کورونا وبا، قومی ادارے تیاری کریں
شیئر کریں
کوروناوائرس سے جڑے موضوعات اور اس وبائی مرض کے اہداف کا پورا ماجرا ابھی رہتا ہے۔ مگر دامنِ خیال فوری ایک عملی موضوع کی جانب کھینچا جاتا ہے، یہ ایک فوری غور طلب مسئلہ ہے کہ پاکستان کو اب کیا کرنا چاہئے؟ اس سوال پر غور میں ایک لمحہ تاخیر بھی نسلوں اور صدیوں کا بھوگ مانگ سکتی ہے۔
پاکستان کی المل ڈھلمل سیاست اور کمزور سیاسی ارادے نے قومی وجود کو کورونا سے پہلے ہی کورونا لاحق کررکھا ہے۔تبدیلی کی ہر کوشش ماضی کی تحویل میں جاکر پہلے سے زیادہ مکروہ صورت میں ظاہر ہونے لگتی ہے۔ پاک فوج نے کورونا وبا کے ایاّم میں کمزور سیاسی ارادے کے درمیان مستحکم مقام سے عملی ضرورتوں کے ساتھ پیش قدمی دکھائی۔یہ اُن لوگوں کے لیے بھی اُمید کی ایک کرن تھی جو پاک فوج کے سیاسی کردار پر تیوری چڑھاتے دکھائی دیتے ہیں۔ درحقیقت زندگانی عمل سے ہے۔ مگر یہ کافی کیسے ہو سکتا ہے؟ روزمرہ کے مسائل ایک طرف، درحقیقت کورونا وائرس نے ایک اور طرح کے خطرے کی گھنٹی بجائی ہے۔ کوئی مرگلہ کی پہاڑی سے چیخ کر بتائے کہ پاکستان نے جن حالات میں ایٹمی پروگرام شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا،یہ لمحہ اس سے زیادہ ریاضت کا تقاضا کرتا ہے۔
دنیا مکمل تبدیل ہوچکی۔ عالم کی پیشانی پر ایک نئے نظام کی سرخی اُبھر رہی ہے۔پڑھیے! خدارا اِ سے پڑھیے!!
دنیا کے بدلتے تقاضوں میں جنگ کے حالیہ نظریات بھی برقرار نہ رہ سکیں گے۔ اب ایک اور طرح کی جنگ کی تیاری کے لیے پاک فوج اپنے بہترین دماغوں کو جھونک دے۔ حکومت مکمل مدد کے لیے آگے بڑھے۔ پاکستان کو ایک اعلیٰ درجے کی فوری حیاتیاتی لیبارٹری درکار ہے۔ اور وطنِ عزیز کے گنے چنے وائرولوجسٹ کو نئی جنگ کے فرنٹ پر سپاہیوں کی طرح بروئے کار لانے کا وقت آگیا۔یہ ضرورت تمہید میں ہی بیان کردی گئی۔ مگر اس کا پسِ منظر اچھی طرح تول،ٹٹول اور کھول کھنگال لینا چاہئے۔ یاد رکھیں ایک نئی جنگ ہماری دہلیز پر کھڑی ہے۔یہ ہم سے ایک دوسرے کو کورونا وائرس سے بچانے اور سڑکوں پر کھڑے ہو کر راستے محفوظ بنانے اور راشن بانٹنے سے کہیں زیادہ کا تقاضا کررہی ہے۔ وقت کی جادو نگری میں شب وروز کا طلسم ٹوٹنے لگا ہے۔
ہنری کسنجر کی ایک مشہور کتاب ”A World Restored“دراصل نپولیائی جنگوں کے بعد سفارت کاروں کی اُن کوششوں کا احاطہ کرتی ہے جس نے دنیا کو دوبارہ بحال کیا۔بعد کے ادوار میں کسنجر دنیائے سفارت میں ایک تمثال (آئیکون) بن کراُبھرا۔ دنیا کے تمام بڑے دانشور اس امر پر متفق نظر آتے ہیں کہ کورونا وبا کے بعد اب دنیا پہلے کی مانند کبھی بحال نہ ہو سکے گی۔ گویا دنیا کی بحالی کا تصور اب تحلیل ہو رہا ہے۔ کورونا وبا کے انجام سے قطع نظر ایک نئی دنیا کی تشکیل روحِ عصر بن چکی ہے۔ چنانچہ بڑے دماغ اس نئی دنیا کو سوچنے سمجھنے میں مصروف ہیں۔ ہنری کسنجر نے اِسے بھانپ لیا ہے۔ چنانچہ چھیانوے سال کی عمر میں بھی اُنہوں نے ایک جھرجھری لی ہے۔ ہنری کسنجر نے گزشتہ جمہ کو ”وال اسٹریٹ جرنل“میں ایک نئے عہد کا سورج نکالتے ہوئے لکھا:دنیا کے قائدین کے لیے یہ ناگزیر ہو چکا کہ وہ مشتعل وبا سے نمٹتے ہوئے کورونا کے بعد کے نئے عالمی فرمان کی جانب پیش قدمی کریں۔اس میں ناکامی دنیا کو نذرِ آتش کردے گی“۔ کسنجر کے خیال میں جس طرح کورونا کے مرض میں وینٹی لیٹر کی ضرورت ہے ٹھیک اسی طرح کورونا وبا کے بعد ”نئے عالمی فرمان“ کی ضرورت ہوگی۔کسنجر کے خیالات امریکی بالادستی کے سانچے میں اُبھرتے ہیں۔اس لیے وہ اپنے موقف میں اس لاچاری سے باہر نہیں نکل پاتے۔ اُن کے نزدیک کورونا کے بعد ایک نئے ”معاشی عالمی فرمان“ کی ضرورت بھی ہوگی۔ امریکا کو اس پر ابھی سے قدم بڑھانا ہوگا۔ امریکا کے لیے چین ایک دشمن ہی ہوگا۔ چنانچہ کسنجر نے واضح لکھا ہے کہ ہم چین ہر بھروسا نہیں کرسکتے۔ کسنجر امریکا کو کہتا ہے کہ امریکیوں کو زندہ رکھنے والی ادویات کا کنٹرول چین کے پاس ہے۔ یہ انحصار کیسے درست ہوسکتا ہے۔ یہاں ٹہر کر برسبیل ِ تذکرہ اپنا جائزہ بھی لے لیتے ہیں۔ کسنجر کا یہ خیال قومی ریاست سے مکمل وفاداری کے باطن سے اُبھرتا ہے۔ ہمارا حال کیا ہے۔ پاکستان کو سوچنا چاہئے کہ ہماری ادویات کا انحصار بھارت پر کیوں ہے؟ ہمیں یہاں فارما مافیا کے سفاک اورناعاقبت اندیش حریصوں نے پہنچایا ہے۔ فارماسوٹیکل کمپنیوں اور ڈریپ کی ملی بھگت نے ہماری ادویات کے سارے منظر نامے پر پنجے گاڑ رکھے ہیں، ان کی تال میل ہمیں کسی دن بہت خطرناک موڑ پر اپاہج حالت میں کھڑا کردے گی۔ ہمیں کچھ نئی فارما سوٹیکل کمپنیوں کی ضرورت ہے۔ اس سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ اس مارکیٹ کو زیادہ گہرائی کے ساتھ کنٹرول کیا جائے اور منڈی کی قوتوں کے ہاتھ میں قومی ریاست کے مستقبل کو یرغمال نہ بننے دیا جائے۔
ذرا سوچئے! ”نئے عالمی فرمان“کی تشکیل و ترتیب میں بھی کسنجر کی توجہ پوری طرح ہیلتھ کے نظام پر کنٹرول اور کورونا وبا کے ایام میں اس کے تباہی کے مضمرات پر مرکوز ہے۔ وہ نئے نظام میں ویکسین پر ریاستی کنٹرول کی بات کررہے ہیں۔ اس باب میں یورپی ملکوں کا ردِ عمل دیکھ لیں۔ کورونا وائرس کی وبا کے بعد کسی بھی ملک نے اپنی اتحادی سیاست اور معیشت کی بھاگیداری پر توجہ نہیں دی۔ چند دنوں میں یورپی یونین سخت گیر قومی ریاستوں کے طور پر اپنی اپنی آہنی دیواروں میں ایک دوسرے سے لاپروا تھیں۔ تمام یورپی ریاستوں نے اپنی اپنی سرحدیں یکطرفہ طور پر بند کردیں۔یہاں تک کہ طبی پوشاکوں میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ حصہ داری گوارا نہیں کی۔ ان کے اسٹورز بھی ذخیرہ اندوزی کی طرف مائل نظر آئے۔اٹلی اور اسپین نے کورونا وبا کے بدترین حالات کے ہنگام میں اپنے شمالی پڑوسیوں کو مدد کے لیے پکاراتو ان دوست ملکوں نے انہیں ٹرخادیا۔ یورپی یونین کی عدالت ِ انصاف نے گزشتہ ہفتے فیصلہ دیا کہ پولینڈ، ہنگری اور جمہوریہ چیک نے 2015 میں مہاجر بحران کے دوران پناہ گزینوں کو منتقل کرنے سے انکار کر کے یورپی یونین کا قانون توڑ دیا تھا۔ تینوں ممالک نے اس پر کوئی معذرت کی ضرورت محسوس نہیں کی۔یونان نے گزشتہ ماہ شامی مہاجرین کو اپنی سرزمین پر داخل ہونے سے بزور طاقت روکا۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق یونانی فوج اور مسلح افراد نے پناہ گزینوں اور تارکین وطن کوچھینا جھپٹی کے علاوہ جنسی تشدد کا بھی نشانا بنایا، یورپی یونین بڑی حد تک خاموش رہا۔کسنجر کے نزدیک ان واقعات کا ایک بڑا تناظر ہے، ریاستیں اپنے اپنے مفادات کے تحت پرانے معاہدوں سے باہر نکلتی نظر آتی ہیں۔ جس میں یورپی یونین کا مستقبل بھی داؤ پر لگا ہوا ہے۔ کورونا وبا کے بعد کی دنیا اپنے نئے خدوخال، رخ ورخساراور نقش ونگار کی تلاش میں ہوگی۔ اس نئی دنیا کی تشکیل بھی بڑی حد تک کورونا وبا کو جنم دینے والے دماغوں کی صوابدید سے جڑی ہے۔یہ دماغ قومی ریاستوں کے تصور کو اپنے عالمگیر مقاصد کے ماتحت رکھنا چاہتے ہیں۔
کورونا وائرس قومی ریاست کی طاقت کے ایک نئے تصور کی داغ بیل ڈال رہا ہے۔ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے وائرس کا شکار ہونے سے ذرا قبل کہا کہ اس سے تو کوئی ایک ریاست نبر د آزما نہیں ہوسکتی، اس کے لیے ”عالمی حکومت“ کی ضرورت ہے۔عالمی حکومت کا یہ تصور کسی ”اتحادی سیاست“ کے ذہن سے نہیں اُبھرتا بلکہ یہ ایک سخت گیر تصور کی ماتحتی میں قومی ریاستوں کو بہت پھسپھسی اور پلپلی حالت میں رکھتا ہے۔ اس کا سیاق وسباق انتہائی منفی ہے اور عالمی شطرنج کی گہری چالوں سے آلودہ ہے۔ مگر یہ کھیل کا بس ایک ہدف ہے۔ حیاتیاتی جنگ نے اس کی راہ ہموار کرنا شروع کردی۔ قومی ریاست کی طاقت کو تحفظ دینے کے لیے اس نوع کے ہتھیاروں کی مضبوط ڈھالیں اب ہمیشہ درکار رہیں گی۔ ہمیں کمر کس لینی چاہئے، ہم ایک نئے عہد میں داخل ہورہے ہیں۔ اس نئے عہد کی جھلک کسنجر نے اپنے تناظر میں دیکھی ہے، مگر ہمیں اپنی قومی ریاست کے مقاصد کے ماتحت تیاریاں شروع کرنی چاہئے۔ اگلی ایک دہائی عالمی منچ پر قومی ریاستوں کے مقام کی کھینچا تانی کی نذر ہو جائےگی۔ جس میں وائرس بھی ہمارے ساتھ موجود رہیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔