بے عمل قوم کو با عمل قیادت کیونکر میسر آئے ؟
شیئر کریں
سید عامر نجیب
ہمارے لوگ اپنی تمام پریشانیوں اور مسائل کو حکمرانوں سے منصوب کرتے ہیں اور اس امید پر زندہ ہیں کہ شاید اب کوئی بہتر حکمران آجائے جو رعایا کا صحیح معنوں میں خیر خواہ اور ہمدرد ہو جو عوام کے مسائل کو اپنے مسائل سمجھے عوام کی پریشانیاں جس کو سکون نہ لینے دیں ۔ جو عوام پر سے تکلیف دور کرنے کے لئے دن رات محنت کرے ۔ حقیقت یہ ہے کہ رعایا کو پُر امن اور اطمینان بخش زندگی فراہم کرنے میں حکمران طبقے کا بھی بڑا ہاتھ ہوتا ہے ۔ حکمران اگر ظالم ہوں تو رعایا کی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے ۔ کبھی مہنگائی کی صورت میں ظلم کا طمانچہ پڑتا ہے تو کبھی بے روزگاری اور ٹیکسوں کی بھرمار کی صورت میں یہ بھی کسی قوم پرظلم کی صورتیں ہیں کہ اسے تعلیم کے مواقع حاصل نہ ہوں ان پر ایسے قوانین مسلط کردیئے جائیں جن سے ظالموں کو تحفظ ملے اور مظلوم بے یار و مددگار ہوجائیں ۔ حکومت بے پناہ ٹیکس وصول کرے لیکن ملک کی سڑکیں خستہ حال ہوں ، گلیوں میں سیوریج کا گندا پانی کھڑا رہے ، پینے کے لئے صاف پانی ضرورت کے مطابق میسر نہ ہو ، گھروں میں بجلی کئی کئی گھنٹے بلکہ کئی کئی دن غائب ہوجائے لیکن کوئی پُرسان حال نہ ہو ۔ عدالتوں میں انصاف کے نام پر انصاف سے محروم کیا جا تا ہو ، غریب آدمی اپنی غربت کی وجہ سے انصاف کے لئے عدالتوں کے دروازوں پر دستک نہ بھی دے سکے ، سیاست کے نام پر نوجوانوں کی زندگیاںتباہ کی جائیں اور کوئی حساب لینے والا نہ ہو دین کے نام دھوکے دیئے جاتے رہیں اور کوئی ان سے باز پُرس کرنے والا نہ ہو ۔ غریب عوام اپنے جائز کاموں کے لئے سرکاری دفتروں کے چکر لگاتے رہیں لیکن ان کا کام نہ کیا جائے ، رشوت اور سفارش کا نظام رائج ہو اور میرٹ کا قتل کیا جائے ۔ لوگوں کی جان ، مال عزت ، آبرو محفوظ نہ ہو جہاں جعلی حکیم اور خود ساختہ ڈاکٹرز پوری آزادی کے ساتھ لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں ۔ عوام کے نزدیک نیک اور صالح حکمران ہی قوم کے مسائل و مشکلات دور کر سکتے ہیں اور اسی لئے عوام بھی اسی سوچ کے تحت کبھی کسی کو اور کبھی کسی کو ووٹ دیتے ہیں کہ شاید یہ عوام کے ہمدرد حکمران ثابت ہوں ۔
حقیقت میں یہ سوچ اپنی ذمہ داریوں سے فرار کے مترادف ہے یعنی ملک و قوم کی تباہی اور ان مسائل کی ذمہ دار ی ہم پر عائد نہیں ہوتی اگر حکمران صالح ہوتے تو یہ مسائل بھی نہ ہوتے ، یہ پریشانیاں بھی نہ ہوتیں حالانکہ بعض حالات میں اگر ایک عام آدمی غلط کام کرنے پر مجبور ہوتا ہے اسے تو حکمرانوں اور باطل نظام کے پلڑے میں ڈالا جا سکتا ہے لیکن جن برائیوں میں ہمارے لوگ بغیر مجبوری کے اور بغیر کسی دباﺅ کے مبتلا ہیں ان کے ذمہ دار کون ہیں کیا نماز پڑھنے سے حکمران روکتے ہیں ؟ یقیناً نہیں لیکن ہماری آباد ی کی بھاری اکثریت نماز سے بیگانہ ہے اسی طرح روزہ رکھنے ، والدین کی فرمابرداری کرنے ، رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرنے ، سچ بولنے ایمانداری کا مظاہرہ کرنے اپنی ذمہ داریوں کے ساتھ انصاف کرنے اور اس طرح کے بہت سارے نیک کام کرنے کی راہ میں کیا حکمران حائل ہوتے ہیں ؟ یقیناً ایسا نہیں ہے لوگ اپنی مرضی سے برے کام کرتے ہیں ہاں البتہ ان کے لئے یہ آزمائش ضرور ہے کہ باطل اور ظالم حکمرانوں نے ملک میں بُرائی کے راستوں کو آسان بنادیا ہے وہ خود بُرے کام کرتے ہیں اور بُرے کام کو تحفظ دیتے ہیں لیکن عوام کو لا تعداد اچھے کام کرنے کی آزادی بھی حاصل ہے جوموجود آزادی کا صحیح استعمال نہیں کرتے اللہ تعالیٰ انھیں مزید آزادی کیونکر دے ۔
بعض لوگوں اور بعض دینی جماعتوں کا یہ نظریہ اسلامی تعلیمات کے بلکل بر عکس ہے ۔ مشکوة شریف میں بہیقی کے حوالے سے حدیث آتی ہے کہ رسول اللہ ٬ﷺ نے ارشاد فرمایا جیسے تم ہوگے اسی طرح کے تم پر سردار مقرر کئے جائیں گے ایک اور روایت میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ( اعمالکم امراءکم ) یعنی تمہارے عمل ہی تمہارے حکمران ہیں ۔ گویا اسلامی نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلمانوں کے اعمال اچھے ہونگے تو ان پر حکمران بھی اچھے آئیں گے اور اگر اعمال اچھے نہ ہونگے تو حکمران بھی بُرے ہی ملیں گے ۔
قرآن مجید سورة انعام کی آیت نمبر 83 بھی ان احادیث کی تائید کرتی ہے ۔ مشرک اور مواحد میں کونسا فریق امن کا مستحق ہے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اپنا فیصلہ سنایا ” الذین اٰمنوا ولم یلبسو ا ایمانہم بظلم اولئک لھم الامن وھم مھتدون “ ترجمہ ( وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں اور ایمانوں کو شرک سے آلودہ نہیں کرتے انہی کے لئے امن ہے اور یہی صحیح راستے پر ہیں ) ۔ یہاں بھی معلوم ہوا کہ جو لوگ پورے معنوں میں مواحدانہ زندگی بسر کرتے ہیں اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہیں کرتے اپنی زندگی کے شب و روز اُس کے احکامات کے مطابق گزارتے ہیں ان ہی کے لئے امن ہے ان پر کوئی ظالم حکمرانی نہیں کر سکتا ۔ ،مشکوة شریف میں موجود ایک حدیث قدسی سے یہ بات مزید واضح ہوجاتی ہے یہ حدیث ابو دردہ ؓ سے روایت ہے کہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ” بادشاہوں کے دل میرے قبضے میں ہے جب بندے میری اطاعت کرتے ہیں میں ان بادشاہوں کے دل رحمت اور نرمی کے ساتھ بھر دیتا ہوں اور بندے جس وقت میری نافرمانی کرتے ہیں تو میں ان بادشاہوں کے دل خفگی اور عذاب کے ساتھ پھیر دیتا ہوں وہ ان کو برا عذاب پہنچاتے ہیں تم اپنے نفسوں کو بادشاہوں کے لئے بد دعا کرنے میں مشغول نہ رکھو بلکہ ذکر اور عاجزی میں اپنے نفسوں کو مشغول کرو تا کہ میں تم کو بادشاہوں کے شر سے کفایت کروں “ ۔
اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ اللہ کی نافرمانی کے سبب مسلمانوں پر ایسے حکمران مسلط ہوتے ہیں جو ظالم ہوں اور ظالم حکمرانوں کے تسلط میں کرنے کا کام حکمرانوں کے خلاف احتجاجی تحریک نہیں ہوتا بلکہ خود اپنا محاسبہ کرنا ہوتا ہے اللہ کے سامنے اپنے گناہوں کی توبہ اور انتہائی عاجزی کے ساتھ اللہ سے اپنے لئے بھلائی طلب کرنا ہوتا ہے ۔ قرآن کریم کے مطابق فتنہ و فساد لوگوں کے اپنے ہاتھ کی کمائی ہوتا ہے اس لیئے اگر اعمال درست کر لئے جائیں تو فتنے اللہ کے فضل و کرم سے خود بخود دم توڑ دیتے ہیں ۔
سوچوں کے فرق کے نتیجے کتنے مختلف ہوجاتے ہیں جو لوگ اپنی مشکلات ، پریشانیوں اور ظلم و زیادتیوں کے خارجی اور ظاہری اسباب پر یقین رکھتے ہیں ان کی جد و جہد کی سمت خارج میں اصلاح کی جانب ہوتی ہے وہ نظام کی خرابیوں اور ایک مخصوص طبقے کو تمام تر شر کا ذمہ دار قرار دے کر اسی کے خلاف سرگرم ہوتے ہیں خود اپنی ذات پر سے ان کی توجہ ہٹ جاتی ہے وہ اپنی برائیوں کو بہت معمولی سمجھتے ہیں بلکہ دکھی سورمہ بن کر اپنی کوتاہیوں کی ذمہ داری بھی اپنی تجویز کردہ امام شر کے سر پر ڈال دیتے ہیں اور برائیاں سر زد ہونے کے سلسلے میں اپنے آپ کو نہایت بے بس مجبور ظاہر کرتے ہیں ۔
اس کے بر عکس جن لوگوں کا نقطہ نظر حدیث کے مطابق یہ ہوتا ہے کہ ہمارے عمل ہی ہمارے حکمران ہیں ان کی ساری توجہ سے خود اپنی اور پھر لوگوں کی اصلاح کی جانب ہوجاتی ہے وہ اپنے تمام مسائل اور پریشانیوں کی ذمہ داری خود قبول کرتے ہیں اور ان کی جد و جہد کی سمت خود اپنی جانب ہوتی ہے ان کی احتجاجی تحریک خود اپنے خلاف ہوتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی فرمابرداری کے کام کر کے اس کی رحمت کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں ان کا لکھنے اور بولنے والا طبقہ درد دل کے ساتھ لوگوں کو اپنی ذمہ داریاں یاد کراتا ہے انھیں اللہ کی طرف رجوع کرنے کی ترغیب دلاتا ہے ۔
قرآن و حدیث کے مطابق تعمیری جد و جہد وہی ہے جو خود اپنی اور لوگوں کی اصلاح کے لئے کی جائے یقیناً اس میں حکومتی اہلکار اور حکمران بھی شامل ہیںوہ دائرہ کار سے باہر نہیں ہیں لیکن خود حالات کی ذمہ داری قبول نہ کرنا اور اپنی تمام بد اعمالیوں کا ذمہ دار دوسروں کو قرار دے کر صرف ان سے اصلاح کا مطالبہ کرنا نہ انصاف ہے اور نہ حقیقت کی ترجمانی اس وقت کرنے کا کام یہی ہے حدیث کے مطابق لوگوں کو حکمرانوں کی لعنت ملامت اور ان کے خلاف بد دعائیں کرنے میں مشغول کرنے کے بجائے انھیں اللہ کی یاد میں مشغول کیا جائے ان اعمال کی اصلاح کی جائے جو لوگ اپنی مرضی سے بغیر کسی سرکاری ترغیب اور دباﺅ کے کرتے ہیں ۔ جب ہم اللہ تعالیٰ کو ان کاموں میں فرمابرداری کر کے دکھائیں گے جن میں ہم آزاد ہیں تو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ہمیں ان کاموں کی اصلاح کی توفیق دے گا جو ہم ظالم حکمرانوں کے دباﺅ کی وجہ سے کرنے پر مجبور ہیں ۔
مذکورہ احادیث مبارکہ کی تصدیق حالات سے بھی کی جا سکتی ہے جب معاشرہ پوری طرح بگاڑ کا شکار ہو وہاں حکمران بھی بے بس ہوتا ہے ۔ نبی مکرم ﷺ کو مشرکین مکہ نے سرداری کی پیشکش کی لیکن آپ ﷺ نے اسے رد فرمایا کیونکہ بگڑے ہوئے لوگوں اور بگڑے ہوئے معاشرے پے نبی جیسا صالح حکمران بھی غیر موثر ہو کر رہ جائے گا ایسے میں اس کے لئے صرف دو ہی راستے ہونگے کہ یا تو وہ معاشرے کے رنگ میں رنگ جائے ظلم و زیادتیوں میں شریک بن جائے یا پھر حکمرانی چھوڑ کر ایک طرف ہوجائے ذرا سوچیں حکمران اگر عوام کی خیر خواہی میں مثبت اقدام کرنا چاہیں تو اسے ان لوگوں پر انحصار کرنا پڑے گا جو عوام کے خیر خواہ نہیں ہیں وہ عوام کے لئے اربوں روپے کی امداد کا اعلان کرے تب بھی اسے اس کرپٹ بیوروکریسی پر انحصار کرنا ہوگا جس کے مختلف چینلز ہیں اور ہر چینل پر 10 فیصد کا بورڈ لگا ہے عوام تک پہنچتے پہنچتے کل رقم کا 10 فیصد ہی باقی رہ جائے گا حکمران اگر چاہے کہ حدود اللہ نافذ کردی جائے تو کرپٹ پولیس قرآن و حدیث کے علم سے بے نیاز عدلیہ اور جھوٹے گواہ بے گناہوں پر ہی حد جاری کرائیں گے اور گناہ گار اسی طرح آزاد گھومتے رہیں گے الغرض حکمران کا ہر مخلصانہ قدم بھی عوام پر مظالم میں اضافے کا سبب ہوگا اگر معاشرہ اور اس کے لوگ بگاڑ میں مبتلا ہوں ، شریعت کی تعلیمات میں بھی حکمتیں چھپی ہوتی ہیں اس لئے ہمیں چاہیئے کہ ہم جو کچھ کریں وہ قرآن و حدیث کی رہنمائی میں کریں اپنے اعمال اور اپنے افکار دونوں کو قرآن و حدیث کے پیمانے پر رکھیں ۔
ایک صالح حکمران کی امید پر بیٹھے رہنے کے بجائے ہم خود اپنے اعمال کی اصلاح کریں اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو آنے والا ہر حکمران پہلے سے بڑھ کر ظالم ہوگا ۔
٭٭