جعلی اسناد سے جعلی تقرری اور جعلی ترقی پانے والا محکمۂ صحت کا افسر خلیل بھٹو بے نقاب
شیئر کریں
رپورٹ (نجم انوار) پاکستان میں سب چلتا ہے، یہ وہ فقرہ ہے جو عام طور پر ہر محفل میں سنائی دیتا ہے۔پیسے بنانے سے لے کر پیسے سے سب کچھ خریدنے کا کھیل پاکستانی اداروں کو تباہ کرچکا ہے۔ محکمۂ صحت سندھ اس حوالے سے اپنی مثال آپ ہے۔ جہاں ایک افسر گزشتہ 32برسوں سے جعلسازی کا ایک ایسا جال بُن کر بیٹھا ہے کہ سندھ کے سارے محکمے ہکا بکا اور احتساب کے تمام ادارے چپ چاپ دکھائی دیتے ہیں۔ ایک افسر اپنے جعلسازی کے کھیل میں اس قدر آگے نکل جائے کہ جعلی دستاویزات کی خاطر اپنی ولدیت کی تبدیلی بھی کر لے، یہ ایک ایسا فراڈ ہے کہ شاید ہی کسی کو اس کا یقین آئے۔محکمہ صحت کے ایڈمن اینڈ اکاؤنٹ آفیسر خلیل بھٹونے جعلی دستاویزات میں یہ کام بھی کردکھایا۔ جس کی تفصیلات جتنی دلچسپ ہیں اتنی ہی شرمناک بھی ہیں۔
خلیل بھٹو نے ویکسینیٹر سے اکاؤنٹ افسر بننے کے لیے جعلسازی کی ایک چھلانگ لگائی اور یکم جنوری 1994 ء میں خلاف ضابطہ ڈی ایچ او ویسٹ کے دفتر میں جعلی بی کام کی سند پر اکاؤنٹنٹ اسسٹنٹ تعینات ہوگیا۔
ڈائریکٹر یٹ ہیلتھ سروس کے ایڈمن اینڈ اکاؤنٹ آفیسر خلیل احمد ولد لطف اللہ بھٹو نے میٹرک سائنس حیدرآباد بورڈ سے 1977ء میں 70076 سرٹیفیکٹ نمبر023083بک نمبر 000231سے کیا ۔ ایک دستاویز کے مطابق وہ 23؍اکتوبر 1959 ء میں پیدا ہوا۔اس پس منظر کے ساتھ خلیل بھٹو 16؍نومبر 1985کو بطور ویکسینیٹر بھرتی ہوا۔ اس دوران میں خلیل بھٹو نے ویکسینیٹر سے اکاؤنٹ افسر بننے کے لیے جعلسازی کی ایک چھلانگ لگائی اور یکم جنوری 1994 ء میں خلاف ضابطہ ڈی ایچ او ویسٹ کے دفتر میں جعلی بی کام کی سند پر اکاؤنٹنٹ اسسٹنٹ تعینات ہوگیا۔ واضح رہے کہ خلیل بھٹو نے جعلی بی کام کی جو ڈگری محکمہ جاتی کارروائی کے لیے پیش کی وہ وہ خلیل احمد کے ہم نام کی تھی جس میں ولدیت کے خانے میں’’ سلطان احمد‘‘ لکھا تھا۔جبکہ دیگر دستاویز ات میں اُن کی ولدیت کے خانے میں ’’لطف اللہ بھٹو‘‘ تحریر ہے۔ اس ڈگری میں حیرت انگیز امر یہ ہے کہ اس میں ڈگری ہولڈر نے بی کام 1987 میں کیا ہے جبکہ یہ ڈگری جامعہ کراچی سے 5 ؍ جولائی 2004ء کو جاری ہوئی جبکہ خلیل بھٹو نے اس ڈگری کے نام پر پروموشن دس سال قبل یعنی یکم جنوری 1994ء کو لے لیا تھا ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خلیل احمد نے اپنا پروموشن بغیر دستاویزات کے صرف اپنے اثرورسوخ اور پیسوں کے کھیل پہ لے لیا تھا مگر جب فائل کی ضرورت پوری کرنے کی نوبت آئی تو کسی ہم نام کی سند حاصل کرلی گئی۔ جب اُس ہم نام کی سند کے متعلق تحقیقات کی گئیں تو پتہ چلا کہ جس ہم نام کی ڈگری کا سہارا لے کر خلیل بھٹو نے اپنے کاغذات کا پیٹ بھرا تھا وہ ڈگری بجائے خود بھی جعلی تھی۔
خلیل بھٹو نے جعلی بی کام کی جو ڈگری محکمہ جاتی کارروائی کے لیے پیش کی وہ وہ خلیل احمد کے ہم نام کی تھی جس میں ولدیت کے خانے میں ’’ سلطان احمد‘‘ لکھا تھا۔جبکہ دیگر دستاویز ات میں اُن کی ولدیت کے خانے میں ’’لطف اللہ بھٹو‘‘ تحریر ہے۔
خلیل بھٹو محکمہ صحت میں فراڈ در فراڈ کی ایک کلاسیکل مثال ہے۔ محکمہ صحت کے اس افسر نے مذکورہ جامعہ کراچی کی جعلی سند کو اپنے نام سے جوڑنے کے بعد اگلی پچھلی تمام دستاویزات کو اس کے مطابق بنانے کے لیے مزید فراڈ کرنے شروع کردیے۔ بی کام کی سند کے مطابق موصوف نے اپنے میٹرک اور انٹر کی جعلی اسناد سندھ بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن کراچی سے بنوائیں ۔ جرأت کی تحقیقات کے مطابق مذکورہ اسناد کے حصول میں خلیل بھٹو کی محکمہ صحت کے ہی ایک دوسرے ملازم اور اُن کے دوست اقبال اعوان نے مدد فراہم کی۔ اس میٹرک کی سند میں رول نمبر 757 رجسٹریشن نمبرTSC-342/77-78 ، بک نمبر038417 درج ہے ۔ اس میں بھی حیرت کی بات یہ ہے کہ اس میں میٹرک کا سال 1979 ء لکھا ہواہے جبکہ یہ ڈگری 16؍ ستمبر2004 ء کو جاری ہوئی۔اور اس میں اُن کی تاریخ پیدائش بدل کر 6؍نومبر 1964 ء کردی گئی۔ واضح رہے کہ میٹرک سائنس کی اصلی سند میں اُن کی تاریخ پیدائش 23؍اکتوبر 1959 ء درج ہے۔ اس سند سے دوسری سند تک آتے آتے کرشمہ یہ ہوا کہ خلیل بھٹو کی عمر میں پانچ سال ایک ماہ کی کمی ہوگئی اور اُن کی ولدیت بھی تبدیل ہوگئی۔واضح رہے کہ میٹرک کے سرٹیفکیٹ میں اُن کی تعلیمی قابلیت میٹرک الیکٹریکل ہے جو جامعہ ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ سے الیکٹرک ٹریڈ میں کیا گیا ہے ، اس سرٹیفیکیٹ پر انہیں ویکسینیٹر کی نوکری ہی نہیں دی جاسکتی ۔ وہ صرف سائنس کے تعلیم یافتہ کو ہی دی جاسکتی ہے۔
خلیل احمد نے میٹرک اور بی کام کے درمیان کا خلاء پُر کرنے کے لیے ایک اور جعلی انٹرمیڈیٹ سرٹیفکیٹ’’ سی کام ‘‘سندھ بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن سے حاصل کیا
خلیل بھٹو کے خلاف اُن کے اپنے سگے بھانجے عمران پیرزادہ کی شکایت پر محکمہ صحت نے ابھی تفتیش شروع کی تھی کہ خلیل بھٹو ایک اور سرٹیفیکیٹ 2اپریل 2013 کی تاریخ میں لے آئے جو جامعہ ملیہ ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ کا تھا۔ جس میں اُنہوں نے اپنا رجسٹریشن نمبر اور بک نمبر تبدیل کرالیا۔ محکمہ صحت کے تفتیشی افسر نے جب پرنسپل سے اس بابت دریافت کیا تو اُنہوں نے محکمہ صحت کے سیکشن افسرپی ایم ٹو غلام فاروق منگریو کو 21 ؍ نومبر 2012ء کو خط نمبر200 میں لکھاکہ خلیل احمد بھٹو ولد سلطان احمد نام کا کوئی طالب علم 1977-78 میں رجسٹرڈ نہیں ہوا۔ پرنسپل نے اس کی ایک نقل چیئرمین اینٹی کرپشن کو بھی بھیج دی۔واضح رہے کہ عمران پیرزادہ نے ایک شکایت اینٹی کرپشن کوبھی بھیج رکھی تھی۔مگر اس کے باوجود بھی اینٹی کرپشن نے اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔خلیل احمد بھٹو کی اسناد کا یہ جعلی سفر ابھی تمام نہیں ہوا۔ اُنہوں نے اپنے ان جعلی سرٹیفکیٹ کو سنبھالنے کے لیے میٹرک کے اور بی کام کے درمیان کا خلاء پُر کرنے کے لیے ایک اور جعلی انٹرمیڈیٹ سرٹیفکیٹ’’ سی کام ‘‘سندھ بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن سے حاصل کیا۔جس میں اُنہوں نے خود کو گورنمنٹ کمرشل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ ملیر کا طالب علم ظاہر کیا۔ سی کام کی رجسٹریشن 597/80-81 ،رول نمبر 1266درج ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ یہ سرٹیفیکیٹ بھی 26؍ اکتوبر 2004 کو جاری ہوا ہے۔
تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ ایڈمن اینڈ اکاؤنٹ افسر خلیل بھٹو نے اپنے ہم نام کی جس ڈگری کا سہارا لے کر سرکاری کاغذات کا پیٹ بھرا وہ ڈگری بجائے خود بھی جعلی تھی
خلیل بھٹو اس کے علاوہ ایک اور سرٹیفکیٹ’’ ڈی کام ‘‘ کابھی پیش کرتے ہیں جو کہ سیشن نمبر 1982 ء کا ہے۔ لیکن یہ بھی 21جولائی 2004کو ہی جاری ہوا ہے۔ محکمہ صحت کے انکوائری افسر کی تفتیش کے نتیجے میں پرنسپل گورنمنٹ انسٹی ٹیوٹ آف بزنس اینڈ کمرشل ایجوکیشن ملیر کراچی نے سیکشن افسر پی ایم ٹو کو بتایا کہ خلیل احمد ولد سلطان احمد جو سی کا م اور ڈی کام کا دعویٰ کررہا ہے۔ اس کا کوئی بھی ریکارڈ ہمارے انسٹی ٹیوٹ میں موجود نہیں ہے۔
مگر بات یہاں پر بھی ختم نہیں ہوتی ۔ خلیل احمد ولد سلطان احمد کی ایک اور ماسٹر کی ڈگری ایم اے اکنامکس سیٹ نمبر 92024/2008 جو 28 ؍مئی 2010 ء کو جاری ہوئی،محکمہ صحت کے انکوائری افسر نے جب اس کی تحقیق کا ڈول ڈالا تو کنٹرولر آف ایگزامنیشن اور ڈپٹی رجسٹرار سیٹلمنٹ کے دستخط سے جاری شدہ خط میں بتایا گیا کہ یہ عقیل احمد ولد سلطان علی کی ہے نہ کہ خلیل احمد ولد سلطان احمد کی۔ اس طرح یہ ثابت ہوا کہ خلیل احمد بھٹو نے اپنے ملتے جلتے ناموں کی مناسبت سے ایک اصلی ڈگری کو اپنی ڈگری میں تبدیل کرنے کی جعلسازی کی ۔ اس خط کی نقل 156/2010بھی محکمہ اینٹی کرپشن کو دی گئی مگر اس پر بھی محکمہ میں کوئی حرکت نہیں ہوئی۔محکمۂ صحت کی اس انکوئرای کے بعد خلیل احمد بھٹو کو جعلی ڈگری ، جعلی اپوائنٹمنٹ اور جعلی پروموشن کے الزامات میں معطل کردیا گیا ۔
واضح رہے کہ اینٹی کرپشن نے ایک موقع پر خلیل احمد کی جانب سے عمر اور ولدیت کی جعلسازی کے باعث نادرا کومطلع کرنا ضروری سمجھا۔ مگر نادرا نے بھی اس معاملے میں کوئی کارروائی نہیں کی۔ سندھ بورڈآف ٹیکنیکل ایجوکیشن کراچی نے 12؍فروری 2016کو اینٹی کرپشن کوجواب دیا کہ خلیل احمد کی میٹرک ، سی کام اور ڈی کام سب جعلی ہیں اور منسوخ کیے جاتے ہیں۔شکایت کنندہ عمران پیرزادہ نے محکمۂ صحت اینٹی کرپشن اور ڈائریکٹر جنرل نادرا کوبھی 5؍نومبر2009 ء کو درخواست دی کہ محکمہ صحت کے ملازم خلیل احمد ولد سلطا ن احمد نے اپنی ولدیت اور پیدائش کا سال بدل لیا ہے۔ اُس نے ایک درخواست ( خلیل احمد کے پرانے اور نئے شناختی کارڈ جس میں اصلی ولدیت موجودہے، کے ساتھ) 3؍اپریل 2013 کو دوبارہ ڈی جی نادرا کو تمام شواہد کے ساتھ دی۔ مگر تاحال اس پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ واضح رہے کہ نیب میں بھی محکمہ صحت کے ایک سابق ملازم نے اسپیشل جج اینٹی کرپشن کراچی کی ہدایت پر درخواست دی تھی۔ مگر اس پر بھی مکمل خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ اس ضمن میں خلیل احمد کے اثاثے جو اُس کے ذرائع آمدن سے بڑھ کر ہے۔ اس کی تفصیلات بھی موجود ہے۔یہ اور اس کے علاوہ مزید حقائق جرأت کے ان صفحات پر آئندہ شامل اشاعت کیے جائیں گے۔
یہاں صرف یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ کس طرح ایک افسر اپنی جعلی تعلیمی اسناد اور جعلی تقرری سے محکمہ کے اندر بیٹھ کر پیسے بناتا رہا اور پھر اُن ہی پیسوں سے سب کے منہ بند اور اپنے خلاف تمام کارروائیوں کو رکواتا رہا۔ محکمہ کا محض ایک افسر 32برس تک جعلسازی سے اس پر مسلط رہنے میں کامیاب ہو، اور ابھی تک محکمہ اس کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرپا رہا ہو تو پھر ملک میں احتساب کے حوالے سے جاری عمل پر کتنا یقین کیا جاسکتا ہے، اس کا جواب آپ خود ہی ڈھونڈلیں۔