میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
حضرت محمدرسول اللہا کی ولادت با سعادت

حضرت محمدرسول اللہا کی ولادت با سعادت

منتظم
هفته, ۱۰ دسمبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

mufti-waqas-rafi

مفتی محمد وقاص رفیع
آج سے ہزاروں سال قبل کسی زمانہ میں قبیلہ بنو جرہم کے کچھ لوگ عرب کے مشہور شہر ”مکہ مکرمہ“ میں آباد ہوگئے تھے، جن کی اولاد سے آگے چل کر فہر یا نضر بن کنانہ نے جنم لیا ، ان کی اولاد کو ”قریش“ کہاجاتا ہے ۔ ہمارے نبی حضرت محمد مصطفی کا تعلق اسی قریش کے قبیلہ سے تھا ۔آپ مو¿رخہ 12 ربیع الاوّل 20 اپریل 571 ءبمطابق یکم جیٹھ 628 بکرمی ¾پیر کے دن صبح صادق کے بعد آفتاب نکلنے سے پہلے صبح کی نماز کے وقت اس دنیا میں تشریف لائے ۔ساتویں دن قربانی ہوئی ، جس میں تمام قریش کو دعوت دی گئی ۔ لوگوں نے پوچھا بچے کا نام کیا رکھا ہے ؟ حضرت عبد المطلب نے جواب دیا ”محمد!“ کہا گیا کہ آپ نے اپنے خاندان کے سب مروجہ ناموں کو چھوڑ کر یہ نام اختیارکیا؟۔ آپ نے جواب دیا کہ : ” میں چاہتا ہوں کہ میرا یہ بچہ دنیا بھر کی ستائش اور تعریف کا شایاں قرار پائے۔“
سرکارِ دوعالم کے والد ماجد کا نام” عبد اللہ “ والدہ ماجدہ کا نام ”آمنہ“ اور دادا کا نام ” عبد المطلب“ تھا ۔ والد کی طرف سے نسب نامہ یہ ہے : ”محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب ، بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان۔“
اور والدہ کی طرف سے آپ کا نسب نامہ یہ ہے:”محمد بن آمنہ بنت وہب بن عبد مناف بن زہرہ بن کلاب۔“کلاب پر پہنچ کر آپ کا مادری اور پدری سلسلہ نسب ایک ہوجاتا ہے۔گویا آپ ”نجیب الطرفین“ تھے۔اسی طرح آپ کا کوئی بہن بھائی نہیں تھا ، بلکہ آپ ”دُرّ یتیم“ یعنی اپنے ماں باپ کے اکیلے اور اکلوتے بیٹے تھے ۔
پیدائش کی بعد آپ کی والدہ ماجدہ نے آپ کو دائی حلیمہ سعدیہؓ کے سپرد کیا گیا ، جنہوں نے مکمل دو سال تک آپ کو دودھ پلایا اور پھر آپ کو حضرت آمنہؓ کے پاس لے آئیں ، حضرت آمنہؓ نے آپ کو دوبارہ حلیمہ سعدیہؓ کے ہی سپرد کردیا ۔
آپ کے والد ماجد حضرت عبد اللہ تو اسی وقت دنیا سے پردہ فرماگئے تھے جب کہ آپ ابھی مادرِ شکم ہی میں تھے ، تاہم آپ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہؓ نے اس وقت وفات پائی جب آپ کی عمر مبارک 6 سال تھی ۔جب آپ کی عمر مبارک 8 سال 10 دن کی ہوئی تو آپ کے دادا عبد المطلب بھی 84 سال کی عمر میں چل بسے ۔ اب آپ کی تمام تر تربیت ونگرانی آپ کے چچا ابوطالب کے حصہ میں آگئی اور وہ آپ کی تربیت اور نگرانی کے ذمہ دار بن گئے ۔
حضور نبی کریم نے جب اپنے عنفوانِ شباب میں قدم رکھا تو آپ کا خیال تجارت کی طرف مائل ہوا مگر روپیہ پیسہ اپنے پاس موجود نہ تھا ، اُدھر دوسری طرف مکہ میں شریف خاندان کی ایک بیوہ عورت حضرت خدیجہ ؓ نے آپ کے اوصاف، دیانت داری اور سلیقہ شعاری کے احوال سن رکھے تھے ، اس لئے انہوں نے آپ سے درخواست کی آپ ان کا مال لے کر تجارت کریں ۔ آنحضرت نے منظور فرمالیا اوران کا مال لے کر تجارت کرنے چلے گئے ، اس تجارت میں آپ کو بہت زیادہ نفع ہوا ۔ اس تجارتی سفر میں حضرت خدیجہ ؓ کا غلام میسرہ بھی آپ کے ساتھ تھا ، اس نے واپس آکر آنحضرت کی ان تمام خوبیوں اور بزرگیوں کا ذکر حضرت خدیجہؓ کو سنایا ، ان اوصاف کو سن کر حضرت خدیجہؓ نے آپ سے نکاح کرلیا ۔ جب یہ نکاح ہوا تو اس وقت آپ کی عمر 25 سال اور حضرت خدیجہ ؓ کی عمر40 سال تھی ۔ حضرت خدیجہؓ آپ کے نکاح میں 25 سال تک زندہ رہیں ۔
نبی اکرم کی عمر مبارک جب 40 سال اور1دن کی ہوئی تو اس وقت جبرئیل امین ؑ پروانہ¿ نبوت لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ اس وقت غارِ حرا میں تشریف فرما تھے ۔ حضرت جبرئیل ؑ نے آکر آپ کو خوش خبری سنائی کہ : ” اے محمد !مبارک ہو ، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنا پیغمبر اور رسول منتخب فرمالیا ہے ۔“ لیکن آنحضرت انجانے میںیک دم اس سے گھبرا سے گئے اور اپنے گھر تشریف لے آئے اورلیٹ گئے اور حضرت خدیجہ ؓ سے فرمانے لگے کہ میرے اوپر چادر ڈال دو ۔ جب آپ کو ذرا سکون ملا تو آپ نے حضرت خدیجہؓ سے اپنا سارا واقعہ ذکر کیا ۔ حضرت خدیجہؓ آپ کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں ۔ آپ نے اپنا سارا واقعہ ان سے بیان فرمایا ، وہ سنتے ہی بول اٹھے : ” یہی وہ ناموسِ اکبر ہے جو حضرت موسیٰ ؑ پر نازل ہوا تھا ۔ کچھ دن بعد دوبارہ حضرت جبرئیل ؑ آپ کے پاس تشریف لائے اور آپ پر سورہ¿ علق کی ابتدائی 5 آیات بطورِ وحی کے نازل فرمائیں ، چنانچہ یہ آپ پر اترنے والی پہلی وحی تھی۔
نبوت مل جانے کے بعدتقریباً 9 برس تک حضور نبی کریم مکہ مکرمہ میں دعوت و تبلیغ کا کام سرانجام دیتے رہے اور قوم کی رشد و ہدایت ا وران کی اصلاح کی کوشش فرماتے رہے ، بالخصوص عرب کے مشہور میلوں عکاظ ، بجنیہ اور ذی المحاظ ¾میں جاجاکر لوگوں کو اسلام اور توحید کی دعوت دیتے رہے ، جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کی ایک چھوٹی سی جماعت تیار ہوگئی ۔ لیکن جب قریش مکہ نے یہ رنگ دیکھا تو وہ بہت گھبرائے اور انہوں نے اس کا سدباب ضروری سمجھا ، پہلے تو وہ معمولی روک ٹوک سے کام لیتے رہے ، لیکن جب اس سے کچھ نہ بن پڑا تو پھر وہ جبر و استکراہ اورایذاءرسانی پر اتر آئے اور یہ کوشش کرنے لگے کہ جو لوگ مسلمان ہوگئے ہیں کم از کم انہیں دوبارہ واپس اپنے دین پر لایا جائے۔
اس دوران آپ کے چچا حضرت ابو طالب اور ان کے کچھ ہی عرصہ بعد آپ کی زوجہ مطہرہ حضرت خدیجہؓ بھی وفات پاگئیں، اس لئے آپ کے غم وپریشانی میں اور زیادہ اضافہ ہوگیا ۔ اب آپ نے مکہ مکرمہ سے ہجرت کرنے کا ارادہ فرمالیا اور حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے مکان پر تشریف لے آئے ۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بہت جلد سامانِ سفر تیار کیا ۔ چنانچہ رات کی تاریکی میں یہ دونوں حضرات وہاں سے نکل پڑے اور مکہ مکرمہ سے 4 یا5 کوس کے فاصلہ پر غارِ ثور تک پہنچ گئے ۔ پہلے حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اندر جاکر غار کو صاف کیا اور اپنے کپڑے پھاڑ پھاڑ کر اس کے کھلے سوراخ بند کیے ، پھر آنحضرت کو اندر لے گئے۔ اور3 دن تک دونوں حضرات وہاں غار ہی میں رہے۔
غارِ ثور میں 3دن گزارنے کے بعد حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اپنے گھر سے 2 اونٹنیاں منگوائیں ،جنہیں اس سفر کے لئے پہلے سے ہی تیار کیا گیاتھا ، ایک پر حضورِ پاک اور حضرت ابوبکر صدیق سوار ہوئے اور دوسری پر عامر بن فہیرہ اور عبد اللہ بن یقط ( جسے بطورِ رہبر نوکر رکھا گیا تھا) سوار ہوئے اور مدینہ منورہ کی جانب مو¿رخہ یکم ربیع الاول بمطابق 16 ستمبر 622 ءپیر کے دن روانہ ہوئے اور مقام قباءمیں پہنچ گئے ، اہل مدینہ کو جب آپ کی آمد کی اطلاع ملی تو خوشی مارے آپ کے استقبال کے لئے اپنے گھروں سے باہر نکل پڑے اور اللہ اکبر! جیسے گونجتے نعروں کے ساتھ آپ کا پرتپاک استقبال کیا اور آپ کے ارد گرد پروانوں کی طرح جمع ہوگئے ۔ 3 دن تک آپ یہاں قیام پذیر رہے ، اس دوران آپ نے مسجد قباءکی بنیاد رکھی ، 12 ربیع الاوّل جمعہ کا دن تھا ، آپ قباءسے روانہ ہوکر بنی سالم کے گھروں تک پہنچے اور یہاں جمعہ کی نماز پڑھائی اور اس طرح اسلام میں یہ پہلی جمعہ کی نماز ادا کی گئی۔
ہجرت کے پہلے سال آپ نے مسجد نبوی کی تعمیر فرمائی اور اذان کی تعلیم لوگوں میں عام کروائی۔ دوسرے سال تحویل قبلہ کا واقعہ پیش آیا اور بیت المقدس کے بجائے خانہ کعبہ کو مسلمانوں کا قبلہ قرار دیا گیا ، اسی سال زکوٰة اور روزے بھی فرض ہوئے اور اسی سال صدقہ فطر ، نماز عید اور قربانی کی لوگوں کو تعلیم دی گئی ۔نیزآنحضرت کی صاحب زادی حضرت رقیہؓ کی وفات بھی اسی سال ہوئی اور اسی سال حضرت فاطمہ ؓ کا نکاح حضرت علیؓ سے ہوا ۔ تیسرے سال شراب حرام ہوئی ۔ چوتھے سال حضرت زید بن ثابت نے ارشادِ نبوی کے بموجب یہودیوں کی لکھائی سیکھی ، تاکہ ان سے خط و کتاب ہوسکے ۔ پانچویں سال حج فرض ہوا ،اور متبنّیٰ (یعنی لے پالک) بنانے کا قاعدہ منسوخ ہوا جو عرب میں بہت زیادہ رائج تھا ، جس کی رُو سے منہ بولے بیٹے کو حقیقی بیٹے جیسے حقوق ملتے تھے ، وہی وارث ہوتا تھا اور اس کی بیوی حقیقی بیٹے کی بیوی کی طرح حرام سمجھی جاتی تھی ۔ ساتویں سال حضرت خالد بن ولیدؓ ، حضرت عمو بن عاص ؓ اور حضرت عثمان بن طلحہ ؓ مشرف بہ اسلام ہوئے ۔ آٹھویں سال حضرت ابو سفیان بن حرب ؓ ، ان کے صاحب زادے حضرت معاویہؓ ، حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے والد ماجد حضرت ابو قحافہؓ ، جناب عبد المطلب کے بیٹے حضرت ابو سفیان بن حارثؓ نے اسلام قبول کیا ۔ جب کہ نویں سال حضرت ابو بکر صدیقؓ کو حج کا امیر بناکر مکہ معظمہ روانہ کیا گیا ۔
بالآخر ہجرت کے گیارہویں سال مو¿رخہ 28 صفرسنہ 11ہجری منگل کے روز حضور نبی کریم کے سر مبارک میں درد شروع ہوا جس کی وجہ سے آپ کو شدید قسم کا بخار لاحق ہوگیاجو تقریباً 14 دن تک مسلسل آپ کو رہا ، اس دوران 17 نمازیں آپ مسجد میں ادا نہیں فرما سکے ، بلکہ آپ کی جگہ یہ نمازیں حضرت ابو بکر صدیقؓ نے لوگوں کو پڑھائیں ۔ حضورِ پاک نے بخار کی تیزی کی وجہ سے کئی مرتبہ غسل فرمایا اور کچھ دوائیں بھی استعمال فرمائیں، لیکن بیاری سے جانبر نہ ہوسکے ۔ ان کے علاوہ پانی کا ایک پیالہ اپنے پاس رکھا ہوا تھا جس میں دست مبارک بھگوکر چہرہ انور پر پھیرتے رہتے اور یہ دعاءمانگتے رہتے : ”اے اللہ! موت کی تکالیف میں میری مدد فرما!۔“ چنانچہ جب نزع کا وقت آیا تو آپ نے اپنے منہ میں مسواک فرمائی اور یہ دعاء(اے اللہ ! میں رفیق اعلیٰ ( یعنی تیری ملاقات کرنے ) کو پسند کرتا ہوں ۔)مانگتے ہوئے مو¿رخہ 12 ربیع الاوّل سنہ 11 ہجری پیر کے دن اس جہان رنگ و بو کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خیر آباد کہہ دیا اور اس دنیائے فانی کی نظروں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اوجھل ہوگئے ۔ انا للہ واناالیہ راجعون ۔
یَارَبِّ صَلِّ وَسَلَّم´ دَائِماً ا¿َبَداً
عَل¸ٰ حَبِی´بِکَ خَی´رِ ال´خَل´قِ کُلَّھِم
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں