کیا مسلم لیگ (ن) بلوچستان میں اپنا وزیر اعلٰی دوبارہ منتخب کرا سکتی ہے ؟
شیئر کریں
بالآخر نواب ثناء اللہ زہری کو بلوچستان کی وزارت عالیہ سے استعفا دیناپڑا، کیونکہ جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے تھے۔ مسلم لیگ (ن) کے ایوان میں 21 ارکان ہیں، ان میں سے چند ایک کے منحرف یا باغی ہونے سے فرق نہیں پڑتا تھا لیکن ایسے محسوس ہوتا ہے کہ اب کی بار مسلم لیگ (ن) کے ارکان بھی وہی کچھ کر رہے تھے جو 2008ء کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ (ق) کے ارکان اسمبلی نے کیا تھا، اس وقت صوبے کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ق) ہی تھی لیکن وزیراعلیٰ پیپلز پارٹی کے اسلم رئیسانی بن گئے، جن کی جماعت دوسرے نمبر پر تھی، اس لیے کہ مسلم لیگ (ق) کے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ارکان نے مرکز سے بغاوت کرکے ’’اپنے فیصلے خود‘‘ کرنے کا اعلان کر دیا تھا یہی کچھ اب مسلم لیگ (ن) کے ارکان کر رہے ہیں، انہیں شکایت ہے کہ مسلم لیگ (ن) پاکستان کی نہیں، پنجاب کی سیاست کر رہی ہے۔ معلوم نہیں میر جان جمالی پر یہ انکشاف اب کیوں ہوا جب اسمبلی کی مدت ساڑھے چار ماہ رہ گئی ہے۔ ایسے میں اگر نواب ثناء اللہ زہری استعفا نہ دیتے تو کیا کرتے، کیونکہ وہ کہہ سکتے ہیں۔
میں اگر سوختہ ساماں ہوں تو یہ روز سیاہ
خود دکھایا ہے مرے گھر کے چراغوں نے مجھے
بلوچستان اسمبلی کا ایوان 65 ارکان پر مشتمل ہے، اس میں اکثریت 33 ارکان سے بنتی ہے، اس لیے اگر عدم اعتماد کی قرارداد پر ووٹنگ کے وقت سارے کے سارے ارکان بھی حاضر ہوتے تو بھی 33 ارکان کی حمایت درکار تھی، جبکہ قرارداد کے محرکین اور مسلم لیگ (ن) کے منحرفین کا دعویٰ تھا کہ ان کے ساتھ 40 ارکان ہیں، ان میں زیادہ تر تو مسلم لیگ (ن) ہی کے ارکان ہیں۔ گویا یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر پارٹی کے اندر بغاوت نہ ہوتی تو نواب ثناء اللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور کرانا آسان نہ ہوتا، کیونکہ انہیں پختونخوا میپ کے 14 ارکان اور نیشنل پارٹی کے 11 ارکان کی حمایت بھی حاصل تھی، جو مل کر 25 بن جاتے ہیں۔
ایسی صورت میں اگر مسلم لیگ (ن) کے 7 ارکان بھی ان کے ساتھ کھڑے رہ جاتے تو بھی انہیں ہٹانا آسان نہ ہوتا، لیکن ایسے لگتا ہے انہوں نے تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنے کی بجائے مستعفی ہونے کو ترجیح دی۔ شاید انہیں اطلاع مل چکی ہو کہ ان کی پارٹی کے جو ارکان باغی ہوئے ہیں، وہ بدلے ہوئے حالات میں ان کے ساتھ کسی صورت نہیں آئیں گے، کیونکہ نئے دوستوں نے ان سے کچھ وعدے وعید لیے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے دورے کے دوران مسلم لیگ (ن) کے منحرفین ان سے ملنے نہیں آئے یا یوں سمجھ لیں کہ انہوں نے اپنی جماعت کے وزیراعظم سے آنکھیں چار کرنے سے گریز کیا، اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ان کے نئے دوستوں نے ہی انہیں اس معاملے پر کاربند رہنے کے لیے کہا تھا۔ عدم اعتماد کی قرارداد سے پہلے نواب ثناء اللہ زہری نے استعفا دے کر اب اسمبلی کو نیا قائد ایوان منتخب کرنے کی راہ ہموار کر دی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا مسلم لیگ (ن) اکثریت میں ہونے کے باوجود ایسا وزیراعلیٰ لانے میں کامیاب ہوسکتی ہے جو پارٹی قیادت کا وفادار ہو۔میر جان جمالی تو کہہ چکے ہیں کہ مرکز کے حکمران پنجاب کی سیاست کر رہے ہیں، انہیں ہمارے مسائل سے دلچسپی نہیں، اس لیے اب ہم اپنے فیصلے خود کریں گے۔ ایسے میں یہ سوال اہم ہے کہ کیا مسلم لیگ (ن) اپنا وزیراعلیٰ بھی منتخب کراسکتی ہے یا نہیں؟ اگر مسلم لیگیوں کی اکثریت اپنا فیصلہ نہیں کرتی تو قائد ایوان کے فیصلے کے وقت پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے پر ارکان اسمبلی کی نااہلی کا امکان ہوتا لیکن لگتا ہے اکثریت کا فیصلہ ہی ہائی کمان کے خلاف ہوگا، ایسے میں پارٹی صدر منحرفین کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرسکتا۔ سابق وزیر داخلہ سرفراز بگٹی، جنہوں نے نواب ثناء اللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی راہ ہموار کی تھی، اب وزارت علیا کے امیدوار ہیں، ان کا خیال ہے کہ وہ اپنی پارٹی کی حمایت سے یہ عہدہ حاصل کرسکتے ہیں۔
پارٹی کے اندر دوسرے امیدوار بھی ہیں، اگرچہ ان تمام کا تعلق اپنی جماعت کے ساتھ ایک کچے دھاگے سے بندھا ہوا ہے۔ تاہم جس کسی کو بھی یہ یقین ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حمایت اسے وزیراعلیٰ بنا سکتی ہے، وہ ضرور پارٹی کا دم بھرے گا۔ اس لیے سرفراز بگٹی اگر یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنی جماعت کے ٹکٹ پر انتخاب لڑیں گے تو کچھ غلط نہیں کہہ رہے، لیکن اگر انہیں نظر آیا کہ پارٹی نے اپنا وزن کسی دوسرے امیدوار کے پلڑے میں ڈال دیا ہے اور وہ کسی دوسری جماعت کی حمایت سے وزیراعلیٰ بن سکتے ہیں تو وہ اپنی وفاداریاں بدلنے میں ایک منٹ کی دیر نہیں لگائیں گے۔ ایک سوال اور بھی اہم ہے کہ نیا وزیراعلیٰ جو بھی منتخب ہو، کیا وہ اس عہدے کی باقی ماندہ مدت پوری کرے گا یا قبل از وقت اسمبلی توڑ دے گا؟ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ وزیراعلیٰ کون ہوتا ہے اور وہ مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت کی پالیسی پر کس حد تک عمل کرتا ہے۔ بلوچستان کے جو حالات ہیں، ان کا تقاضا ہے کہ بلوچ سیاستدان اور ارکان اسمبلی سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔ اسمبلی کا اجلاس جونہی ختم ہوا، اسمبلی ہال سے تھوڑے سے فاصلے پر دھماکہ ہوگیا، جس میں پولیس اہلکاروں سمیت سات افراد شہید ہوگئے۔ بلوچستان میں ایسے خودکش دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ وقتاً فوقتاً ہو رہی ہے، جن کے خاتمے کے لیے بلوچستان کی نئی حکومت کو بہتر حکمت عملی طے کرنا ہوگی۔
(تجزیہ )