میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
وزیر اعلیٰ پنجاب کے پاس 24 گھنٹے 186 اراکین کی حمایت ہونی چاہیے، لاہور ہائیکورٹ

وزیر اعلیٰ پنجاب کے پاس 24 گھنٹے 186 اراکین کی حمایت ہونی چاہیے، لاہور ہائیکورٹ

جرات ڈیسک
بدھ, ۱۱ جنوری ۲۰۲۳

شیئر کریں

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس عاصم حفیظ  نے کہا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے پاس 24 گھنٹے 186 اراکین کی حمایت ہونی چاہیے، ایسا نہیں ہو سکتا کہ ان کے پاس اکثریت نہ ہو اور وہ ایوان چلائیں۔ جبکہ جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا ہے کہ گورنر، وزیر اعلیٰ کو اعتماد کے ووٹ کا کہہ سکتے ہیں، اراکین اسمبلی کو ہی فیصلہ کرنا ہے کہ کون وزیر اعلیٰ رہ سکتا ہے۔ اگر وزیر اعلیٰ پنجاب اعتماد کا ووٹ لیں تو گورنر پنجاب اپنا نوٹیفکیشن واپس لینے کو تیار ہیں۔ اسمبلی کو خود ہی طے کرنا ہے کہ وزیر اعلیٰ کو اعتماد حاصل ہے کہ نہیں۔ عدالتی فیصلے کو گزرے 20 دن ہو گئے ابھی تک اعتماد کے ووٹ کا کیوں نہیں سوچا جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الہیٰ کے وکیل سینیٹر بیرسٹر سیدعلی ظفر نے گورنر پنجاب انجینئر میاں محمد بلیغ الرحمان کے وکیل کی جانب سے اعتماد کا ووٹ لینے کی پیشکش مسترد کرتے ہوئے عدالت سے معاملہ کا میرٹ پر فیصلہ کرنے کی استدعا کی ہے۔ اس پر عدالت نے بیرسٹر علی ظفر کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے دلائل دیں، ہم درخواست کا میرٹ پر فیصلہ کر دیتے ہیں۔ گورنر پنجاب کی جانب سے وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الہٰی کو اعتماد کا ووٹ نہ لینے پر ڈی نوٹیفائی کرنے کے حوالے سے جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں جسٹس چودھری محمد اقبال، جسٹس طارق سلیم شیخ، جسٹس مزمل اختر شبیر اور جسٹس عاصم حفیظ پرمشتمل پانچ رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ خان، (ن)لیگ کے اراکین پنجاب رانا مشہود احمد خان، خلیل طاہر سندھ اوردیگر (ن) لیگی رہنما بھی عدالت میں موجود تھے۔ جبکہ اٹارنی جنرل آف پاکستان منصور عثمان اعوان ایڈووکیٹ اورایڈووکیٹ جنرل آف پنجاب احمد اویس ایڈووکیٹ کے علاوہ گورنر پنجاب کے وکیل بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ جسٹس عابدعزیز شیخ کا کہنا تھا کہ ہم روزانہ کی بنیاد پر کیس کو سنیں گے۔ جبکہ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان ایڈوکیٹ نے درخواست کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض کر دیا۔ اٹانی جنرل کا کہنا تھا کہ یہ درخواست سرے سے ہی قابل سماعت نہیں ہے، عدالت اسے ناقابل سماعت قرار دے کر مسترد کرے۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ گورنر کو کوئی فیصلہ کرتے ہوے وجوہات دینا ضروری نہیں۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ گورنر کے کہنے پر وزیر اعلیٰ کا اعتماد کا ووٹ لینا ضروری ہے، یہ گورنر کا اختیار ہے کہ وہ وزیر اعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہیں۔ اس پر بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ یہ تحریری طور پر کچھ نہیں لائے۔ اس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے سے تو کسی نے نہیں روکا، تحریر کی کیا ضرورت ہے۔ جسٹس عاصم حفیظ کا کہنا تھا کہ سیاسی کشیدگی جاری ہے، ہم نے اتفاق رائے سے عدم اعتما د کے ووٹ کی ہدایت کی تھی لیکن اس پر عمل نہیں ہوا، آئین پاکستان کے تحت اعتماد کے ووٹ کے لیے کم از کم تین روز ضروری ہیں۔ بیرسٹر سید علی ظفر کا کہنا تھا کہ کل سے اپنے دلائل کا آغاز کر دوں گا۔ اس پر عدالت نے قرار دیا کہ کل سے نہیں ابھی دلائل شروع کریں۔ گورنر پنجاب کے وکیل کا دوران سماعت کہنا تھا کہ گزشتہ سماعت سے آج تک کافی وقت گزر گیا ہے لیکن اعتماد کا ووٹ نہیں لیا گیا، یہ انکی بدنیتی ظاہر کو کرتا ہے، عدالت اعتماد کا ووٹ لینے کا وقت مقرر فرما دے۔ جسٹس عاصم حفیظ کا کہنا تھا کہ درخواست گزار کو یہ لائن کراس کرنا پڑے گی۔ جسٹس عابد عزیز شیخ کا کہنا تھا کہ گورنر کے وکیل نے آفر دی ہے کہ اعتماد کا ووٹ لیں ۔عدالت نے پرویز الہٰی کے وکیل سے استفسار یا کہ آپ بتائیں اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے کتنے دن کا وقت آپ کے لیے مناسب ہو گا۔ جسٹس عابد عزیز شیخ کا کہنا تھا کہ گورنر پنجاب کے وکیل نے کیا آفر دی تھی۔ اس پر گورنر پنجاب کے وکیل کا کہنا تھا کہ ہم نے آفر دی تھی کہ دو سے تین دنوں میں اعتماد کا ووٹ لیں مگر انہوں نے ہماری آفر نظر انداز کر دی۔ وکلاء کے دلائل سننے کے بعد جسٹس عابد عزیز شیخ کا کہنا تھا کہ کہ اگر اتفاق رائے نہیں ہے تو ہم کیس کا فیصلہ میرٹ پر کریں گے۔ بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ ہم اعتماد کا ووٹ لینے کی بجائے قانون کے مطابق فیصلہ چاہتے ہیں۔ بیرسٹر علی ظفرکا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ گورنر پنجاب نے غیر آئینی طور پر وزیر اعلیٰ پنجاب کو ڈی نوٹیفائی کیا اس درخواست پر پہلے فیصلہ ہو جائے۔ جسٹس عابد عزیز شیخ کا کہنا تھا کہ ہم تواس معاملہ پر متفقہ فیصلہ کر چکے تھے کہ آپ اعتماد کا ووٹ لے لیں تو بات ختم لیکن آپ یہ آفر قبول نہیں کر رہے تو پھر ہم اس درخواست کا میرٹ پر فیصلہ کریں گے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ اگر آج بھی وزیر اعلیٰ پنجاب کے وکیل گورنر کی جانب سے دی گئی آفر کو قبول کرتے ہیں تو پھر ہم مناسب وقت کا تعین کر لیتے ہیں جس کے بعد گورنر پنجاب کے حکم پر وزیر اعلیٰ پنجاب اعتماد کا ووٹ لے۔ بیرسٹر علی ظفر کی جانب سے کیس کا فیصلہ میرٹ پر کرنے کی استدعا کے بعد عدالتی حکم پر بیرسٹر علی ظفر نے میرٹ پر دلائل کا آغاز کر دیا۔ بیرسٹر سید علی ظفر کا کہنا تھا کہ گورنر نے اعتماد کے ووٹ کیلیے مناسب وجوہات نہیں دیں، اگر اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے آئینی طریقہ اختیار کیا جاتا ہے تو ہمیں اعتماد کا ووٹ لینے میں کوئی عار نہیں تھی، اگر چھانگا مانگا کی صورتحال بنانی ہے تو پھر اس پر ہمیں اعتراض ہے۔ بیرسٹر علی ظفرکا کہنا تھا کہ پارلیمانی جمہوریت میں پارلیمانی پارٹی اپنے قائد کی ہدایات پر عمل کرتی ہے، لیکن جب وزیر اعلیٰ کا انتخاب ہوا تھا تواس وقت دپٹی اسپیکر نے پارٹی سربراہ کی ہدایات پر انحصار کرتے ہوئے فیصلہ کیا تھا اور پاکستان مسلم لیگ (ق) کے 10 ووٹ مسترد کر دیے گئے تھے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں