میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اسلام انتہا پسند یا ۔۔۔؟؟

اسلام انتہا پسند یا ۔۔۔؟؟

ویب ڈیسک
اتوار, ۱۱ جون ۲۰۱۷

شیئر کریں

اسلام کو آج دہشت گردی سے نتھی کیا جاتا ہے ہر وہ مسلمان جو باریش ہے اس کو بنیاد پر ست کہہ کر دہشت گرد قرار دیدیا جاتا ہے جبکہ اسلام اور دہشت گردی کا معاملہ آگ اور پانی کا ہے کہ دونوں ایک ساتھ ایک جگہ نہیں رہ سکتے جہاں آگ ہو گی وہاں پانی نہیں ہو گا اور جہاں پانی ہو گا وہاں آگ نہیں ہو گی ۔اسلام کے لفظی معنی بھی تحفظ فراہم کرنے کے ہیں ۔
نبی محترم حضرت محمد مصطفیﷺ نے تقریباً 12 سال مکہ میں اسلام کی تبلیغ کی یہ دور مسلمانوں کے لیے انتہائی مشکل دور تھا قبول اسلام کا مطلب خود کو ایسی آزمائش میں ڈالنا ہوتا تھا کہ جس کے تصور سے بھی خوف آتا ہے ،حضرت بلالؓ ہو یا حضرت خبیبؓ کس کس اذیت سے نہیں گزرے سیدی بلالؓ غلام تھے اور آپ کا مالک ایک بدطنیت مشرک آپؓ پر اس نے تشدد کا ہر حربہ آزمایا، یہاں تک کہ دہکتے ہوئے انگارے آپؓ کے منہ میں ڈال دیئے گئے جس کے نتیجہ میں آپؓ کی زبان متاثر ہوئی اور آپؓ کی آواز میں شدید لکنت آگئی لیکن جب ریاست مدینہ قائم ہوئی اورنماز سے قبل اذان کا اِذن ہوا تو پہلے موذن نبوی ﷺ حضرت بلالؓ ہی مقرر ہوئے یہ وہ سعادت ہے کہ جس کے لیے تمام صحابہؓ ہی خواہش کرتے تھے ۔
ابھی ریاست مدینہ قائم ہوئے 2 سال کا عرصہ بھی نہیں گزرا تھا اور عرب کے مختلف علاقوں سے مسلمانوں کی مدینہ کی جانب ہجرت کا سلسلہ جاری تھا کہ عرب کے مشرکین نے فیصلہ کیا کہ اگر یہ ریاست قائم رہ گئی اور ترقی پا گئی تو ہمارا وجود خطرے میں پڑ جائے گا ابھی یہ ریاست ابتدائی مراحل میں ہے یہی وقت ہے کہ اس کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے۔ مشرکین مکہ نے اپنے حلیفوں سے رابطے کئے اور مسلمانوں کی بے سروسامانی کو دیکھتے ہوئے ایک ہزار سے زائد کا لشکر جرار تیار کیا اس میں بڑے بڑے بہادر شامل تھے اور اس کی قیادت ابوجہل کر رہا تھا۔ یہ لشکر رمضان المبارک 2 ہجری کے آغاز میں مکہ سے روانہ ہوا،اس لشکر کے ساتھ سواریوں کے لیے اونٹ ،گھوڑے اور خوراک کے لیے بڑی تعداد میں اونٹ، بکرے، بھیڑاور دیگر شامل تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ جنگجو خواتین کی بھی ایک بڑی تعداد اس لشکر کے ساتھ موجود تھی جس کا کام لشکریوں کے لیے کھانا تیار کرنا اور جنگ کے دوران رجز پڑھ کر لشکریوں میں جوش وولولہ پیدا کرنا تھا۔ انہی میں ہندہ نامی مشرکہ بھی اپنے غلام وحشی کے ساتھ موجود تھی جبکہ اس کا شوہر بھی اس کے ساتھ تھا ۔
عنقریب آنے والا دن17 رمضان دنیا کی تاریخ کا وہ دن ہے کہ جس دن چشم فلک نے جنگ کا ایک عجب منظر دیکھا۔ ایک طرف ایک ہزار سے زائد مسلح جنگجو تھے دوسری جانب 313 بے سروسامان مجاہد، مختلف راوی مختلف روایات بیان کرتے ہیں لیکن سواریوں کی تعداد 7 سے نہیں بڑھتی اور تلواروں کی تعداد بھی 30 تک ہی رہتی ہے ۔کچھ تیر انداز ہیں اور کچھ مشیت ایزدی پر میدان عمل میں آئے ہیں، ان میں 2 معصوم بچے بھی شامل ہیں معاذ اور معوذ۔یہ بچے ضد کرتے ہیں اور نبی کریم ﷺ کو مجبور کر دیتے ہیں کہ انہیں غزوہ میں شریک ہونے کی اجازت دیدی جائے۔ یہ رب کائنات کے فیصلے ہیں وہ جب فرعون کو نیل میں غرق کر سکتا ہے اور پھر اس کا لاشہ نکال کر نشان عبرت بنا سکتا ہے، جو نمرود کو سر پر جوتے کھلا کر موت کے منہ میں دھکیل سکتا ہے، جو شداد کو اس کی بنائی ہوئی جنت کے دروازے پر اس طرح سے موت کے منہ میں دھکیلتا ہے کہ اپنی بنائی ہوئی جنت کو دیکھنے کی حسرت اس کی آنکھوں سے پھوٹ پڑرہی ہوتی ہے، وہی رب جب ابوجہل کو عبرت کا نشان بنانے کا فیصلہ کرتا ہے تو معاذ اور معوذ کو جہاد کا حصہ بنا دیتا ہے یہ ننھے مجاہد ایک ساتھی مجاہد سے پوچھتے ہیں کہ چچا جان دشمن رسول ابوجہل کونسا ہے۔ وہ بزرگ بتاتے ہیں کہ وہ جو سرپر شتر مرغ کا پر لگائے بڑے فخر سے اکڑ اکڑ کر چل رہا ہے یہی ابوجہل ہے ۔یہ بچے بجلی کی طرح سے ابوجہل کے سر پر پہنچتے ہیں، مشترکہ وار کرتے ہیں اور عرب کے سب سے بڑے بہادر کو چشم زدن میں واصل جہنم کر دیتے ہیں ۔
یہ غزوہ 1436 سال قبل ہوا تھا۔ اس غزوہ نے جہاد کے اُصول طے کر دیئے تھے جب غزوہ کا آغاز ہو رہا تھا تو آپ ﷺ نے مجاہدین سے فرمایا کہ صرف اس سے قتال کرنا جو قتال پرآمادہ ہو، خواتین کا احترام کرنا، اشیاءخورونوش کو ضائع نہ کرنا اور جو قتال پر آمادہ نہ ہوں ان سے صَرفِ نظر کرنا ،جو ہتھیار ڈال کر جنگی قیدی بن جائیں ان سے حسن سلوک کرنا ۔یہ جو آج ہم جنیواءکنونشن میں جنگ کے اُصول پڑھتے ہیں اور جنہیں ابھی طے ہوئے 100 سال کا عرصہ بھی نہیں ہوا ہے یہ اُصول تو نبی محترم حضرت محمد مصطفی ﷺ نے 1436 سال قبل ہی بیان کر دیئے تھے لیکن ہم جینواءکنونشن کا بھی احترام کرتے ہیں کہ یہ ہمارے نبی محترم ﷺ کے بیان کردہ اُصولوں کا چربہ ہیں ۔
آج اسلام کے فلسفہ جہاد کو دہشت گردی سے جوڑا جا رہا ہے جو باریش مسلمان ظلم کے خلاف آواز بلند کرتا ہے اس کو انتہا پسند اور دہشت گرد قرار دے دیا جاتا ہے اسلام کو انتہاپسندی کا مذہب بیان کیا جاتا ہے جبکہ اسلام جتنی رواداری دنیا کا کوئی قانون اور چارٹر پیش نہیں کرسکتا۔ اسلام میں قتل انسانی کو ظلم قرار دیا گیا ہے صرف قتل مسلمان کو نہیں۔ چوری غیرمسلم کے یہاں ہو تب بھی مجرم کو سزا وہی ملے گی جو ایک مسلمان کے اثاثے کی چوری کی ہو سکتی ہے۔ اگر کسی خاتون کے ساتھ زیادتی کی جائے تو خاتون کا مذہب نہیں لکھا جائے گا ،مجرم کی سزا سنگساری ہو گی اس میں انتہا پسندی کہا ںسے آگئی ؟اسلامی دنیا کی کونسی مملکت ہے جہاں مسند اقتدار کسی خاص فقہ سے مشروط ہو یہاں تک کے کئی اکثریت اسلامی ممالک تو ایسے ہیں کہ جہاں غیرمسلم حکمران ہیں، انتہا پسند کون ہے؟ یہ اسلامی دنیا کے دساتیر اُٹھاکر دیکھ لیجئے اور دوسری جانب امریکا اور برطانیہ کی دساتیر پڑھ لیجئے۔ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا۔ امریکی دستور کے مطابق صرف پروٹیسٹنٹ عیسائی ہی امریکی صدر ہو سکتا ہے، کیتھولک عیسائی کو یہ منصب نہیں دیا جاسکتا۔ برطانیہ کی وزارت اعظمیٰ کے لیے شرط ہے کہ امیدوار کیتھولک عیسائی ہو اور چرچ برطانیہ سے وابستہ ہو ۔
مغرب اسلام سے نہیں اسلام کے فلسفہ جہاد سے خوفزدہ ہے مغرب کا ایک مقولہ ہے کہ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہے مطلب اپنی مطلب برادری کے لیے جو کچھ کر گزرو وہ غلط نہیں ہے لیکن اسلام نے نہ جنگ میں سب کچھ جائز قرار دیا ہے نہ محبت میں۔ جنگ کے لیے نبی مہربان ﷺ جب قافلہ روانہ فرماتے تو جو ہدایت دیتے وہ کچھ اس طرح ہوتی کہ جا کر اسلام کی دعوت دینا ۔اگر قبول اسلام کر لیں تو ہتھیار نہ اُٹھانا اگر قبول اسلام پر آمادہ نہ ہوں تو جزیہ کی پیشکش کرنا کہ جزیہ دیں اور اسلامی مملکت کی امان میں آجائیں اور جو اس پر بھی آمادہ نہ ہوں ان سے حق جہاد ادا کرتے ہوئے جہاد کرنا ،پانی کے ذخائر کو تباہ نہ کرنا ،فصلوں کو برباد نہ کرنا،خواتین بچوں اور بوڑھوں سے تعرض نہ کرنا، وہ جوان جو ہتھیار اُٹھا کر میدان میں نہ آئیں انہیں امان دینا،خواتین کی عصمتوں کا احترام کرنا اور جو میدان جنگ میں بھی ہتھیار ڈال دیں انہیں جنگی قیدی بنا کر حسن سلوک کرنا ۔جنگی قیدیوں کو فدیہ لے کر رہا کر دینا اور جو فدیہ نہ دینے کی حیثیت نہ رکھتے ہوں، ان سے کچھ کام لیکر معاوضہ میں انہیں رہا کر دینا ۔محبت کا معاملہ یہ ہے کہ محرم خاتون کے علاوہ تعلق گناہ ہے، پردہ واجب ہے۔ اب سب کچھ جائز کیسے ہو گا؟ دوسری جانب مغرب کا نظریہ جنگ دیکھیں یا محبت ،جنگ میں اوپر بیان کئے گئے امور کا الٹ ہے پانی کے ذخائر تباہ کرنا ،فصلوں کو برباد کر کے قحط پیدا کرنا ،خواتین کی عصمتیں لوٹنا،بچوں کو قتل کرنا، بوڑھوں کو اذیت دینا اور جوانوں کو بلاجواز موت کے گھاٹ اتارنا جنگی قیدیوں کو شرم وذلت کا نشان بنانا ،اسپتالوں ،تعلیمی اداروں اور دشمن کی عبادت گاہوں کو خصوصی نشانہ بنانا کہ اس سے دشمن میں خوف وہراس پھیلے۔ اسی طرح سے مغرب کا فلسفہ محبت ،محبت نہیں شہوانیت کا مجسم ہے۔ "محبوبہ” کی عصمت نشانہ ہوتی ہے۔ پھر بھی اسلام دہشت گرد ہے اور مغرب ” امن وانسانیت کا مجسمہ”؟؟
٭٭….٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں