میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے

اور نکلیں گے عشاق کے قافلے

ویب ڈیسک
منگل, ۱۱ فروری ۲۰۲۵

شیئر کریں

ب نقاب /ایم آر ملک

خوشاب شہر کے مرکزی دروازہ پر ملک عمر اسلم اعوان کی شکست آج بھی ایک سوال بن کر چسپاں ہے۔
الیکشن کے روز شہر کے چہرے پر کہیں بھی شکست کے آثار نہ تھے مگر ایک حیران کن سناٹا ،ہر گلی ،ہر کوچہ و بازار میں نظر آیا ،ہر آنکھ میں ایک قہر اُترا ہوا تھا جو شہر کے چہرے پر شکست لکھنے والے میر جعفروں اور میر صادقوں کے کردار پر قہر بن کر برس رہا تھا۔
میں شہر میں داخل ہوا تو با با شہباز کا مغموم چہرہ نظر آیا، شہر کے چہرے پر لکھی شکست پر اُس کی آنکھوں سے آنسوئوں کی جھڑی لگی ہوئی تھی ، ملک مسعود جڑوال کے جواں ہمت جذبے با با شہبازاعوان کے ناتواں کندھوں کو سہارا دیکر دلاسوں میں مگن نظر آئے، میں آگے رواں ہوا تو شہر کے معصوم نو نہالوں کی ایک ٹولی جس کی زباں پر” عمر اسلم زندہ باد”نظر آئی ، پھر وہ مجھے روک کر سوال کرنے لگے ایک ایسا سوال جس کا جواب میرے پاس نہیں تھا ،اُن بچوں کو بھی شہر کے چہرے پر لکھی شکست کا یقین نہیں تھا ۔
میری آنکھوں کو دیکھ کر وہ معصوم گویا ہوئے انکل آپ بھی سچ کہنے سے گریزاں ہیں ؟
کیا واقعی شہر ہار گیا ہے ؟
8فروری2024کو مجھے محض این اے 87خوشاب میں ہونے والی ریکارڈ دھاندلی پر سوالات کا سامنا نہیں پڑا ،سیالکوٹ کی ریحانہ ڈار ،لاہور کے شبیر گجر ،سلمان اکرم راجہ ،بہاولنگر کے شوکت بسرا ،پنجاب کے تمام شہروں سے لیکر شہر قائد ،کوئٹہ سے لیکر گلگت اور کشمیر تک ان سوالات پر گرد نہیں ڈالی جاسکی ،یہ سوالات ہر محفل ،ہر ٹی اسٹال پر ہر روز ایک نئی شدت لے کر اُٹھتے ہیں ،عوامی نمائندگی کا تاج جن کے سرپر سجا انہیں اس تاج سے محروم کردیا گیا ۔
کیا سکندر سلطان راجہ کے کردار کو بھلایا جاسکتا ہے ،یا قاضی فائز عیسیٰ کو ؟
مجھے یاد آیا کہ میسور اور ہندوستان کو انگریزوں کی غلامی میں دینے کیلئے ایک ہی میر صادق کافی ہوا۔
بنگال اور ہندوستان کے مقدر میں محکومیت کا اندھیرا لکھنے کیلئے ایک میر جعفر بہت تھا ،غرناطہ اور الحمرا کی چابیاں فرڈینیڈ اور ملکہ ازابیلا کے سپرد کرنے اور ہسپانیہ سے مسلمانوں کے اخراج کیلئے دوسرے ”ابوعبداللہ ”کی ضرورت نہ تھی۔
مجھے سکندر سلطان راجہ اور قاضی فائز عیسیٰ سے کہنا ہے کہ ابن ِ علقمی سلطنت عباسیہ کا آخری وزیر اعظم اسے ہلاکو خان کے ساتھ خفیہ طور پر بغداد کا سودا کرتے وقت کامل یقین تھا کہ وہ صرف اپنے مفادات کا تحفظ کر رہا ہے، غداری کا مرتکب نہیں ہورہا، جب بغداد کے دروازے ہلاکو خان کی افواج پر کھول دیے گئے اور مسلم تہذیب و تمدن کے اس عظیم گہوارے پر تاتاریوں کا قبضہ ہو گیا تو ابن ِ علقمی نے ہلاکو خان سے اپنی خدمات کا صلہ مانگا۔
ہلاکو خان نے جواب میں ایک زہریلا قہقہ بلند کرتے ہوئے کہا کہ ”جو شخص اپنی قوم سے وفاداری نہ کر سکا وہ میرا وفادار کیسے بنے گا اور میں اُس کی وفاداری پر کیسے اعتماد کروں گا ؟ منگول سپہ سالار نے ابن علقمی کو جیسے عبرت ناک انجام سے ہمکنار کیا اُس کا تصور تک لرزہ خیز ہے ، غلام ابن ِ غلام یہ بھول گئے کہ حرص و ہوس کا جو بھی اسیر اپنے خفیہ اکائونٹس کا پیٹ بھرنے کی دوڑ میں عوامی مفادات کا سودا کرتا ہے، عوام اُس کے چہرے پر غداری کی جو کالک ملتے ہیں وہ تمام عمر نہیں اُتر پاتی۔
کسی بڑے طوفان کے پھوٹنے کے آثار اور علامات بہت کم لوگوں کو دکھائی دیتی ہیں، ہولناک خاموشی کے پس منظر میں گہرا شور بہت کم کانوں کو سنائی دیتا ہے، 8فروری 2024 کو یہی ہوا کہ عوام کی اصل طاقت گلیوں ،بازاروں ،کھلیانوں اور غریبوں کی بستیوں میں سمٹ آئی۔ ووٹ کی شکل میں نسل در نسل دبے اور جکڑے ہوئے محنت کشوں کو میں نے تاریخ کے میدان میں اُتر کر اپنا مقدر اپنے ہاتھوں سے تخلیق کرتے دیکھا مگر وقت نے دیکھا، رائے کے قتل عام پر سارے احساس نم ہوگئے ،میرا ایک دوست کہتا ہے آنسوئوں کی قیمت کوئی اُن آنکھوں سے پوچھے، وطن عزیز کے چہرے پر لکھی شکست پر جہاں سمندر آباد ہو گئے ،چلتے پھرتے باسیوں کی روح کو غم نے جکڑ لیا خوابوں کی سر زمین جب لٹ کر ویران ہو جائے تو پھر وحشت سارے وجود پر چھا جاتی ہے یہی حالت ان ووٹروں کی ہے جن کے دل اور دماغ پر اک جنون سوار ہے بغاوت کے جذبات اُبل رہے ہیں ۔
8فروری 2024کو ہونے والے دھاندلی اور اپنے مینڈیٹ پر ڈکیتی کو عوام نہیں بھولے ،سول آمریت کے خوف کا خول پھاڑ کروہ باہر نکلے ، شہر شہر سراپا احتجاج ہوئے ،8فروری 2025کے عوامی احتجاج نے ثابت کردیا ہے کہ عوام کا دُکھ ،رنج اور غصہ اب انقلاب کی طرف بڑھ رہا ہے ۔نادار اور محنت کرنے والوں کے ظاہری سکوت کے نیچے سلگنے والے لاوے کا درجہ حرارت اب بھڑکنے کو ہے اور اسے سرد کرنے کا سوچنے والے اب خود بھسم ہو کر راکھ بن جائیں گے ، یہ اضطراب ،یہ ہلچل اور بے چینی کم وقت کی نہیں اس کے پیچھے تین برس کا جبرو تشدد ، ناجائز مقدمات ،چادر اور چار دیواری کی پامالی ،عورتوں سے ان کے دوپٹے اور عزت چھیننے ،ان کو پابند سلاسل کرکے جسمانی اور ذہنی طور پر ٹارچرکرنے ،پرامن احتجاج پر گولیاں برسانے ،معصوم اور نہتے شہریوں کی لاشیں گرانے کا طویل عرصہ کارفرما ہے۔
8فروری کا احتجاج ذلت ،اذیت ،ظلم کے خلاف ایک ”ایکشن ری پلے ”ہے ، عوا م کے سیلاب کو روکنا اب کسی کے بس میں نہیں رہا ، صوابی کے جلسے میں عوام نے ایک نئی تاریخ رقم کردی ہے ،پنجاب میں وہ لوگ جن کے بارے میں سوچا تک نہ جا سکتا تھا وہ گھروں سے نکل آئے، بالکل اسی طرح جس طرح انہوں نے 8فروری کو بغیر نشان والے امیدواروں کیلئے ڈور ٹو ڈور الیکشن کمپین کی اور میں اس کا کریڈٹ حسن اسلم اعوان جیسے نوجوانوں کو دیتا ہوں جو اس انقلاب کے ہراول بنے ۔
عوام سے بنیادی حقوق اور عزت نفس چھیننے کا نتیجہ ہے کہ آج پی ٹی آئی کے مخالفین منہ چھپاتے پھر رہے ہیں،عمران کے ایک ووٹ کو بھی توڑنا اب ممکن نہیں، عوام پر سول آمریت کاا نتقامی کوڑا ایک قہر بن گیا، آج وہی قہر عوام کے سیل ِرواں کی شکل میں لاوا بن کر ہر شہر ،ہر قصبہ ،ہر گائوں ،ہر گلی میں نکل آیا ہے۔
8فروری 2025کے احتجاج نے ظلم کی چکی میں پسے ہوئے عوام کو ایک نیا جذبہ ،ایک نیا اعتماد ،ایک نئی اُمنگ اور ایک نئی جرأت دی ہے ، عوام کے اس سمندر کی سر سراہٹ ذہنوں اور شعور کو جھنجھوڑ رہی ہے،نوجونوں کی للکاراب شہروں ،دیہاتوں ،گلیوں اور بازاروں میں سنائی دے رہی ہے ،موروثی سیاست بوکھلاہٹ کا شکار ہے اور ظلم کے تسلسل کے خلاف مہم ایک تحریک کی شکل اختیار کر چکی ۔
جب سارے حربے ناکام ہو جائیں تو سیاسی ایکٹر اپنے خلاف طوفانی بغاوت کو اپنی کرپشن کی کمائی سے روکنے کیلئے بے چین ہوتے ہیں مگر عوام کے ساتھ غداری کرنے والے لٹیروں کے اصل چہرے اور کردار بے نقاب ہوچکے ، اس بار جو تحریک اُبھرے گی ، وہ حریت پرست ، پر استقلال ،پر عزم اور جرأت مندانہ ہوگی ۔اب کوئی سرداری ایجنٹ تھانوں میں بیٹھ کر کسی مظلوم پر اپنی ذلت اور اذیت مسلط نہیں کرے گا کہ عوام کے ہاتھ ہر ظالم کے گریبان تک پہنچنے کیلئے اُٹھ چکے ،کسی سردار کا خوف اور ڈراُن کی چمڑی میں نہیں رہا ،ایک طویل عرصہ بعد موروثی سیاست کا جھوٹا سحر ٹوٹ رہا ہے اور درو دیوار تبدیلی کی گونج سے لرز رہے ہیں، موروثیت کے چٹی دلال ،تنخواہ دار منشی ششدر ہیں ،حیران ہیں ،مایوسی کی دھند چھٹ چکی اور ایک نئی صبح کا آغاز ہوا چاہتا ہے ،غلامی اب عوام کا مقدر نہیں رہے گی۔
قابل احترام ہیں راولپنڈی کے انجینئر افتخار چودھری جنہوں نے جرأت ،ہمت اور انقلابی جدوجہد کا ایک قابل فخر سرمایہ وراثت میں نئی نسل کو منتقل کیا، یقیناظلم و جبر اور غداریوں کو عوام کے حافظے اور تاریخ سے نہیں مٹایا جا سکتا، مایوسی پھیلی ،غداریاں ہوئیں اور دھیرے ، دھیرے ایک سناٹا اور اندھیرا چھایا مگر عوامی احتجاج نے ایک نئی تاریخ رقم کی اور کہا جاتا ہے کہ عوامی اور انقلابی تحریک کو اکابرین جہاں چھوڑتے ہیں نئی نسل وہی علم اُنہی ارمانوں کے ساتھ اُسی خون آلود مقام سے بلند کرکے آگے بڑھتے ہیں اور سامراجی دلالوں کی رعونت کے پرخچے اُڑا دیتے ہیں۔
جعلی مینڈیٹ کی عمر بہت کم ہوتی ہے دھاندلی اور بے اعتمادی سے تعمیر کیے گئے تاج محل ریت کی طرح ہوتے ہیں ،میں ورکروں کے حوصلے کی داد دیتا ہوں جو ہارے نہیں ،شکست جنہوں نے تسلیم نہیں کی لیکن خیبر پختونخواہ کے عاطف خان جیسے نوجوان پھر اُٹھیں گے اور عوام کا ریلا ماضی کی کوتاہیوں ،کمزوریوں کو تلف کرتا ہوا جب منزل کی طرف بڑھے گا تو اپنے ہاتھوں اپنے مقدر کی تخلیق ،تعمیر اور تشکیل کو مکمل کیے بغیر پیچھے نہیں ہٹے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں