میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بلوچستان ،حکومتیں اور محلاتی سازشیں

بلوچستان ،حکومتیں اور محلاتی سازشیں

منتظم
جمعرات, ۱۱ جنوری ۲۰۱۸

شیئر کریں

بلوچستانکی سیاست بھی گہرے تضادات ،انحرافات اور کش و بگیر کی حامل رہی ہے ۔ کشمکش سیاسی جماعتوں ، سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان رہی ہے اور یہ کشمکش سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کے مابین بھی عیاں ہے ۔ان مناظر کا آج کے سیاسی ماحول میں واضح طور پرمشاہدہ کیا جا سکتا ہے ۔ہم لکھنا وزیر اعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر چاہ رہے ہیں، اور اس ذیل میں اس تحریک سے مشابہہ ماضی کی جھلک بھی دکھانے کی اختصارسے کوشش کریں گے۔بلوچستان کی سیاست نے بڑے گرم و سرد ادوار دیکھے ہیں ۔قیام پاکستان کے ساتھ ہی خان آف قلات میر احمد یار خان کے چھوٹے بھائی شہزادہ آغا عبد الکریم نے الحاق کے معاہدے کو جبری قرار د یا۔اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ افغانستان کی طرف چلے گئے ۔ افغان حکومت نے اسے علیحدگی اور مسلح مزاحمت کی سوچ کے ساتھ قبول نہ کیا۔وہ واپس آئے، گرفتار ہوئے ،سزا ہوئی اور پھر ملک کی پارلیمانی سیاست میں بھی حصہ لیتے رہے ہیں ۔پے درپے علیحدگی کی دوسری ، تیسری اور چوتھی تحریک اُٹھی۔ اور دو ہزار دو کے بعد ہم پانچویں مسلح مزاحمت دیکھ رہے ہیں ۔علیحدگی کے مطالبے اور مسلح مزاحمت کی حمایت کوئی بھی پاکستانی نہیں کر سکتا ۔لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ ان مزاحمتوں کو مخصوص رویوں کے باعث جواز بھی فراہم کیا گیا ہے ۔بہر حال صوبے میں سیاسی عمل ترک ہوا ہے اور نہ ہی پارلیمانی سیاست سے کنارہ کشی ہوئی ہے ۔ مسلح جتھوں کی پوری کوشش بلوچ سیاستدانوں ،سیاسی جماعتوں اور عوام کو پارلیمانی سیاسی عمل سے دور ر کھنے کی رہی ہے ۔جس میں انہیں کامیابی نہیں مل سکی ہے ۔کئی بلوچ شخصیات اس کا خمیازہ بھی بھگت چکے ہیں ۔

نیشنل پارٹی بالخصوص، بلوچ مسلح گروہوں کے نشانے پر ہے۔ ایسے سیاستدانوں اور شخصیات کی بلوچستان میں کمی نہیں ہے کہ جنہوں نے مختلف ادوار و اوقات میں اسٹیبلشمنٹ کی بجا آوری میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی ہو۔یعنی اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر سیاسی ترجیحات و اہداف طے کیے ہیں ۔ اسٹیبلشمنٹ مخالف پہچان رکھنے والی جماعتیں بھی ان سے بغلگیر ہوتی رہی ہیں۔کبھی بڑی قومی جماعتوں کے ہم رکاب تو کبھی منشا ء پوری نہ ہونے پر راہیں جدا کی ہیں ۔ یقیناًجمہور کے اقتدار کی حقیقی جدوجہد بھی ہوئی ہے ۔ فوجی طالع آزماؤں کی حکومتوں کا حصہ بھی بنے ہیں ۔چار فوجی آمریتوں نے طویل عرصہ اقتدار پر قابض ہو کر نظام جمہوریت کو یرغمال بنائے رکھا۔ اور جمہوریت ، شفافیت اور احتساب کے عنوان سے اپنی سوچ کو ملک اور عوام پر مسلط کیے رکھا ہے ۔حقیقی سیاسی قیادت کے بجائے ڈمی قیادت کی پذیرائی کی گئی اور انہیں عوام کے نمائندوں کے طور پر متعارف کرایا گیا۔ ان حکومتوں کے خلاف سیاسی مقاو مت ہوئی ۔عام انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومتوں نے بھی سیاسی اور حکومتی اداروں کو کمزور کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ جس معاشرے میں انصاف ہو ،سیاسی و انتظامی ادارے مضبوط ہوں وہاں جمہوریت کو کوئی خواہش کے باوجود پٹڑی سے اُتار نہیں سکتا۔ سیاسی اداروں کی کمزوری، انتظامیہ کا بے راہ ہونا اور بد عنوانی سے نظام جمہوریت کی بیخ کنی ہی ہوتی ہے ۔یعنی سیاسی کھینچا تانی کسی اورکے لیے راہ ہموار کرتی ہے ۔سیاستدان اخلاقی طور پر ضعیف ہوں تو اُن کے فیصلے درست فورم کے بجائے کہیں اور ہوتے ہیں ۔ بد عنوانی اِن کا ضمیر غلام اور مردہ بنا کر کٹھ پتلی بنا دیتا ہے ۔ان کی رقابتیں انہیں لے ڈوبتی ہیں ۔ایسی ہی فضاء میں ملک کا اقتدار جنرل ایوب خان نے قبضے میں لیا تھا ، جاتے جاتے جنرل یحییٰ خان کو اقتدار وراثت میں دے دیا۔
بلوچستان میں۔07 دسمبر 1970 ء کے عام انتخابات میں نیشنل عوامی پارٹی (نیپ ) اور جمعیت علماء اسلام نے مینڈیٹ حاصل کیا۔ بزرگ قوم پرست سیاستدان سردار عطاء اللہ خان مینگل وزیر اعلیٰ بنے ۔ ان کی حکومت نو ماہ سے زائد عرصہ چلنے نہیں دی گئی ۔ سردار عطاء اللہ مینگل کی قیادت میں مخلوط حکومت دو مئی 1972ء سے 13فروری 1973ء تک قائم رہی۔ مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور یہ شب خون اسی جمہوری ماحول میں مارا گیا۔ دو ہفتے کے تعطل کے بعد جام آف لسبیلہ غلام قادر وزیر اعلیٰ بنائے گئے ۔ عطاء اللہ مینگل پر وار کے ردعمل میں مولانا مفتی محمود جو کہ صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا) کے وزیر اعلیٰ تھے نے استعفیٰ دے دیا۔ ستر کی دہائی میں شروع ہونے والی مسلح مزاحمت جسے افغان حکومت نے تقویت دی ، کی وجوہات میں سے ایک وجہ نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کی حکومت کا گرانا بھی تھی۔ 1977ء کے عام انتخابات کے بعد بننے والی اسمبلیوں کی عمر انتہائی کم تھی ظاہر ہے بلوچستان اُس سیاسی بحران سے الگ تھلگ نہ تھا۔پیپلز پارٹی پر انتخابات میں دھاندلی کا الزام تھا ۔جس کے خلاف قومی اتحاد کی تحریک چلی ۔ عین ممکن تھا کہ سیاستدان کسی نقطے پر تیار و آمادہ ہو جاتے مگر جنرل ضیاء الحق نے اقتدار ہاتھ میں لے کر سیاستدانوں کو بناؤ کا موقع ہی نہ دیا۔ جنرل ضیاء الحق نے نوے دن میں انتخابات کا وعدہ کیا اور خود 7اگست 1988تک سیاہ و سفید کے مالک بنے رہے ۔ سیاستدانوں نے ضیاء کے سامنے پہلے احتساب اور پھر انتخاب کا مطالبہ رکھ دیا۔ یقینی طور پر جنرل ضیاء الحق کیلیے یہ مطالبہ اپنے اقتدار کو طول دینے کا ایک بہترین موقع تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو گرفتار ہوئے اور سولی پر چڑھا دئیے گئے ۔

1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں نئے چہرے سیاسی اُفق پر نمودار ہوئے ۔ بلوچستان میں بھی کئی نئے چہرے سامنے آگئے ۔ ان میں ایک شخص سعید احمد ہاشمی بھی متعارف ہوئے۔ بڑے تاجر ہیں اور 1997ء تک ہر الیکشن میں صوبائی نشست پر کامیاب ہوتے رہے ۔ یہ شخص اب تک سیاسی جوڑ توڑ میں شریک رہتے ہیں ۔نواب ثناء اللہ خان زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی مجلسوں میں شریک رہے ۔بلکہ کئی اجلاس کوئٹہ چھاؤنی میں واقع ان کی رہائش گاہ پر ہوئے ہیں ۔اس شخص کی اہلیہ ڈاکٹر رقیہ ہاشمی 2008,2002اور 2013کی اسمبلی میں ق لیگ کی ٹکٹ پر خواتین کی مخصوص نشست پر منتخب ہوتی آرہی ہیں ۔البتہ سعید احمد ہاشمی پھر کامیاب نہ ہو سکے ۔ان کی یاری نواب ذوالفقار علی مگسی اور شیخ جعفر خان مندوخیل سے بڑی پکی ہے ۔شیخ جعفر خان مندوخیل اور نواب ذوالفقار علی مگسی سلجھے اور سنجیدہ سیاستدان ہیں ۔مدتِ طویل کے بعد16نومبر 1988ء میں عام انتخابات پورے ملک میں بڑے زور و شور اور اہتمام سے منعقد ہوئے ۔ مرکز میں حکومت پیپلز پارٹی کی بنی ، بینظیر وزیر اعظم پاکستان منتخب ہوئیں۔ اسی جم و جوش سے بلوچستان کی سیاسی جماعتیں بھی انتخابی عمل میں شریک ہوئیں۔ کئی شخصیات نے آزاد حیثیت سے انتخاب لڑا۔ ان انتخابات میں میر ظفر اللہ خان جمالی اور نواب محمد اکبر خان بگٹی بھی کامیاب ہوئے ۔کل 44ارکان پر مشتمل اس اسمبلی کا اجلاس 2دسمبر 1988کو گورنر ، جنرل موسیٰ نے طلب کر لیا۔اجلاس میں وزیر اعلیٰ بلوچستان کا انتخاب ہوا۔ میر ظفر اللہ جمالی کے حق میں بائیس ووٹ آئے اور خلاف میں بھی بائیس ووٹ پڑے۔ چنانچہ اسپیکر نواب محمد غوث باروزئی نے اپنا ووٹ ظفر اللہ جمالی کے حق میں استعمال کیا۔ اس طرح ظفر اللہ جمالی وزیر اعلیٰ منتخب ہو گئے اور عہدے کا حلف بھی لے لیا۔ چونکہ وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی ، بے نظیر بھٹو وزیر اعظم تھیں۔سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی بلوچستان میں’’ ان بن ‘‘کرا کر دوبارہ انتخابات کا ارادہ رکھتی تھی تاکہ حکومتی مشینری کے ذریعے اپنے منظور نظر امیدوار کامیاب کرائے۔

اُدھر ظفر اللہ جمالی نے اعتماد کا ووٹ نہیں لیا تھا ۔چنانچہ اس مبینہ ہدایت پر ظفر اللہ جمالی نے چودہ اور پندرہ دسمبر 1988ء کی شب گورنر کو اسمبلی کی منسوخی کا کہا۔ جس پر آئین کی شق ( 1) 112 کے تحت بلوچستان اسمبلی توڑ دی گئی ۔یوں صوبے میں سیاسی بحران پیدا ہو گیا ۔گویا جمہوریت کے سفر کے آغاز ہی میں محلاتی سازشوں اور رکاوٹوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ظفر اللہ جمالی نے اسمبلی توڑنے کا کوئی جواز بھی پیش نہیں کیا۔ جمہور ی وطن پارٹی کے محمد انور دُرانی ایڈوکیٹ (مرحوم) نے اس اقدام کے خلاف بلوچستان ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر دی ۔19جنوری 1989ء کو بلوچستان ہائی کورٹ کے فل بینچ کے روبرو دائر درخواست پر بحث کیلیے معروف قانون دان ایس ایم ظفر پیش ہوئے ۔ جو دلائل دئیے وہ یہ تھے کہ ظفر اللہ جمالی نے اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ نہیں لیا تھا اس لیے وہ اسمبلی برخاست نہیں کر سکتے ۔ اور گورنر پر بھی اُن کی سفارش لازم نہیں آتی تھی کہ وہ اسمبلی توڑ دیتے بلوچستان ہائی کورٹ نے 23جنوری 1989ء کو اپنے ایک مختصر حکم کے ذریعے بلوچستان اسمبلی بحال کر دی گئی ۔ اس طرح نواب اکبر خان بگٹی عدالت میں جیت گئے اور بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بن گئے ۔یہ اسمبلی 6نومبر1988ء سے 17اگست 1990تک قائم رہی ۔صدر غلام اسحاق خان نے 6اگست 1990ء کو آئین کی دفعہ 58ٹوبی کا استعمال کرتے ہوئے اسمبلیاں توڑ کرعا م انتخابات کا اعلان کر دیا۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ میر ظفر اللہ جمالی سازش کا حصہ بن گئے تھے ۔پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ دونوں جماعتوں کا دامن محلاتی سازشوں سے پاک نہیں ہے ۔ مختلف ادوار میں ملک و عوام کی بجائے جماعتی مفادات کو مقدم رکھا گیا ہے ۔ (جاری ہے)


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں