
ٹیرف کی وجہ سے عالمی سطح پر بے چینی
شیئر کریں
جاوید محمود
امریکہ سمیت عالمی سطح پر معاشی ماہرین نے ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی کے خلاف آوازیں اٹھانی شروع کر دی ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی امریکہ کو معاشی بحرانوں کی طرف دھکیل رہی ہے ۔اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے 19فروری سے اب تک امریکی اسٹاک مارکیٹ کو نئی ٹیرف پالیسی کے اعلان کے بعد سے 11ٹرلین ڈالر کا بڑے پیمانے پر نقصان ہوا ہے۔ صرف چار اپریل کو مارکیٹ کو 3.25 ٹرلین ڈالر کا نقصان ہوا۔ امریکہ کی طرف سے کینیڈا، میکسیکو اور چین کی مصنوعات پر نئے محصولات عائد کیے جانے کے بعد یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ آیا اس سے خود امریکی معیشت کو فائدہ ہوگا یا نقصان؟
ٹرمپ انتظامیہ نے کینیڈا اورمیکسیکو درآمد کی جانے والی اشیاء پر 25فیصد ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے جواب میں کینیڈا نے بھی اسی شرح سے امریکی اشیاء پر ٹیکس عائد کر دیا ہے۔ کینیڈا اور میکسیکو پر ٹیکس عائد کرنے پر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ یہ ایک طرح کی جوابی کارروائی ہے۔ میکسیکواور کینیڈا کے ذریعے لاکھوں لوگ ہمارے ملک میں داخل ہوتے ہیں اور ہم اس کی اجازت نہیں دے سکتے۔ میکسیکو نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے لگائے گئے اس الزام کو سختی سے مسترد کر دیا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ میکسیکو کی حکومت منشیات کے اسمگلروں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتی ہے جبکہ چین نے امریکہ کے خلاف ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں مقدمہ دائر کرنے اور جوابی اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ واشنگٹن میں چینی سفارت خانے نے امریکہ کی نئی ٹیرف پالیسی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس ٹیرف کے خلاف اور چین اب اپنے جائز دفاع کے حق اور مفادات کے تحفظ کے لیے اس اقدام کا جواب دے گا ۔ٹیرف ایک اندرون ملک عائد کیے جانے والا ٹیکس ہے جو بیرونی ممالک سے امریکہ پہنچنے والے سامان تجارت پر عائد کیا جاتا ہے اور اس کا نفاذ درآمدات کی قیمت کے تناسب سے ہوتا ہے۔ لہٰذا 50 ہزار ڈالر کی قیمت والی ایک گاڑی کو امریکہ درآمد کرتے ہی اس پر 25فیصد ٹیرف کے حساب سے چارج ہوگا یعنی ایسی گاڑی کو 12,500ڈالر چارج کا سامنا کرنا پڑے گا ۔یہ رقم ملک میں موجود اس کمپنی کو ادا کرنا ہوتی ہے جو یہ سامان بیرون ملک سے درآمد کرتی ہے، نہ کہ وہ غیر ملکی کمپنی جو اس سامان کو برآمد یا ایکسپورٹ کرتی ہے ۔لہٰذا اس لحاظ سے یہ ایک ڈائریکٹ ٹیکس ہے جو مقامی امریکی کمپنیوں کی جانب سے امریکی حکومت کو ادا کیا جاتا ہے۔ 2023کے دوران امریکہ نے دنیا بھر سے لگ بھگ 3.1 کھرب ڈالر کی مصنوعات برآمد کی جو امریکی جی ڈی پی کے تقریبا 11فیصد کے مساوی ہے اور ان درآمدات پر عائد محصولات کی مد میں امریکی حکومت نے اس دورانیے میں 80ارب ڈالرکمائے جو کل امریکی ٹیکس محصولات کا تقریبا ًدو فیصد ہے اور یہ سوال اہم ہے کہ اس نوعیت کے ٹیکس یا ٹیرف کا حتمی معاشی بوجھ کہاں پڑتا ہے ؟یہ ایک پیچیدہ سوال ہے اگر بیرونی ممالک سے سامان درآمد کرنے والی کمپنیاں ٹیکس کی صورت میں عائد ہونے والی نئی قیمت کا اطلاق صارفین پر کرتی ہیں جو یہ مصنوعات خریدتے ہیں تو ظاہر ہے کہ اس سب کا بوجھ امریکی صارفین کو ہی سہنا پڑے گا اوراگرامریکی درآمدی کمپنیاں یہ نیا اضافی ٹیکس خود برداشت کرتی ہیں تو اس کا نتیجہ کمپنیوں کو کم منافع کی صورت میں نکلے گا ۔ٹرمپ کے سابقہ دور حکومت میں 2017سے 220کے دوران برآمدی اشیاء پر عائد کیے گئے اضافی ٹیکس کے اثرات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان اقدامات کے نتیجے میں زیادہ تر معاشی بوجھ بآلاخر امریکی صارفین یعنی عام امریکی شہری کو ہی برداشت کرنا پڑا ۔ستمبر 2024 میں شگاگو یونیورسٹی کے ایک سروے میں ماہرین اقتصادیات کے ایک گروپ سے پوچھا گیا تھا کہ کیا وہ اس بیان سے متفق ہیں کہ محصولات یا اضافی ٹیکس عائد کرنے کے نتیجے میں پڑنے والے معاشی بوجھ کا ایک بڑا حصہ امریکہ کے عام صارفین کو برداشت کرنا پڑتا ہے جو قیمتوں میں اضافے کی شکل میں یہ ٹیکس ادا کرتے ہیں ۔98فیصد ماہرین اقتصادیات اس خیال سے متفق تھے جبکہ صرف دو فیصد نے اس سے اتفاق نہیں کیا تھا ۔معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ امریکہ کی طرف سے امپورٹ ٹیرف عائد نہیں اور جوابی اقدامات کے بعد گاڑیوں لکڑی سٹیل خوراک شراب اور دیگر اشیاء کی قیمتیں بڑھ سکتی ہیں۔
ٹرمپ نے اپنے سابقہ دور حکومت کے دوران 2018 میں واشنگ مشینوں کی امریکہ میں درآمد پر 50فیصد ٹیرف یا ٹیکس عائد کیا تھا۔ محققین کا اندازہ ہے کہ اس اقدام کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکہ میں واشنگ مشینوں کی قیمت میں براہ راست تقریبا 12فیصد اضافہ ہوا اور امریکی صارفین نے واشنگ مشینوں کی خریداری پر مجموعی طور پر سالانہ تقریبا 1.5ارب ڈالر اضافی ادا کیے۔ اس بات پر یقین کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ مستقبل کی ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے درآمدات پر ٹیکس ادا کرنے کے نتائج واشنگ مشینوں والی مثال سے کچھ مختلف ہوں ۔ محققین نے متنبہ کیا ہے کہ امریکہ کی جانب سے محصولات کی ایک اور بڑے دوڑسے ملک میں افراط زر میں ایک اور اضافے کا خطرہ ہے ۔ اس کے باوجود ٹرمپ نے محصولات عائد کرنے کے اپنے اقدام کے لیے ایک اور معاشی جواز کا استعمال کیا ہے اور وہ یہ کہ وہ امریکہ میں نوکریوں کا تحفظ کریں گے اور مزید نوکریوں کے مواقع پیدا کریں گے۔ امریکہ میں یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ ملک میں مینوفیکچرنگ کے شعبے کی نوکریاں ختم ہو رہی ہیں اور اس کا فائدہ سستے لیبر والے ممالک کو ہو رہا ہے۔ خاص کر امریکہ اور میکسیکو کے درمیان 1994کے فری ٹریڈ معاہدے اور 2001میں چین کی ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں انٹری کے بعد سے یہ ٹرمپ کی نئی محصولات کا سیاسی پس منظر بھی ہے ۔ 2016میں ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے سے قبل اشیاء اور سروسز کا خسارہ 480ارب ڈالر تھا جو امریکی جی ٹی پی کا تقریبا 2.5فیصد ہے۔ 2020تک یہ بڑھ کر 653ارب ڈالر تک پہنچ گیا جو جی ڈی پی کا تقریبا تین فیصد ہے ۔ماہرین اقتصادیات کے مطابق اس کی ایک وضاحت یہ ہے کہ ٹرمپ کی طرف سے عائد کردہ محصولات نے امریکی ڈالر کی عالمی قدر میں اضافہ کیا یعنی عالمی تجارت میں غیر ملکی کرنسیوں کی طلب کو خود بخود کم کر کے اور اس سے امریکی ایکسپورٹرز کی مصنوعات عالمی سطح پر کم مسا بقتی بن گئی۔ تجارتی خسارے کو ختم کرنے میں اس ناکامی کے پیچھے ایک اور عنصر یہ ہے کہ عالمی نیشنل کمپنیوں کے ساتھ عالمی معیشت میں ٹیرف کو کبھی کبھی نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر ٹرمپ انتظامیہ نے 2018میں چین سے درآمد شدہ سولر پینلز پر 30 فیصد محصولات عائد کیے تھے۔ امریکی محکمہ تجارت نے 2023میں اس بات کے ثبوت پیش کیے تھے کہ چینی سولر پینل مینوفیکچرز نے اپنے اسمبل آپریشنز کو ملائشیا، تھائی لینڈ، کمبوڈیا اور ویتنام جیسے ممالک میں منتقل کیا تھا اور پھر ان ممالک سے تیار شدہ مصنوعات کو امریکہ بھیجا تھا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ماہرین اقتصادیات میں یہ اتفاق پایا جاتا ہے کہ ٹیرف پالیسی امریکہ کو بہت بڑے معاشی بحران میں دھکیل سکتی ہے اور اس کے اثرات عالمی سطح پر واضح نظر آئیں گے اور اس کی وجہ سے بڑھنے والی بے چینی سے بہت سے مسائل سر اٹھا سکتے ہیں۔