میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اختلافات اور مصائب کی شکار اْمتِ مسلمہ

اختلافات اور مصائب کی شکار اْمتِ مسلمہ

منتظم
اتوار, ۱۱ مارچ ۲۰۱۸

شیئر کریں

امام کعبہ شیخ صالح بن محمد بن ابراہیم آل طالب نے کہا ہے کہ پاکستان ملتِ اسلامیہ کے لیے ایک قوت ہے اور ہم اسے اپنا مضبوط ترین دوست سمجھتے ہیں۔ خطے کو درپیش مسائل کے حل کے لیے تمام اْمت کو متحد کرنا ہوگا، علم کے بغیر کوئی معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا اور دنیا میں ہر چیلنج کا جواب علم ہی سے دیا جا سکتا ہے، مسلمانوں کو دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم بھی حاصل کرنی چاہئے، اختلاف ہونا، یا نظریہ مختلف ہونا ایک فطری عمل ہے مگر اختلافِ رائے کا تشدد میں بدل جانا قابلِ مذمت ہے۔ ہمیں دنیا کے سامنے اسلام کی اصل شکل پیش کرنا ہوگی۔ انہوں نے کہا طاغوتی قوتیں دینِ اسلام کو نقصان نہیں پہنچا سکتیں، دین کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے اٹھا رکھا ہے، حج کے موقع پر فساد پیدا کرنے کی ہر سازش کو ناکام بنائیں گے، عبادت کے لیے حرمین شریفین میں مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہیں، عبادات کی آڑ میں کسی کو شرانگیزی پھیلانے اور حرمین شریفین کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، سعودی سرزمین کے دفاع کے لیے حکومت اور پاکستانی عوام کا عزم اور محبت مثالی ہے۔ امامِ کعبہ نے ان خیالات کا اظہار مختلف تقریبات اور استقبالیہ تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کیا۔

امام کعبہ کا پاکستان آمد پر شاندار استقبال کیا گیا، وہ مختلف مقامات پر نمازوں کی امامت کرا رہے ہیں جن میں دور دراز سے لوگ ذوق و شوق سے شریک ہو رہے ہیں، نماز جمعہ کی امامت انہوں نے کالا شاہ کاکو میں مرکزی جمعیت اہل حدیث کی کانفرنس میں کرائی جہاں دور و نزدیک سے لاکھوں کی تعداد میں مسلمانوں نے شرکت کی۔ انہوں نے اپنے خطاب میں مسلم امہ کے اتحاد پر زور دیا، سعودی عرب سے آنے والے دوسرے فاضل علمائے کرام اور سکالر جب بھی پاکستان آتے ہیں، امہ کے اتحاد کی بات پوری قوت سے کرتے ہیں، لاکھوں لوگ ان سے براہِ راست یہ خطاب سنتے ہیں لیکن اسے بدقسمتی ہی کہا جائے گا کہ امت میں اتحاد کا مشاہدہ اگر کیا جائے تو مایوسی ہوتی ہے۔ عالمِ اسلام پر اگر ایک سرسری سی نگاہ دوڑائی جائے تو نظر آئے گا کہ دنیا کے اربوں مسلمان بری طرح گروہوں میں بٹ کر اپنی قوت تتر بتر کر چکے ہیں۔ مسلمان ممالک ہی باہم دست و گریباں نہیں، بلکہ ان ملکوں کے اندر بھی مختلف قسم کے گروہ آپس میں اور ریاست کے ساتھ لڑ رہے ہیں اور مسلمانوں کا خون بہا رہے ہیں۔

یمن میں کیا ہو رہا ہے؟ خانہ جنگی نے یہاں کے معصوم لوگوں کی زندگیاں اجیرن کر دی ہیں، عورتیں اور بچے بھوک اور بیماری سے بلک رہے ہیں اور اسی حالت میں موت کے منہ میں جا رہے ہیں، کوئی ان کا پرسانِ حال نہیں، بھوک، پیاس اور بیماری کی اس حالت میں اگر آسمان سے آگ برسائی جائے تو انسانی المیے ہی جنم لیں گے۔ سعودی سرزمین پر، جس میں مسلمانوں کے مقدس ترین مقامات واقع ہیں، میزائل داغے جا رہے ہیں۔ یہ تو مقام شکر ہے کہ سعودی عرب کی دفاعی افواج نے ایسا میزائل شکن نظام قائم کر لیا ہے جو ان میزائلوں کو ہدف پر پہنچنے سے پہلے ہی تباہ کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے، تاہم تصور کیا جا سکتا ہے کہ اگر سعودی عرب کا دفاع مضبوط نہ ہو تو کیسی تباہی پھیلے؟ بدباطن لوگ عین افطاری کے وقت مسجد نبوی? کی پارکنگ میں دہشت گردی کرکے روزہ داروں کو شہید کر چکے ہیں، مساجد کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے، اس لیے امام کعبہ نے ایک جگہ خطاب کرتے ہوئے بالکل درست کہا کہ سعودی عرب اور پاکستان کو دہشت گردی کے ایک جیسے مسائل کا سامنا ہے۔

شام اور عراق میں ناقص فہمِ اسلام رکھنے والے ایک گروہ نے اسلام کے نام پر قدیم تہذیب و تمدن کے امین ان ملکوں کو کھنڈرات میں بدل دیا، لاکھوں انسان موت کے منہ میں چلے گئے، بڑی تعداد میں عمر بھر کے لیے معذور ہو گئے، چھوٹے چھوٹے پھول سے معصوم بچوں کو زندگی سے محروم کیا گیا۔ جو لوگ زندگیاں بچا کر کسی نہ کسی طرح پْرامن یورپی ملکوں کی سرحد عبور کرنے میں کامیاب ہو گئے، انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ان ملکوں میں انہیں پناہ مل گئی، لیکن مقام افسوس ہے کہ اتحاد کے دعویدار مسلمان ملکوں نے ان کے لیے اپنی سرحدیں بند رکھیں۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے اپنے دل میں ان مسلمانوں کا درد محسوس کرتے ہوئے انہیں اپنے ہاں پناہ دی اور ان کی ضروریات کا بڑی حد تک خیال رکھا، لیکن دوسرے بہت کم ملکوں نے اس طرف توجہ دی، شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ یہ ممالک اپنے ہی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں، انہیں ان سے فرصت ملے تو کسی دوسری جانب توجہ دیں۔

جب ہم دیکھتے ہیں کہ امت کے وسائل امت کی بربادی پر صرف ہو رہے ہیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے، مسلمان ملکوں کی تنظیم او آئی سی نے اس نازک وقت میں کوئی حوصلہ افزا کردار ادا نہیں کیا، بلکہ یوں لگا کہ ایسی تنظیم کا کہیں کوئی وجود ہی نہیں، بہت سے اہم اسلامی ملک ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں، ایسے میں سوال یہ ہے کہ امت کو اتحاد و یکجہتی کی تلقین کا کیا کوئی مثبت نتیجہ برآمد ہوگا، مسلک و عقیدے کا اختلاف تو رہا ایک طرف، سیاسی اور معاشی پالیسیوں کے اختلافات نے پوری امت کو گروہوں میں بکھیر رکھا ہے، ایسے میں جب امام کعبہ جیسی مقتدر علمی شخصیات مسلمانوں کو اتحاد کی تلقین کرتی ہیں تو محسوس ہوتا ہے ان کی یہ دردمندی صحراؤں میں اذان ثابت ہو رہی ہے۔ سچی بات تو یہی ہے کہ امت اس وقت اتحاد سے خالی اور فتنہ انگیزیوں و گروہ بندیوں کا شکار ہے جس کی وجہ سے امت کے لیے اس کے اپنے ملکوں میں زندگیاں جہنم کا نمونہ بن کر رہ گئی ہیں۔ ایسے میں محسوس تو یہی ہوتا ہے کہ امام کعبہ کی اقتدا میں خضوع و خشوع سے نمازیں ادا کرنے کے بعد ہم گھر واپس جاتے ہی اتحاد کا درس بھول جاتے ہیں۔

سعودی عرب سے کوئی حکمران پاکستان آئیں، کوئی وزیر تشریف لائیں یا کوئی علمی شخصیت رونق افروز ہوں تو پاکستان کے ساتھ اپنی محبت کا اظہار کھل کر کرتے ہیں۔ یہاں کے لوگوں سے بھی محبت کا دم بھرتے ہیں، لیکن سعودی عرب کے اندر جو فلاکت زدہ لوگ محنت مزدوری کے لیے گئے ہوئے ہیں، وہ حکومت سے شاکی ہی پائے جاتے ہیں۔ جب سے سعودی معیشت دگرگوں ہوئی ہے، ایسی شکایات بھی سامنے آتی رہتی ہیں کہ انہیں ان کی اجرتیں بھی پوری ادا نہیں کی جاتیں اور اگر متعلقہ حکام کو شکایت کی جاتی ہے تو انہیں جیل بھیج دیا جاتا ہے یا پاکستان واپس کر دیا جاتا ہے۔ معمولی معمولی غلطیوں پر اور چھوٹی چھوٹی کوتاہیوں کی بنا پر ہزاروں لوگ جیلوں میں سڑ رہے ہیں اور کوئی ان کا پرسان حال نہیں۔ ان کی غیر حاضری میں بہت سے خاندان ناقابلِ بیان مصائب کا شکار ہو گئے، لیکن کوئی حکومت اور کوئی ادارہ ان کی مدد کو نہیں پہنچتا۔ سعودی عرب میں قوانین پر سختی سے عمل درآمد کیا جاتا ہے، لیکن بعض اوقات ابلاغ کی مشکلات کی وجہ سے بھی مصائب جنم لیتے ہیں اور لوگ طویل مدت تک جیلوں میں سڑتے رہتے ہیں۔ اگر سعودی حکومت ان معاملات پر ہمدردانہ نگاہ ڈالے تو شاید بہتری کی کوئی صورت نکلے، لیکن ایسے معاملات کا حل لوگوں کو سعودی عرب سے نکالنے کی شکل میں ڈھونڈا جا رہا ہے، حالانکہ اگر پاکستان کے ساتھ سعودیوں کو محبت ہے تو اس کا اظہار پاکستانیوں کے ساتھ بھی ہونا چاہئے، لیکن افسوس ہے کہ اس معاملے میں ہمارے سعودی بھائیوں کا دل کشادہ نہیں ہے۔ امام کعبہ صرف نمازوں کی امامت ہی نہیں کراتے، بلند پایہ علمی مقام بھی رکھتے ہیں اور جج کے منصب پر بھی فائز ہیں، کیا یہ امید رکھی جائے کہ وہ سعودی حکومت میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے اپنے مسلمان پاکستانی بھائیوں کے لیے سعودی عرب میں بہتر مواقع پیدا کرنے میں معاون ثابت ہوں گے؟ یہ ان اسلامی تعلیمات کے بھی عین مطابق ہوگا جس کی مسلمان امت اور مسلمان حکومتیں یکساں طور پر پابند ہیں۔ )تجزیہ)


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں