ن لیگ نے عزت بچالی
شیئر کریں
پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ نواب ثنا اللہ زہری نے اپنے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش کیے جانے سے کچھ دیر قبل صوبے کے گورنر سے ملاقات میں انھیں اپنا استعفیٰ پیش کرکے ن لیگ اور اپنی عزت بچالی ہے۔چیف سیکریٹری بلوچستان کی جانب سے جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق گورنر بلوچستان نے یہ استعفیٰ منظور کر لیا ، جس کے بعد کابینہ بھی تحلیل ہو گئی ہے۔استعفے کے بعد ایک بیان میں ثنا اللہ زہری نے کہا ہے کہ ان کے چند ساتھیوں نے ان پر عدم اعتماد کا اظہار کیا جس کے بعد انھوں نے ان کے تحفظات ہر ممکن دور کر نے کی کوشش کی لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ان کا کہنا تھا کہ انھیں محسوس ہو رہا ہے کہ اراکین اسمبلی کی کافی تعداد ان کی قیادت سے مطمئن نہیں اس لیے وہ ان پر زبردستی مسلط نہیں ہونا چاہتے اور وزارت اعلیٰ کے عہدے سے مستعفی ہورہے ہیں۔انھوں نے آخر میں اس خواہش کا اظہار کیا کہ صوبے میں سیاسی عمل جاری رہے اور صوبہ آگے بڑھے۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد 14 اراکین کے دستخطوں کے ساتھ2جنوری کو اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کرائی گئی تھی اس تحریک عدم اعتماد پر ایک آزاد رکن اسمبلی کے علاوہ جن جماعتوں کے اراکین کے دستخط تھے ان میں ق لیگ، جمعیت العلمائے اسلام، بلوچستان نیشنل پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، مجلس وحدت المسلمین اور نیشنل پارٹی شامل ہیں۔ اگرچہ تحریک عدم اعتماد پر وزیر اعلیٰ کی اپنی جماعت اور مخلوط حکومت میں شامل سب سے بڑی جماعت ن لیگ کے اراکین کے دستخط نہیں تھے تاہم تحریک جمع ہونے کے بعد وزیراعلیٰ زہری کی کابینہ کے 6 ارکان مستعفی ہو گئے تھے۔کابینہ چھوڑنے والوں میں سے 5 کا تعلق ن لیگ جبکہ ایک کا تعلق ق لیگ سے تھا۔نواب ثنا اللہ زہری کی مشکلات کو کم کرنے کے لیے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھی پیر کو کوئٹہ پہنچے تھے تاہم ن لیگ کے منحرف اراکین نے ان کی سربراہی میں ہونے اجلاس میں بھی شرکتکرنے سے انکار کردیاتھا۔وزیر اعظم کی صدارت میں گورنر ہاؤس میں جو اجلاس ہوا اس میں ن لیگ کے 21 اراکین میں سے وزیر اعلیٰ سمیت صرف 7 اراکین شریک ہوئے جبکہ 14اراکین غائب تھے۔اس صورتحال میں وزیراعلیٰ زہری نے اپنی اتحادی جماعت پشتونخواہ میپ کے سربراہ محمود خان اچکزئی سے ملاقات کے بعد مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا۔
یہاں سوال یہ پیداہوتا ہے کہ نواب ثنا اللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی شکل میں اچانک یہ بحران کیوں پیدا ہو؟۔ حزب اختلاف کی بجائے خود ان کی اپنی پارٹی ن لیگ اور ق لیگ کے اراکین اس میں کیوں پیش پیش رہے۔ اس کے بارے میں مختلف آرا ہیں۔ن لیگ میں وزیر اعلیٰ کے حامی مبصرین تحریک عدم اعتماد کو ایک سازش قرار دینے کی کوشش کررہے ہیں،جبکہ ثنا اللہ زہری کے مخالفین اس کا ذمہ دار خود ان کو ٹھہراتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ثنا اللہ زہری نے اپنے دور میں سب سے زیادہ اہمیت مخلوط حکومت میں شامل جماعت پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کو دی۔کابینہ سے مستعفی ہونے والے ن لیگ کے رکن پرنس احمد علی کہتے ہیں کہ پشتونخوا میپ کے اراکین کے حلقوں کے مسائل حل ہوتے گئے جبکہ ن لیگ کے اراکین کے حلقوں کے مسائل بڑھتے گئے۔خیال رہے کہ بلوچستان میں محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات کے علاوہ بعض دیگر اہم محکمے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے پاس تھے۔منحرف اراکین کے مطابق حکومت سے سیاسی حوالے سے سب سے زیادہ فوائد پشتونخوا میپ نے اٹھائے اور ترقیاتی منصوبوں کا ایک بڑا حصہ اپنی پارٹی کے اراکین کے حلقوں میں منتقل کیا۔اس کے علاوہ ثنا اللہ زہری پر یہ بھی الزام عائد کیا گیا کہ کئی منافع بخش محکمے اپنے پاس رکھنے کے علاوہ وہ زیادہ تر وہ بلوچستان سے باہر رہے۔تاہم پشتونخوا میپ، ن لیگ میں سابق وزیر اعلیٰ کے حامی زیادہ تر مبصرین ٹائمنگز کے حوالے سے تحریک عدم اعتماد کو ایک سازش قرار دیتے رہے۔پشتونخوا میپ کے صوبائی صدر عثمان کاکڑ کا کہنا ہے کہ ’اس کا مقصد سینیٹ کے انتخابات کا راستہ روکنا اور ملک سے جمہوری بساط کو لپیٹنے کے لیے راستہ ہموار کرنا ہے۔‘وہ کہتے ہیں کہ بحران پیدا کر کے ملک میں ٹیکنوکریٹس کی حکومت لانے کی سازش کی جارہی ہے۔ نواب ثنا اللہ زہری کا کہنا تھا کہ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران بلوچستان کے سیاسی حالات بہت کشیدہ ہوگئے تھے جس میں ان کے ساتھیوں ان پر عدم اعتماد کا اظہار کر رہے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے ساتھیوں کے تحفظات دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی اور مسلم لیگ (ن) کی مرکزی قیادت اور وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی بھی کوئٹہ تشریف لائے تاہم اس معاملے میں مثبت پیش رفت نہیں ہوسکی تھی۔نواب ثنا اللہ زہری کا کہنا تھا کہ انہوں نے گزشتہ 2 برس سے نہ صرف حکومتی اراکین کو اپنے ساتھ رکھنے کی کوشش کی بلکہ اپوزیشن جماعتوں کو بھی اپنے ساتھ رکھا۔انہوں نے کہا کہ اکثر تقاریب میں ان کے ساتھ صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بھی ان کے ساتھ ہوا کرتے تھے جس پر میڈیا کو حیرانی ہوا کرتی تھی۔انہوں نے بتایا کہ سیاسی عمل کے ساتھ ساتھ انہوں نے کوشش کی کہ صوبے میں حکومتی عمل داری قائم رہے اور یہاں امن و امان قائم ہو ۔ نواب ثنا اللہ زہری نے دعویٰ کیا کہ اللہ کا شکر ہے کہ بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال بہت بہتر ہے ۔انھوں نے اعتراف کیا کہ ’مخلوط حکومت چلانا اتنا آسان نہیں ہوتا، حکمراں جماعت نے اکثریت میں ہونے کے باوجود اپوزیشن جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کی اور اس کے لیے صوبے میں اپنی اتحادی جماعتوں کے بھی مشکور ہیں۔‘انھوں نے اعتراف کیا کہ انہیں طاقت اور اقتدار اس اسمبلی نے دیا اور وہ محسوس کر رہے ہیں کہ اکارنِ اسمبلی کی بڑی تعداد ان کی قیادت سے مطمئن نہیں ہے اسی لیے وہ وزارتِ اعلیٰ کے منصب پر زبر دستی فائز نہیں رہنا چاہتے۔ وہ نہیں چاہتے کہ ان کی وجہ سے صوبے کی سیاسی پر کوئی منفی اثر پڑے اس لیے وہ اپنے عہدے سے استعفیٰ دے رہے ہیں۔دوسری جانب وزیر اعلیٰ ثنا اللہ زہری کے مخالف رہنما سرفراز بگٹی نے ’نواب ثنااللہ زہری کے استعفے کوجمہوری روایات کے عین مطابق قرار دیتئے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا اور، ان کی آئندہ کی سیاسی زندگی کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کرتے ہوئے خواہش ظاہر کی کہ وہ بلوچستان کے پلیٹ فارم سے اپنی سیاسی جدوجہد جاری رکھیں۔‘انہوں نے یہ بھی وضاحت کی کہ ’تحریک عدم اعتماد جمہوری عمل ہے، ثنااللہ زہری سے کوئی ذاتی عناد نہیں، اور ان کے ساتھ عزت و احترام کا رشتہ آئندہ بھی قائم رہے گا۔‘صوبے کے اگلے وزیر اعلیٰ سے متعلق سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ ’ضروری نہیں نیا وزیر اعلیٰ (ن) لیگ سے ہی ہو۔
نواب ثنااللہ زہری نے آخری وقت تک مخالفین کامقابلہ کرنے کی کوشش کی اور اپنی کوششوں کوتقویت پہنچانے کے لیے نہ صرف وزیرا عظم شاہد خاقان عباسی سے مدد طلب کی بلکہ نواز شریف کو بھی اپنے اراکین اسمبلی پر اثر رسوخ استعمال کرکے مخالفت سے دستبردار کرانے کی اپیل کی اطلاعات کے مطابق نواز شریف نے بھی ثنااللہ زہری کی حکومت بچانے کے لیے آخری دم تک پس پردہ سرگرمیاں اورکوششیں جاری رکھیں لیکن ثنا اللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے والے مسلم لیگ (ن) کے ناراض قانون سازوں کو منانے کے لیے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا دورہ کوئٹہ کی ناکامی اوربلوچستان اسمبلی کے ن لیگ سے تعلق رکھنے والے اراکین کی جانب سے ان سے ملاقات کرنے سے بھی انکار کے بعد وزیراعظم کو احساس ہوگیا کہ اب تیر کمان سے نکل چکاہے اس لیے انھوں نے بھی ثنا اللہ زہری کو استعفیٰ دے کر عزت بچانے کی کوشش کا مشورہ دیا تھا ۔ پی کے میپ کے رکن صوبائی اسمبلی نصراللہ زہری نیصحافیوں کو بتادیا تھا کہ 21 سے میں 8 مسلم لیگ (ن) کے حمایتی اراکین گورنر ہاؤس میں منعقد عشایئے میں شریک ہوئے تھے۔ تحریک عدم اعتماد مسلم لیگ (ق) کے رکن بلوچستان اسمبلی اور سابق ڈپٹی اسپیکر عبدالقدوس بزنجو نے جمع کرائی تھی۔اس تحریک کو جمع کرانے کی وجوہات پر اظہار خیال کرتے ہوئے عبدالقدوس بزنجو کا کہنا تھا کہ ملازمتوں میں مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (ق) کے ارکان کو نظر انداز کیا گیا ہے اس کے علاوہ ترقیاتی منصوبوں میں بھی ان 14 ارکان کو نظر انداز کیا گیا۔
اس تمامتر صورت حال کے باوجود یہ سوال اپنی جگہ جواب طلب ہے کہ نواب ثنا اللہ زہری کی جانب سے اراکین اسمبلی کے ساتھ مبینہ زیادتیاں نئی نہیں تھیں اور ارکان اسمبلی گزشتہ 2 سال سے زیادہ عرصے سے اسے برداشت کررہے تھے پھر عام انتخابات سے صرف 6 ماہ قبل ایک منتخب وزیرِ اعلیٰ کو تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے ہٹانے کی کوشش کیوں کی گئی؟فی الوقت کوئٹہ میں اس حوالے سے دو اہم توجیہات پیش کی جا رہی ہیں۔ ایک گروپ اس صورت حال کو اس نادیدہ طاقت کی کارستانی قرار دے کر نواز شریف کے لیے ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش کررہاہے جو نواز شریف کو ہر جگہ سے بے دخل کرنے پر تلی ہوئی ہے، تاکہ نااہل کیے گئے وزیرِ اعظم کو اگلے چند ہفتوں میں ہونے والے سینیٹ کے انتخابات میں اکثریت نہ مل سکے۔ مارچ میں50فی صد سینیٹر اپنا 6 سالہ دور مکمل کر کے ریٹائر ہو جائیں گے اور ان کے الیکٹورل کالج ان کی نشستیں پر کریں گے۔ فی الوقت بلوچستان کی جو 11 نشستیں (سات جنرل اور دو دو نشستیں خواتین اور ٹیکنوکریٹس کی) خالی ہوں گی، ان میں سے توقع ہے کہ مسلم لیگ ن اور اتحادی کم از کم 7 نشستیں جیت لیں گے۔اس کو اگر مسلم لیگ ن کی پنجاب اور وفاقی دارالحکومت سے متوقع نشستوں کے ساتھ ملایا جائے تو اس سے حکمران ن لیگ اور اس کے وفادار اتحادیوں کو سینیٹ میں سادہ اکثریتحاصل ہوجائے گی ۔ یہ وہ کامیابی ہوگی جو مسلم لیگ ن کو اپنے اب تک کے دورِ حکومت میں نہیں مل پائی ہے۔اب ثنااللہ زہری کے استعفے کے بعدمسلم لیگ ن کو بلوچستان سے متوقع کامیابی ملنے کاامکان بہت کم ہے جس کے نتیجے میں سینیٹ میں اکثریت حاصل کرنے کا ان کا خواب بھی تشنہ رہ سکتاہے۔
اب جبکہ ثنا اللہ زہری کی قسمت کافیصلہ ہوچکاہے ، دیکھنا یہ ہے کہ نئے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لیے مخالف پارٹیاں کیا لائحہ عمل اختیار کرتی ہیں اور مخالفین کے بھرپور اتحاد کی وجہ سے شکست اور شرمندگی سے دوچار ہونے والے ثنااللہ زہری اوران کے ساتھی نئی حکومت کے ساتھ کیا رویہ اختیار کرتے ہیں۔بلوچستان میں نئی حکومت کاقیام موجودہ حکومت کے لیے بھی ایک بڑی آزمائش ہوگا کیونکہ اس سے ن لیگی ارکان کی سوچ کااندازہ لگانا آسان ہوجائے گا اور حکمرانوں کو بھی یہ پتہ چل جائے گا کہ اب وہ کتنے پانی میں ہیں اور انھیں اپنی عزت بچانے کے لیے اپنی پالیسیوں میں کس طرح کی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔