میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاکستانی طالب علموں نے 3 گھنٹے میں مکان تیارکرڈالا

پاکستانی طالب علموں نے 3 گھنٹے میں مکان تیارکرڈالا

منتظم
منگل, ۱۱ اپریل ۲۰۱۷

شیئر کریں


کراچی(ویب ڈیسک) پاکستان کے تین طالبعلموں نے بے گھر افراد کی مدد کے جذبے کے تحت دن رات محنت کر کے ایسا قابل رہائش مکان تیار کر لیا ہے جس کی قیمت صرف ڈھائی لاکھ روپے ہے اور اسے چند گھنٹوں میں تعمیر کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں گھر بنانا انتہائی کٹھن مرحلہ ہوتا ہے اور اس میں لاکھوں روپے مالیت کے ساتھ کئی مہینے بھی صرف ہو جاتے ہیں جب کہ غریب افراد کے لئے تو مکان کی تعمیر میں سال یا اس سے بھی کچھ زیادہ عرصہ لگ جاتا ہے لیکن این ای ڈی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں سوِل انجینئرنگ سے وابستہ تین طالبعلموں نبیل صدیقی، یاسین خالد اور محمد ثاقب نے اس کا ایک دلچسپ اور انتہائی آسان حل تلاش کر لیا ہے۔ این ای ڈی کے تینوں طالبعلم پاکستان میں دہشتگردی سے متاثرہ افراد اور جنگ زدہ شام میں مہاجرین کے لیے فکرمند رہتے تھے اور اسی جذبے کے تحت اپنے فائنل ایئر پروجیکٹ کے طور پر انہوں نے کم خرچ اور فوری مکان تیار ہونے والا ایسا مکان تیار کیا جسے عام گھروں کی طرح بنایا اور توڑا جا سکتا ہے اور اسے با آسانی ایک سے دوسری جگہ پر منتقل بھی کیا جا سکتا ہے۔ ان نوجوانوں کا دعویٰ ہے کہ یہ ایک مکمل گھر ہے جو 10 برس تک قائم رہ سکتا ہے۔ پروجیکٹ کے ایک رکن نبیل صدیقی نے ایکپریس ٹریبیون کو بتایا کہ ’ہم ایسی شے بنانا چاہتے تھے جس کے ذریعے حقیقی دنیا میں لوگوں کے مسائل حل کئے جاسکیں لیکن اسے عملی جامہ پہنانا اتنا ہی مشکل ثابت ہوا یہاں تک کے این ای ڈی یونیورسٹی کے اساتذہ نے بھی اسے ایک دیوانے کی بڑ قرار دیا۔ یاسین خالد نے بتایا کہ ’جب ہم نے گھر کا ڈیزائن جامعہ کے پروفیسروں کے سامنے رکھا تو ہر ایک نے اسے ناقابلِ عمل سمجھا کیونکہ قلیل وقت میں تحقیق، ڈیزائن اور تعمیراتی مٹیریل پر کام کرنا ممکن نہ تھا تاہم ایک استاد نے ہمارے حوصلہ افزائی کی اور اسے عملی جامہ پہنانے کے لئے ہماری مدد کی۔ پروجیکٹ میں شامل تیسرے طالب علم ثاقب کا کہنا تھا کہ اس مکان کی تعمیر کے لئے اچھی خاصی رقم درکار تھی اورہمارا خیال تھا کہ ہمیں اسٹیل اور سیمنٹ کمپنیوں سے اپنے اس منصوبے کے لیے مدد مل جائے گی۔ ہم خوشی اور جوش سے ان کے پاس گئے لیکن نیک خواہشات لیے خالی ہاتھ گھر لوٹے، کوئی بھی طالبعلموں کو رقم نہیں دینا چاہتا تھا لیکن اس کے باوجود ہم نے ہمت نہ ہاری اور پروجیکٹ پر کام کا فیصلہ کیا۔ خالد کے مطابق ہم نے والدین سے پیسے لیے، اپنی اشیا فروخت کیں اور جیب خرچ کے پیسے بچا کر پروجیکٹ کا تعمیراتی سامان خریدا، اس کے بعد ایک دوست کے گھر کے عقبی (بیک یارڈ) لان میں کام شروع کر دیا، ابتدا میں خطیر رقم سے غلط مٹیریل آ گیا لیکن باہمت ٹیم نے اپنی غلطیوں سے سیکھا اور اس پر کام کرنے والے مزدوربھی نہیں جانتے تھے کہ آخر کیا بنانا ہے۔ اس کے بعد یہ منصوبہ کراچی میں واقع ایک ٹیکنالوجی انکیوبیٹر ادارے کو پیش کیا گیا جہاں خوش قسمتی سے اس پروجیکٹ کو منظور کرلیا گیا جس کے نتیجے میں طالبعلموں نے موڈیولس ٹیک نامی کمپنی قائم کی اور مختلف اداروں سے رابطے شروع کر دیئے۔ نیسٹ انکیوبیٹر پر رہنمائی سے معلوم ہوا کہ فوری طور پر تیار ہونے والے اس گھر کو مزدور کالونی، سیاحتی لاجز، فوجی کیمپ، کلینک، اسکول اور لوگوں کو فوری پناہ دینے کے لیے تیار کیا جاسکتا ہے۔ ان کے مطابق یہ ایک مکمل گھر ہے نہ کہ کوئی عارضی پناہ گاہ ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں