کشمیریوں پر بھارتی جبر
شیئر کریں
ریاض احمدچودھری
مقبوضہ وادی میں نریندر مودی کے اس نوعیت کے ”استقبال” سے کشمیریوں کے حق خودارادیت کی آواز دبانے کے لئے جبر کا ہر ہتھکنڈہ استعمال کرنے اور کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دینے والی بھارتی حکومت کو اس حقیقت کا بہرصورت ادراک ہو جانا چاہیے کہ جبر کے ذریعے کسی پر اپنی مرضی ٹھونسی نہیں جا سکتی۔ اگر کشمیری عوام اپنی قیمتی جانیں قربان کر کے گزشتہ 75 برس سے بھارتی تسلط سے آزادی کی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں تو کشمیر کو ہڑپ کرنے والے مودی سرکار کے پانچ اگست 2019ء کے اقدام کو بھی وہ کیسے قبول کر سکتے ہیں؟ مودی سرکار دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک کر مقبوضہ وادی میں ”سب اچھا” کی اصل حقیقت نہیں چھپا سکتی۔ بھارتی تسلط سے آزادی ہی کشمیریوں کی منزل ہے اور بھارتی جبر کا کوئی ہتھکنڈہ انہیں اس منزل سے نہیں ہٹا سکتا۔ اس جدوجہد میں پاکستان ہر فورم پر کشمیریوں کے کندھے سے کندھا ملائے کھڑا ہے کیونکہ ان کی جدوجہد درحقیقت پاکستان کے ساتھ کشمیر کے الحاق کی جدوجہد ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ اقوام متحدہ نے تسلیم کیا کہ کشمیر متنازع علاقہ ہے ۔بھارت نے پوری دنیا سے بغاوت کرکے اپنے آئین میں ترمیم کی پھر کشمیر کو اٹوٹ انگ کہنا شروع کر دیا اور کہا کہ بھارت کے آئین میں درج ہے کہ کشمیربھارت کا حصہ ہے۔ 1948 میں مجاہدین سرینگر پہنچنے والے تھے کہ بھارت بھاگ کر سلامتی کونسل گیا اور پھر یہ قرار داد منظور ہوئی پھر دباؤ ڈال کر تحریک آزادی کے بڑھتے قدم روک دئیے گئے۔ پاکستان نے قرارداد کو مانا لیکن بھارت نے کشمیر کو اٹوٹ انگ کی رٹ لگانا شروع کردی ۔ مسئلہ کشمیر پر موقف کی تائید اقوام متحدہ کی طرف سے ہوچکی ہے۔ پنڈت نہرو نے خود تسلیم کیا تھا کہ وہ کشمیر میں استصواب رائے کروائے گا لیکن بھارت کی آٹھ لاکھ فوج کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کا ارتکاب کر رہی ہے۔ نہتے کشمیریوں کا وحشیانہ قتل عام کیا جا رہا ہے۔ ہزاروں بہنوں و بیٹیوں کی عصمت دری کی گئی لیکن پوری کشمیری قوم کا ایک ہی نعرہ ہے کہ وہ آزادی حاصل کرکے رہے گی۔
آج بھی کشمیریوں پر مظالم کے پہاڑ ڈھائے جارہے ہیں خواتین کی عصمتوں کو پامال کیا جا رہے۔ کوٹ بلوال اور سرینگر کی جیلوں میں کشمیریوں کو بابند سلاسل کیا کیا گیا ہے نماز پڑھنے کی اجازت بھی نہیں دی جاتی مگر بھارت کہتا ہے کہ کشمیر آزاد ہے اس پر کوئی پابندی نہیں ، سب جھوٹ ہے۔ آج بھی مظلوم کشمیریوں پر فوج کا راج ہے مقامی حکومت نام نہاد ہے۔ کشمیر کسی کے باپ کی جاگیر نہیں ہے۔ یہ ڈیڑھ کروڑ زندہ انسانوں کا وطن ہے، جنہیں پچھلے 75 سال سے زبردستی غلام بنا لیا گیا ہے اور جب سے اب تک ان کا خون پانی کی طرح بہایا جارہا ہے۔جموں و کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دینا ہمالیہ جتنا بڑا جھوٹ ہے جس کا حقیقت کے ساتھ دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔ بھارتی حکمران کشمیر کے حوالے سے حقائق کو قبول کرنے کی بجائے ہٹ دھرمی پر قائم رہ کر یہاں انسانی زندگیوں کو گْل کرانے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے سری نگر کے بخشی اسٹیڈیم میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے دعوی کیا کہ جموں و کشمیر کی حیثیت کو تبدیل کر کے اسے ہندوستان میں ضم کر دیا گیا ہے۔ایسا آرٹیکل 370 کے خاتمے کے باعث ممکن ہوا۔ جموں و کشمیر صرف ایک خطہ نہیں بلکہ یہ ملک کا تاج ہے۔مودی نے کشمیری عوام سے آنے والے انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی کی اپیل کی اور جموں وکشمیر میں زرعی معیشت کو فروغ دینے کے لیے تقریبا 6400 کروڑ روپے کے پیکج کا بھی اعلان کیا کہ وہ دل جیتنے کے لیے کام کر رہے ہیںاور آپ کے دل جیتنے کی میری کوشش جاری رہے گی۔ میں آج کشمیر سے پورے ملک کو رمضان کی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ نئے جموں و کشمیر میں کسی بھی چیلنج کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ ہے۔ادھر مودی کے جموں وکشمیرکے دورے کے خلاف جمعرات کو مقبوضہ کشمیر میں مکمل ہڑتال کی گئی۔ وادی کشمیر میں سیکورٹی کے نام پر سخت پابندیاں نافذ کی گئیں۔قابض بھارتی فورسز کے اہلکاروں نے جگہ جگہ چوکیاں قائم کر رکھی تھیں۔بخشی اسٹیڈیم کو بھارتی فورسز کے اسپیشل پروٹیکشن گروپ نے اپنے حصار میںلے رکھاتھا۔ سرینگر اور وادی کشمیر کے دیگر اضلاع میں بھارتی فوج اور پولیس کی طرف سے جاری پکڑ دھکڑ اور چھاپوں کے دوران 700سے زائد نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ کشمیر یونیورسٹی اور سینٹرل کشمیر یونیورسٹی نے ہونے والے تمام امتحانات ملتوی کر دیے گئے۔ مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیر اعلی محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے سرینگر کے بخشی اسٹیڈیم میں جلسے کو زبردستی کی بھیڑ قرار دیا ہے۔ جلسے کی آڑ میں کشمیری عوام، خاص کر ملازمین کو ہراساں کیا گیا۔
نریندر مودی کا کشمیر کا یہ دورہ ایک ایسے وقت پر ہوا ہے جب حکمراں بی جے پی کئی برس سے وادی میں اپنا سیاسی قدم جمانے کی کوشش کر رہی ہے اور آئندہ مہینے پارلیمانی انتخابات شروع ہونے والے ہیں۔بہرحال ہمیں نہیں لگتا کہ کہ وزیر اعظم کے اس دورے اور ان کی تقریر کا یہاں کے سیاسی منظر نامے پر کوئی اثر پڑے گا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگ ذہنی طور پر بی جے پی کے ساتھ نہیں ہیں۔دیکھنے والی بات یہ ہو گی کہ جب پارلیمانی انتخابات ہوں گے تو وادی کی تین سیٹوں پر بی جے پی کو کتنے فیصد ووٹ ملتے ہیں اس سے ان کی قبولیت کی سطح کا اندازہ ہو سکے گا۔ 2019 میں فعہ 370 ختم کیے جانے کے بعد جموں و کشمیر ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا اور دونوں حصوں کو مرکز کے زیر انتظام لے لیا گیا تھا۔ اس وقت سے یہاں انتخابات نہیں کرائے گئے ۔ بی جے پی نے جموں میں اپنا اثر ورسوخ کافی بڑھا لیا ہے لیکن کشمیروادی میں جہاں غالب اکثریت مسلمانوں کی ہے اسے اپنے قدم جمانے میں وہ کامیابی نہ مل سکی جس کی وہ توقع کر رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔