میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
میری بلیوں کا کیا ہوگا؟

میری بلیوں کا کیا ہوگا؟

ویب ڈیسک
جمعرات, ۱۱ جون ۲۰۲۰

شیئر کریں

تاریخ کو اڈھیڑا جائے، بے رحم سچائی سے آنکھیں چار کی جائے تو ”تھوکوں کے فرقے“ کی پہلی سرپرست ایک خاتون نکلے گی۔ناہید مرزا!اسکندر مرزا کی دوسری بیگم۔ ایک غیر ملکی نژاد، ایرانی کُرد۔ ناہید مرزا کے بچھائے جال نے پاکستانی سیاست کو آج بھی اپنے نرغے میں لے رکھا ہے۔”بھٹوعنصر“ کسی اور کے نہیں اسی ناہید مرزا کے مرہون منت ہے،اگر چہ اس تاریخ کو بہت بدلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اقتدار پر گرفت اور سیاست دانوں کو حاشیے پر رکھنے کا پہلا خواب فوج نے نہیں بیوروکریسی نے دیکھا تھا۔ ابتدا سے ہی حقائق مسخ کرنے اور گمراہ کن تعبیرات کو فروغ دینے میں یہ ٹولہ منظم طور پر سرگرم عمل ہوچکا تھا۔ لیا قت علی خان کی شہادت کے بعدتیسرے گورنر جنرل کے طور پر ملک غلام محمد کا انتخاب اسی سازشی ذہن کا نتیجہ تھا۔ پاکستان میں ابھی جمہوریت کی کوئی ادارتی شکل نہیں بن سکی تھی، نوزائیدہ جمہوریت کا چہرہ لیاقت علی خان کی شکل میں تھا، وہ لہولہان ہواتو جمہوریت کی دوشیزہ نے گھونگٹ نکالنے سے پہلے بیوگی کالباس پہن لیا۔ ملک غلام محمد کا دور سازشوں کی تہ داریوں کا تھا۔ آگے پوری تاریخ اس کی یرغمال بننی تھی، جس میں عورتیں، سازشیں، رنجشیں اور رقابتیں اپنا جادو جگانے والی تھیں۔ پاکستان کی ابتدائی تاریخ کا مطالعہ کریں تو اکثر اہم شخصیات کی دوسری بیگم کوئی غیر ملکی خاتون نکلتی ہے۔ غیر ملکی خواتین کی اس گہری چھاپ کے اثرات وطنِ عزیز کی مکروہ سیاست پر بھی مرتب ہوئے۔ابتدائی دور کی ان غیر ملکی خواتین کی ایک ادھوری فہرست مرتب کرلیں۔پاکستان کے چوتھے گورنر جنر ل اور پہلے صدر اسکندر مرزا کی دوسری بیگم ناہید مرزا ایرانی کرد تھیں۔ پاکستان کے تیسرے وزیراعظم محمد علی بوگرہ کی دوسری بیگم عالیہ سدی کا تعلق لبنان سے تھا۔پانچویں وزیراعظم حسین شہید سہروردی کی دوسری بیگم بھی غیر مقامی تھیں۔اُنہوں نے پہلی بیوی کے انتقال کے بائیس برس بعد 1944ء میں ماسکو آرٹ تھیٹر سے وابستہ ایک روسی اداکارہ ویرا الیگزینڈر رونا سے شادی کی تھی۔ گو یہ شادی سات ہی برس کے بعد اپنے المناک انجام طلاق پر ختم ہوئی۔ مگر اس دوران میں پاکستان تخلیق ہوا اور اس شادی کے رہتے ہوئے ہی پاکستان روس کے بجائے امریکا کی گود میں چلا گیا۔ فیروز خان نون پاکستان کے ساتویں وزیراعظم تھے،اُن کی اہلیہ آسٹریلوی تھی، نام وکٹوریہ تھا۔وہ اسلام قبول کرنے کے بعد وقارالنساء نون کہلائی۔ ذوالفقار علی بھٹو کانام وزرائے اعظم کی فہرست میں نوویں نمبر پر آتا ہے۔ اُنہوں نے دوسری شادی نصرت بھٹو سے کی۔ایرانی نژاد کرد خاندان سے تعلق رکھنے والی بھٹو کی دوسری اہلیہ شادی سے قبل نصرت اصفہانی کہلاتی تھیں۔
اسکندر مرزا کے دور میں ہی دوسری بیگمات اور ان بیاہی عورتوں کاکھیل اقتدار کی راہداریوں میں شروع ہوجاتا ہے۔ شراب وشباب کے قصے عزیز رشتوں اور لذیذ حکایتوں میں سنائی دیتے ہیں۔ اسکندر مرزا کی دوسری بیگم ناہید مرزا مشکوک کرداروں میں سب سے نمایاں اور پہلا نام ہے جو پاکستان کی رنگین وسنگین تاریخ کی زینت بنتا ہے۔ بیگم ناہید، اسکندر مرزا کی ہی دوسری بیگم نہیں تھی، بلکہ اسکندر مرزا بھی اُن کے دوسرے شوہر تھے۔ اسکندر مرزا سے قبل وہ ایران کے ملٹری اتاشی کی بیوی تھی۔ آنکھوں میں باہمی ساز باز کی چمک رکھنے والی بیگم ناہید نے اسکندر مرزا سے تعلقات قائم کرنے کے بعداپنے پہلے شوہر سے طلاق لی اور اسکندر مرزا سے اُس وقت شادی کی جب وہ سیکریٹری دفاع تھے۔ اسکندر مرزا کے ساتھ پاکستان کا دفاع بھی مضبوط ہاتھوں میں چلا گیا۔ بیگم ناہید نے مختلف سیاست دانوں کی شادیوں اور رشتے داریوں کی آکاس بیل کو اپنے نامعلوم مقاصد کے تحت خوب خوب پروان چڑھایا۔ بہت سے کہے ان کہے قصوں کا یہ اہم کردار رہیں۔
اسکندر مرزا تاریخ کے ایک گھناؤنے باب کے طور پر قومی وجود سے چپکے رہیں گے۔ وہ اسی میر جعفر کے پڑپوتے تھے،جس نے نواب سراج الدولہ سے جنگ پلاسی میں غداری کی تھی۔ علامہ اقبالؒ کا فارسی کلام اُن کی دائم مذمت کرتا ہے:

جعفر از بنگال و صادق از دکن
ننگ آدم، ننگ دین، ننگ وطن

سازشیں اسکندر مرزا کا خاندانی ورثہ تھیں۔ بیگم ناہید مرزا تو اس میں بس ایک اضافہ تھی۔ ناہید مرزا ہی کے توسط سے نصرت اصفہانی اقتدار کی راہداریوں میں چمکنے لگیں۔ بھٹو کے ساتھ شادی سے قبل ہی وہ اقتدار کی راہداریوں میں رسوخ رکھنے والی مختلف شخصیات سے راہ ورسم استوار کرچکی تھیں۔ بھٹو کے چمکنے سے پہلے ایوانِ صدر کی تاریخ بہت سی رنگین داستانوں کی رازداں بن چکی تھی۔ رنگین داستانوں کے متوازی سنگین سیاست کے فیصلے جنمتے رہے۔ اسکندر مرزا 6/ اکتوبر 1955ء کو چوتھے گورنر جنرل کے طور پر جلوہ افروز ہوئے، مگر23 / مارچ 1956ء کو گورنرجنرل کا منصب ختم کردیا گیاتو اسکندر مرزا پاکستان کے پہلے صدر بن گئے۔ اُنہوں نے اپنے دورِ اقتدار میں جن وزرائے اعظم کو شکار کیا اُن میں محمد علی بوگرہ(17 /اپریل تا 12 /اگست 1955)، چوہدری محمد علی(12/اگست 55 19ء تا 12/ستمبر 1956) حسین شہید سہروردی(12 /اکتوبر 56 19تا 17 /ستمبر 57 19)، آئی آئی چندریگر(17/اکتوبر57 19تا 16/دسمبر 57 19) اور ملک فیروز خان نون(16 /دسمبر 57 19تا 7/ اکتوبر 1958)شامل ہیں۔
ہماری تاریخ میں یکے بعد دیگرے وزرائے اعظم کے شکار کیے جانے کا یہ عرصہ دشمن ملک بھارت میں شرمندگی کا سامان کرتا رہا، یہاں تک کہ جواہر لال نہرو نے کہا:میں اتنی جلدی دھوتیاں نہیں بدلتا جتنی جلدی پاکستانی وزیرِ اعظم تبدیل کرلیتے ہیں“۔محلاتی سازشوں اور غداری کے انحرافی رویوں میں پلنے پنپنے والے اسکندر مرزا کے ہاتھوں سے اقتدار بتدریج پھسلنے لگا تو اُنہوں نے گھاٹ میں بیٹھے ایوب خان کو مارشل لاء کے راستے پر گامزن کرنے کے لیے سیاسی طاقت دینی شروع کردی۔ پاکستان کا پہلا مارشل لاء 7/ اکتوبر 1958ء کو لگانے سے دو روز قبل 5/ اکتوبر کو ایوب خان کراچی پہنچے،اور ملک پر قبضے کی پہلی سازش تیار کر لی گئی۔ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ 7 اور 8 / اکتوبر کی درمیانی شب پہلا مارشل لاء لگادیا گیا۔ آئین کوردی کا ٹکڑا کہنے کے الفاظ بہت بعد میں جنرل ضیاء کی زبان سے سنائی دیے۔ درحقیقت یہ الفاظ بھی سب سے پہلے اسکندر مرزا کی زبان سے ادا ہوئے تھے۔ قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ صدر پاکستان اسکندر مرزا نے اُنہیں 22 /ستمبر 1958 کو بلایا۔ اسکندر مرزا کے ہاتھ میں پاکستان کے آئین کی ایک جلد تھی، جس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا: کیاتم نے اس ٹریش کو پڑھا ہے“؟
محلاتی سازشوں کے اس سرخیل کو مارشل لاء لگانے پر سب سے زیادہ نشانہئ تنقیدخود اُن کی اپنی بیگم ناہید مرزا نے بنایا۔ وہ ایوب خان کو مرکزی اقتدار کے دھارے میں شامل کرنے پر برہم تھیں۔ تاریخی طور پر اس کی شہادتیں ملتی ہیں کہ بیگم ناہید مسلسل صدر اسکندر مرزا پر چیخنے لگی تھیں۔بیگم ناہید کے منہ کو اقتدار کا جو ذائقہ لگا تھا، وہ خراب ہوا جاتا تھا۔ اپنی خواب گاہ کے قریب بنائے گئے سوئمنگ پول میں نہانے والی ملکی اور غیر ملکی خواتین کا جمگھٹا عارضی طور پرچھٹنے کے دن قریب آرہے تھے۔ یہ وہی سوئمنگ پول تھا، جہاں امریکی سفیر کی بیٹی اور اسکندر مرزا کے اے ڈی سی کیپٹن سعید کی دوستی پھلی پھولی اور نچڑی نہائی تھی۔ سنتھیارچی ہمیشہ سے یہاں تھی۔ اسکندر مرزا کے پول میں نہاتی تتلیوں سے یوسف رضا گیلانی کے ہاتھوں کی جنبش تک اور مخدوم شہاب کے لرزتے کانپتے ہاتھوں کے تھرکتے مساج سے رحمان ملک کے سالم امریکی نوالے کو گھٹکانے تک یہ تاریخ تھوک سے نم آلودہے۔ ان خواتین کو آخر میں وہی کرنا ہوتا ہے جو بیگم ناہید نے کیا۔ ایوب خان نے ایک مرتبہ اسکندر مرزا سے دریافت کیا کہ آپ اپنی بیگم کے اُکسانے پر میرے خلاف بھی محلاتی سازشوں کا حصہ بن رہے ہیں۔ پھر آئین کی غیر موجودگی اسکندر مرزا کے صدر کے منصب پر براجمان ہونے کے دھندلاتے جواز پر دھیان دیااور 27/اکتوبرکی شب اپنے تین جرنیل برکی، اعظم اور خالد شیخ کو اسکندر مرزا کے گھر روانہ کردیا جن کے ہاتھ میں ٹائپ شدہ استعفیٰ تھا۔ سلیپنگ گاؤن میں اسکندر مرزا استعفیٰ پر دستخط کرنے والے تھے۔ تب بیگم ناہید چیخنے چلانے لگیں۔ زبانی روایتیں یہ بھی ہیں کہ بیگم ناہید کے چلانے پر ایک ہاتھ حرکت میں آیا، زور کے تھپڑ کی آواز کمرے سے باہر کھڑے لوگوں کو صاف سنائی دی تھی۔ پھر خاموشی طاری ہوگئی۔استعفیٰ پر قلم کی حرکت محلاتی سازشوں کی تمام حرکتوں کا انجام لکھ رہی تھی۔اس دوران میں ایک پاٹ دار آواز اور گونجی، رختِ سفر باندھ لیں۔ اس بار بھی بیگم ناہید مرزا نے بات اسکندرمرزا سے پہلے سمجھ لی اور فوراً پوچھا: میری بلیوں کا کیا ہوگا؟ ناہید مرزا ایوان صدر سے اپنی بلیا ں لے گئی تھیں، مگر جو بلیاں اُنہوں نے سیاست میں چھوڑیں، وہ آج بھی میاؤں میاؤں کرتی ہیں۔ یہ بلیاں کبھی ختم نہیں ہوئیں۔ اسکندر مرزا کے جانے کے ایک مختصر عرصے کے بعد ایوان صدر میں بلیوں کو ایک ہنگامہ برپا کرنا تھا۔ جنرل رانی بہت ساریوں میں سے ایسی ہی ایک بلی تھی۔ تھوکوں کے فرقے کی بلیاں!! ان بلیوں کی شناخت اگلی تحریر پر اُٹھائے رکھتے ہیں۔سنتھیارچی تک آتے آتے ایسی بہت سی بلیاں ہیں جو ایوان اقتدار میں منڈلاتی رہی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں