مریم نواز کا مصافحہ!
شیئر کریں
ماجرا/ محمد طاہر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترمہ مریم نواز صاحبہ کی ہاتھ ملاتے یا ہاتھ دباتے ہوئے تصویر ابھی نظرانداز کیجیے!
خواتین کے بعض موضوعات ایسے ہیں کہ جو کبھی زیر تذکرہ نہیں لانے چاہئے۔ مگر اجتماعی زندگی میں حیات کرنے والی عورتیں ہمیشہ اس سے مستثنیٰ سمجھی گئیں۔ یہ اصول کسی اور نے نہیں نون لیگی دانشوروں نے بے نظیر بھٹو کو زیر بحث لاتے ہوئے برتا۔ نوے کی دہائی میں بھٹو خاندان کی خواتین ایک ”لذیذ” موضوع بنا کر محفلوں میں اُچھالی گئیں۔ شریف خاندان کے آگے سجدہ ریز دائیں بازو کے دانشوروں نے ان حرکتوں کے لیے مذہبی حیلے اختیار کیے۔ نصرت بھٹو کی امریکی صدر کے ساتھ رقصاں تصویر ایک ہفت روزہ کے سرِورق پر سجی۔بے نظیر بھٹو کی مختلف حکمرانوں سے ہاتھ ملاتے ہوئے تصویریں بھی ”غیرت کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے” کی پھبتی کے ساتھ پھیلائی گئیں۔ اُن داستانوں کو چھوڑ دیجیے جو ان خواتین کے ساتھ منسوب کرکے روز محفلوں کا چسکا بنتیں۔ایک مذہبی فریضے کے طور پر بے نظیر بھٹو ہدف بنیں۔ عورت کی سربراہی پر مختلف کتابیں منظر عام پر آئیں۔ یہ کتابیں واقعتا اسلامی تناظر کی وضاحت میں احاطۂ تحریر میں آتیں تو قابلِ عزت بھی سمجھی جاتیں۔ اُصولی طور پر ایک درست موقف اور حقیقی اسلامی تصور رکھنے کے باوجود اس کا ہدف کسی اسلامی اُصول کی وضاحت سے زیادہ سیاسی طور پر بے نظیر کو نشانا بنانا تھا۔ چنانچہ ان کتابوں کو مسلم شعور کی آبیاری اوراسلامی اُصول کی وضاحت کے شعور سے دیکھا گیا نہ پڑھا گیا بلکہ اسے سیاسی مقاصد کے تحت پھیلایا اور پروپیگنڈے کا ہتھیار بنایا گیا۔ یہ رکیک کاروبار بے نظیر بھٹو کی نجی زندگی تک وسیع کیا گیا۔ بے نظیر بھٹو کاآکسفورڈ دور مختلف کہانیوں کی زینت بنا۔ اس کا واحد تناظر یہ تھا کہ وہ پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم کے طور پر جلوہ افروز ہو چکی تھیں۔ تب یہ مقتدر اشرافیہ کے منصوبے کے برخلاف تھا۔
مقتدر اشرافیہ نے بے نظیر بھٹو کو پاکستان دشمن کے طور پر ہی نہیں اسلام دشمن کے طور پر پیش کیا اور اس موقف کو پاکستان کے روایت پسند طبقے میں قبول کیا گیا۔ اس موقف کے ابلاغ میں جو مذہبی جماعتیں اور دائیں بازو کے دانشور ، صحافی خرچ ہوئے اُن سب کے الگ الگ اہدا ف تھے، کوئی کشش ، کوئی رعایت اور کوئی منفعت کے کسی نہ کسی چکر کا شکار تھا۔ یہ ایک الگ بحث ہے۔ اس مرحلہ ٔ فریب میں نوازشریف منظر عام پر اُچھالے گئے۔نوازشریف اور اُن کے خاندان کی شبیہ مشرقی روایات میں گندھے گھرانے کے طور پر وضع کی گئی۔ خاندان کے سرپرست میاں شریف کو ایک محنتی اورروایت پسند کے طور پر پیش کیا گیا۔ شریف خاندان کی عورتوں کے متعلق باربار یہ ابلاغ کیا گیا کہ یہ عشاء کی نماز پڑھ کر سو جاتی ہیں اور ٹی وی تک نہیں دیکھتیں۔ گپورے بازیوں کا یہ پورا جنگل اُگانے والے پوری طرح آگاہ تھے کہ ان کی نجی زندگیاں کیسی کہتر و ابتر ہیں۔ یہ تمام کردار کس طرح رنگین وسنگین داستانوں سے آلودہ ہیں۔ جس گھرانے کے افراد کے شب وروز کو شرعی شب وروز کا احوال بنا کر ظاہر کیا جارہا تھا، وہ اپنی راتوں کے گھر کئی ایک رکھتے تھے۔ نواز شریف، شہباز شریف ہی نہیں ان کے بچوں کی بھی داستانیں تھیں۔ مگر سب نظرانداز کی گئیں۔پاکستان میں چھپنے والی کتابوں میں شامل پرتکلف احوال نظرانداز کیجیے! ایک امریکی خاتون صحافی کم بارکر (Kim Barker) نے افغانستان اور پاکستان کے تناظر میں ایک کتاب دی طالبان شفل (The Taliban Shuffle) لکھی تو ایک پورا باب شیر پنجاب نواز شریف پر باندھ دیا۔ باب نمبر سولہ کا عنوان ہی نہایت دلچسپ ہے، اسٹرے کیٹ اسٹراٹ (STRAY CAT STRUT)یعنی آوارہ بلی اکڑ کے۔ کتاب کے اس سولہویں باب کے گیارہ صفحات پڑھنے کے قابل ہیں جس میں وہ یہ بتاتی ہیں کہ کس طرح نواز شریف نے اُسے ایک موبائل فون دینے کی پیشکش کرتے ہوئے رِجھانے کی کوشش کی۔ نواز شریف کے الفاظ شرمناک تعلقات کی استواری کے لیے کس طرح بے شرم ہوئے۔ وہ خود کو بوڑھا کہتے ہوئے کیسے اپنی جوانی کایقین دلارہے تھے۔ جب یہ اور اس سے بھی پہلے ٹیلی فون پر پاکستانی اور انڈین گلوکاراؤں کو یہ رہنما گانے سنایا کرتے تھے، تو یہاں پاکستانی کالم نگار اپنی تحریروں میں ان کی مشرقی و اسلامی روایتوں سے وابستگی کی داستانیں سنا رہے ہوتے تھے۔ یہ ہمیں بتاتے تھے کہ نواز شریف پورا دن باوضو رہتے ہیں۔ البتہ ان کالم نگاروں سے یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ کم بارکر کو رجھاتے ہوئے بھی نواز شریف باوضو ہوتے تھے یا نہیں؟ یا باوضو ہو کر اپنا وضو سنبھال بھی پاتے تھے یا نہیں؟ اگرچہ یہ کام شہباز شریف کی فارم 47 کی حکومت سنبھالنے سے کہیں زیادہ مشکل ہے۔ باوضو الفت کے تقاضے شرعی آداب کا لحاظ کیسے رکھ پاتے ہوں گے، اس کے لیے ایک سوقیانہ اجتہاد درکار ہوگا۔حافظ طاہر اشرفی اس کے لیے زیادہ موزوں ہیں کہ پان کھا کر ہی لہرانے لگتے ہیں۔ تفنن برطرف! یہاں اس داستان کو چھوڑ کر مریم نواز کے موضوع سے مصافحہ کرتے ہیں۔
مریم نواز نے رحیم یار خان میں یو اے ای کے صدر محمد بن زید النہیان سے مصافحہ کیا تو یہ سادہ مصافحہ نہ تھا۔ اس کے پیچھے تاریخ کا یہ پورا پس منظر بھی اُبل ، اُچھل رہا تھا۔ جس میں بے نظیر بھٹو سے لے کر تمام سیاسی مخالفین کے خلاف مسلم فکر وروایت کے نقطۂ نظر سے مسلسل سلگتی تنقید اور نون لیگی دانشوروں کی شرمناک منافقت موجود تھی۔ اگر ایک لمحے کے لیے اسلامی روایت اور مشرقی تہذیب دونوں کو ہی پرے دھکیل دیں تو یہ جدید دنیا کے سفارتی آداب کے بھی برخلاف ایک منظر تھا۔ سفارتی آداب میں حکمرانوں کے اختلاط کے تمام طریقے نہایت نپے تُلے ہوتے ہیں۔ ہاتھ ملاتے ہوئے فاصلے سے لے کر ہاتھ ہلانے کے دکھاوے تک ہر عمل کا سفارتی ڈھنگ موجود ہے۔ مریم نواز نے شیخ زید بن النہیان سے ہاتھ نہیں ملایا بلکہ اُن کے ہاتھ پر دوسرا ہاتھ بھی دھردیا۔ یہ دو طرح کے تاثر سے لتھڑا طرزِ ملاقات ہے ۔ ایک تاثر غلبے یا تعلق کی بے پناہ گہرائی کی نفسیات رکھتا ہے ۔ دوسرا تاثر متوازی طور پر فدویت کا آئینہ دار محسوس ہوتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ مریم نواز بے ساختہ ملاقات میں یہ دونوں طرح کے تاثر دانستہ نہ دینا چاہتی ہوں، مگر تصویر اسی کی آئینہ دار ہے۔یہ تصویر دونوں طرح کے تاثرات کے ساتھ اس سے بھی زیادہ جو گہرا پیغام رکھتی ہے، وہ زیادہ خطرناک ہے۔ مریم نواز صاحبہ شیخ زید بن النہیان سے جب دونوں ہی ہاتھ ملا رہی تھی تو اُن کے ساتھ ملک کے وزیراعظم شہباز شریف ہی نہیں اُن کے چچا بھی کھڑے تھے۔ کیا خاندانی طور پر اس نوع کی ملاقاتوں کو بُرا نہیں سمجھا جاتا؟ یہ وہ سوال ہے جو شریف خاندان سے زیادہ اُن سے پوچھنا چاہئے جو بے نظیر بھٹو کے بستر کی سلوٹوںا ور اُس پر ٹوٹے ہوئے بالوں کی گنتی کر تے رہے ہیں۔ اور الطاف حسین کے عشرت کدوں کی تفصیلات لکھتے رہے ہیں۔اگرچہ یہاں مریم نواز کی سوجھ بوجھ اور ادب کا سوال تو موجود ہی ہے، مگر اس خاندان سے وابستہ مشرقی کہانیوں کی صداقت کا سوال بھی برقرار ہے۔ان سب سے بڑھ کر ایک اور سوال بھی ہے کہ ہماری پولیٹیکل جینیالوجی کیا ہے؟ اور اسلام سے اس کی مناسبت یا مخالفت کا تناظر کیا ہے؟ اس نکتے کی نہاد اگلی تحریر میں زیر بحث لائیں گے۔
٭٭٭