میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
فساد کی سیاست اور سیاست کا فساد

فساد کی سیاست اور سیاست کا فساد

ویب ڈیسک
منگل, ۱۱ اپریل ۲۰۲۳

شیئر کریں

ڈاکٹر سلیم خان
۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھارتیہ دنگا پارٹی کو شر انگیزی کے لیے بہانہ چاہیے ۔ کسی زمانے میں یہ لوگ ملک بھر رام رتھ یاترا نکال کراور مندر وہیں بنائیں گے کا نعرہ لگا کر دنگا فساد کیا کرتے تھے ۔ اب مندر بن رہا ہے تب بھی رام نومی کو موقع پر شر انگیزی جاری ہے ۔ رام نومی پچھلے کچھ سالوں سے مسلم مخالف تشدد کی علامت بنادیا گیا ہے اور اس کی زہرناکی میں مسلسل اضافہ ہور ہا ہے ۔ امسال رام نومی کے دن ملک کی مختلف ریاستوں میں تقریباً 20 مسلم مخالف پرتشدد واقعات رونما ہوئے ۔ رام نومی کے جلوس کی آڑ میں شرپسند عناصر نے مساجد پر پتھراؤ کیا اور بعض مقامات پر زبردستی درگاہوں میں گھس کر بھگوا پرچم لہرایا۔
عوامی املاک کونقصان پہنچانے کی کئی ویڈیوز بھی منظر عام پر آتی رہیں لیکن سیاسی رہنما اپنی سیاست چمکاتے رہے اور انتظامیہ بہانے بازی کرتا رہا۔ مہاراشٹر کے پالدھی میں ایک مسجد کے سامنے ڈی جے کے ساتھ ایک مذہبی جلوس نکالے جانے کے بعدتشدد پھوٹ پڑا ۔ اس کی ایف آئی آر میں فساد بھڑکانے والے 9ہندو اورردعمل میں اپنا دفع کرنے والے 63 مسلمانوں کو نامزد کیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ اتروال گاؤں میں دو گروہوں کے درمیان جھڑپ ہوگئی ۔ اس سلسلے میں پولیس نے 12 افراد کو حراست میں لے لیا۔ مہاراشٹر میں اورنگ آباد سے قریب کراڈی میں نامعلوم افراد کے ذریعے ایک مجسمے کو توڑے جانے کے بعد کچھ لوگوں نے ایک مندر کے باہر پولیس کی گاڑیوں کو پھونک دیا۔
کلیان میں درگاہ حاجی عبدالرحیم ملنگ شاہ میں بھگوا پرچم لہراکر جئے شری رام کے نعرے لگائے گئے ۔ ممبئی کے ملاڈ میں رام نومی کی ریلی کے دوران ہندوتوا کارکنوں کاہجوم مسجد کے باہر رک کر اشتعال انگیز نعرے لگانے لگا تو اس کے بعد تصادم ہوگیا ۔پولیس نے حالات کو قابو میں کرنے کے لیے لاٹھی چارج کیا لیکن پھر یکطرفہ ان مسلمانوں کی گرفتاری بھی کرلی جو بیچ بچاؤ کررہے تھے ۔ راجستھان کے بنجھ بیالا میں ایک مسجد کے اوپر زعفرانی جھنڈا لہرایا گیا ۔ مدھیہ پردیش کے کھرگون میں حضرت کالے خان کی درگاہ پر سبز پرچم کو بھگوا جھنڈے سے بدلا گیا۔ گجرات کے وڈودرا میں شوبھا یاترا کے دوران ایک مسجد پر پتھراؤ ہوا ۔ پولیس نے پہلے تو حسبِ روایت متعدد مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا مگر بعد میں وی ایچ پی کے رشی والیا اور روہن شاہ کو بھی حراست میں لے لیا۔اس کے بغیرتشدد پر قابو پانا ممکن نہیں ہے ۔گجرات کی مانند یوپی کے آگرہ اکھل بھارت ہندو مہاسبھا کے عہدیداروں نے خودگئو کشی کی واردات انجام دے کرفساد بھڑکانے کی مذموم کوشش کی مگر پولیس نے مہاسبھا کے قومی ترجمان سنجے جاٹ کو کلیدی ملزم قرار دے کرکچھ کارکنان کے بھی اس سازش میں ملوث ہونے کا انکشاف کیا۔یہ دونوں باتیں قابلِ ستائش ہیں۔
بہار اور مغربی بنگال کو اس بار فرقہ وارانہ جھڑپوں کا خاص مرکز بنایا گیا ۔ بہار کے ساسارام اور بہار شریف نیز مغربی بنگال کے ہگلی فرقہ پرستوں کے نشانے پر رہے ۔بہار کے ساسارام میں بم دھماکہ ہواجس میں پانچ افراد زخمی ہوے ۔ پولیس نے اسے فرقہ وارانہ واقعہ ماننے سے انکار کرکے امن برقرار رکھنے کی اپیل کی۔ بہار شریف میں تصادم کے بعد دفعہ 144 نافذ کر دی گئی اس کے باوجود رات میں 2-3 مقامات پر وارداتیں ہوئیں ۔ شرپسندوں کی شناخت کے بعد 80 سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا نیز باہر سے 9 پولیس کمپنیوں کو طلب کیا گیا۔ اس تشدد کا سب سے بڑا نقصان بہارشریف کے ایک قدیم مدرسہ عزیزیہ کی لائبریری کو نذر آتش کردیا جانا تھا۔ ان خونریز فسادات کے بعد اپنی سیاست چمکانے کے لیے وزیر داخلہ امت شاہ نے بہار کا دورہ کیا۔ نوادہ میں بی جے پی نے نتیش کمار کے لیے اپنے دروازے ہمیشہ کے لیے بند کرنے کا اعلان کیا۔ ساسارام کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر وہ بولے میں ساسارام نہیں جاسکاکیونکہ وہاں لوگ مارے جا رہے ہیں، گولیاں چل رہی ہیں، آنسو گیس چھوڑی جا رہی ہے ۔ انہوں نے معافی مانگنے کے بعد وہاں جانے کا وعدہ کرکے بہار میں جلد امن کے قائم ہونے کی دعا کی ۔ فسادیوں زبان سے امن کی دعا کچھ عجیب سی تھی۔
وزیر داخلہ نے تشدد کا الزام ریاستی حکومت پر ڈال کر کہا کہ جس حکومت میں جنگل راج کے علمبردار شامل ہوں، کیا وہ حکومت بہار میں امن قائم کر سکتی ہے ؟ حالانکہ ہندوستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ لاقانونیت تو مودی اور شاہ کے گجرات میں ہے ۔ اس کی پردہ پوشی کے لیے کبھی بی بی سی کی فلم پر پابندی لگائی جاتی ہے تو نصابی کتب سے وہ باب نکالا جاتا ہے ۔ شاہ نے کہا کہ ایک شخص کو وزیر اعظم بننا ہے اور ایک کو وزیر اعلیٰ بننا ہے ، اس میں وہ بہار کے لوگوں کو پیس رہے ہیں۔یہی بات تو مودی اور اڈانی کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے کہ ایک کو وزیر اعظم بنے رہنا ہے اور دوسرے کو دنیا کا امیر ترین سرمایہ دار بننا ہے اور وہ دونوں مل کر عوام کا خون چوس رہے ہیں ۔وزیر داخلہ کے ان الزامات کا جواب دیتے ہوئے بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار نے رام نومی کے موقع پر بہار شریف اور ساسارام میں برپا ہونے والے تشدد کو لے کر مرکزی حکومت اور بی جے پی کو براہ راست نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ گڑبڑی کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔
وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے انتظامی ناکامی سے انکار کرنے کے بعد کہا کہ وفاقی نظام میں وزیر داخلہ امت شاہ کا طرز عمل درست نہیں ہے ۔ وہ ان کے الزامات پر توجہ نہیں کرتے لیکن جن لوگوں نے بہار کا ماحول خراب کرنے کی کوشش کی ان کی تحقیقات جا ری ہے ۔ پولیس اور انتظامیہ نے صورتحال کو سنبھالا اور حالات قابو میں ہیں ۔ نتیش کمار نے یاد دلایا کہ بہار میں ایسے واقعات کبھی نہیں ہوتے ۔ کچھ لوگوں نے ایک سازش کے تحت ایسا کیا ہے ۔ ہر گھر میں جا کر اس کی چھان بین کی جا رہی ہے اور بہت جلد حقیقت سب کے سامنے آ جائے گی۔نتیش کمار نے وزیر داخلہ امیت شاہ کے پٹنہ میں قیام کے دوران وزیر اعلیٰ کے بجائے گورنر کے ساتھ ریاست کی فرقہ وارانہ صورتحال پر گفت و شنید کو آئین کی خلاف ورزی قرار دے کر کہا کہ وفاقی نظام میں ایسا کبھی نہیں ہوتا۔ بہار کے علاوہ مغربی بنگال کے ہاوڑہ میں رام نومی ریلی بغیر اجازت کے شیو پور علاقہ میں داخل ہوگئی اور کئی گاڑیوں کو نذرآتش کردیا ۔ اس کے بعد پولیس کی بھاری تعداد میں تعیناتی اور فلیگ مارچ ہوا۔ وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے اس فرقہ وارانہ فساد کے لیے بیرونی عناصر و بی جے پی کوذمہ دار ٹھہرا کر ان پرامن خراب کرنے کا الزام لگا دیا۔
انہوں نے پوچھا رام نومی کی ریلی میں تلوار اور بلڈوزر لے کر چلنے کا حق کسی کو نہیں ہے توہاوڑہ میں یہ کیسے ہوا؟ اس کا جواب تو خود انہیں دینا چاہیے کیونکہ پولیس ان کے تابع ہے ۔
ممتا نے برملا اعتراف کیا کہ ریلی نے اچانک اپنا راستہ بدل کر ایک طبقہ یعنی مسلمانوں پر حملہ کیا۔ ممتا نے معاملہ کی جانچ اور کسی بے قصور کو گرفتار نہیں کرنے کا یقین دلایا ۔ ممتا نے جو کہا سوکردکھایا اور رام نومی جلوس میں ہتھیار لہرانے والے 19 سالہ سمت شا کو بہارکے مونگیرسے گرفتار کرلیا نیز اس نے اعتراف جرم بھی کرلیا۔ ہاوڑہ میں رام نومی کے دن نکالی گئی شوبھا یاترا پر پتھراو کے بعد ریاست میں سیاست تیز ہو گئی۔ بی جے پی رہنما امت مالویہ نے الٹا ممتا بنرجی کو تشدد کے لیے ذمہ دار ٹھہرا یا۔ بی جے پی رکن پارلیمان لاکیٹ چٹرجی نے الزام لگایا کہ، جس وقت شوبھا یاترا نکالی جا رہی تھی، وہ (ممتابنرجی) احتجاج پر بیٹھی تھیں اور تب شوبھا یاترا پر حملہ ہو رہا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے کہا کہ آگے بھی حملے ہوسکتے ہیں اور دوسرے دن بھی حملہ ہوا۔لاکیٹ چٹرجی کے مطابق ممتا بنرجی نے نندی گرام میں کہا تھا کہ اب ہنومان جینتی پر تشدد ہوگا، اس کا مطلب ہے کہ ممتا بنرجی پہلے سے ہی خاکہ تیار کر چکی تھیں۔ ساگردگھی ضمنی الیکشن ہارنے کے بعد ممتا بنرجی 30 فیصد مسلم ووٹ پانے کے لئے یہ سب کر رہی ہیں۔
ممتا کے پرانے ساتھی اور اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شوبھندو ادھیکاری نے پولیس پر الزام لگایا کہ، رشڑا میں جب جمعہ کے روز تشدد ہوا تو پولیس نے جان مال کی حفاظت کے لئے کچھ نہیں کیا۔ جن لوگوں نے توڑ پھوڑ اور پتھربازی کی، انہیں چھوڑ کر ہندو تنظیموں کے 12 کارکنان کو حراست میں لیا گیا۔ 100 سے زیادہ گھروں پر چھاپہ مارا گیا نیز پولیس نے خواتین کے ساتھ بھی بدتمیزی کی۔ اس کے علاوہ ہگلی ضلع میں رام نومی تشدد سے متعلق بی جے پی کارکنان نے پھر سے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ ان الزامات کے جواب میں ممتا بنرجی نے کہا کہ سینٹرل فورس آکر، فائیو اسٹار ہوٹل میں ٹھہری، فساد برپا کیا اور بی جے پی کارکنان کے ساتھ میٹنگ کرکے لوٹ گئی۔ بی جے پی دراصل مغربی بنگال اور بہار میں مظفر نگر پیٹرن پر کام کرنا چاہتی ہے ۔ پہلے نوجوانوں کو مشتعل کرکے فساد کرواو۔ اس کے بعد وہ گرفتار ہوجائیں تو ان کے ہمدردو غمخوار بن جاؤ۔ ان کے توسط سے پورے طبقہ کو ساتھ کرلو جیسے جاٹوں کو کیا تھا۔ ان میں سے کسی کو اپنی غلطی کا احساس ہو جائے اور وہ راہِ راست پر جانے کی کوشش کرے تو اسے بلیک میل کرو۔ یہ تجربہ چونکہ گجرات میں کامیاب ہوچکا ہے اس لیے وہ اس کو بنگال و بہار میں دُہرانا چاہتے ہیں۔
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں