانہ کرکٹ گراؤنڈبھی اسی میں ہے۔ اس پارک کی دیوار چڑیا گھر سے بھی ملی ہوئی ہے۔ اس باغ کا نام جان لارنس پہلے بیرن لارنس کے نام پر رکھا گیا تھا ۔جنہوں نے پہلے چیف کمشنر اور پھر پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر کے طور پر خدمات انجام دیں اورپھر بعد میں 1864 سے 1869 تک ہندوستان کے وائسرائے بھی بنے۔ 1860 میںجب لارنس گارڈنز کا پہلا حصہ بنایا گیا تھا۔اس وقت یہ جگہ بیابان تھی جسے بیڈمنٹن، تیر اندازی اور کرکٹ کے لیے بطور تفریحی میدان استعمال کیا جاتا تھا۔ اس باغ میں جہاں آجکل ہر طرف درختوں کی لائنیں اور گہری چھائوں ہے ۔یہاں پہلا درخت جنوری 1862 میں لگایا گیا تھا لارنس ہال کو عوامی جلسوں اور تھیٹر کی تفریح کے لیے تعمیر کیا گیا تھا۔ 1866 میں منٹگمری ہال بھی مکمل ہوا اور 1868 میں باغات کے جنوب میں زمین کی خریداری کرکے جگہ کومزید بڑھایا گیا۔ اور 1876 تک اس باغ میں 600 مختلف انواع و اقسام کے 80,000 درخت اور پودے شامل تھے۔ جہاں ہندوستان، آسٹریا، شام اور جنوبی یورپ سے درخت لگا کر لالگائے گئے۔ بیسویں صدی کے آغاز میں لارنس گارڈن نے اپنے اگائے ہوئے پودے عام لوگوں کو فروخت کرنا شروع کر دیے ۔انگور اور شہتوت کابل سے آگرہ سے آڑو اور کلکتہ سمیت تمام برطانوی سلطنت سے پھلوں کے درخت درآمد کیے جاتے تھے۔ 1904 میں محکمہ زراعت باغ کی دیکھ بھال کا ذمہ دار بن گیا اور 1912 سے تقریباً سات ایکڑ رقبہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے زیر انتظام ہے ۔ اس باغ کا کل رقبہ 141 ایکڑتقریبا ڈھائی کلومیٹر ہے ۔پہلے اس باغ کا رقبہ 176 ایکڑ پر مشتمل تھا جس میں سے زمین کا کچھ حصہ لاہور چڑیا گھر کو اور مقامی ترقی کے لیے دیدیا گیا تھا ۔پارک میں پیر سخی ابوالفیض الحسن بزرگ کا مقبرہ ہے جسے عرف عام میں بابا مراد شاہ کے نام سے جانا جاتا ہے، جہاں بڑی تعداد میں زائرین آتے رہتے ہیں۔ پارک میں 2.65 کلومیٹر کا ٹریک اور دولائبریریاں جناح اور دارالسلام بھی موجود ہیں تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے بعد لارنس گارڈنز کا نام محمد علی جناح کے اعزاز میں باغ جناح رکھ دیا گیا۔ لارنس کا ایک مجسمہ جوپارک کے قریب لاہور ہائی کورٹ کے باہرنصب تھا ۔اگست 1951 میں ہٹا دیا گیا بعد میں اسے شمالی آئرلینڈ کے فوائل اینڈ لندنڈیری کالج میں منتقل کر دیا گیا۔ لارنس اور منٹگمری ہالز کو 1984 میں قائداعظم لائبریری کے لیے دوبارہ تیار کیا گیا۔ باغ جناح میں میں تقریباً 150 قسم کے درخت، 140 قسم کے چھوٹے پودے ، 50 قسم کے کریپر، 30 کھجوریں اور تقریباً تمام اقسام کے پھول ہیں۔ باغ جناح میں 3 نرسریاں اور 4 پہاڑیاں ہیں۔
٭٭٭