میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
دسمبر اور پاکستان

دسمبر اور پاکستان

منتظم
هفته, ۱۰ دسمبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

ishtiaq-ahmed-khan

اشتیاق احمد خان
دسمبراور پاکستان کا تعلق بہت گہرا ہے ،اس میں مٹھاس بھی ہے اور تلخی اور ترشی بھی ۔25 دسمبر1876 بابائے قوم کی ولادت کا دن، 6 دسمبر 1906 ڈھاکا میں آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام کا دن، دسمبر1946میں آل انڈیا مسلم لیگ کے مطالبے پر برصغیر میں جداگانہ بنیادوں پر انتخابات کے انعقاد اور برصغیر کے مسلمانوں کا آل انڈیا مسلم لیگ پر بھر پور اعتماد کا اظہار جس کے نتیجے میں مسلمانان ہند کے جداگانہ ملک کے مطالبے کو جمہوری قوت حاصل ہوئی اور حصول پاکستان کی تحریک میں غیر معمولی جوش نے منزل کو قریب تر کر دیا ،ان انتخابات کے صرف 8 ماہ بعد ہی مسلمان اپنا جدا ملک حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے یہ تو وہ مٹھاس ہے جس کو بڑھاوا دینا ہر پاکستانی کا فرض ہے ۔
اب ذرا دسمبر کی تلخی اور ترشی کی بات ہو جائے ۔10 دسمبر 1970 متحدہ پاکستان کے آخری انتخابات میں قومی اسمبلی کے لیے ووٹنگ اور مشرقی پاکستان میںعوامی مسلم لیگ کی غیر معمولی کامیابی ،169 نشستوں میں سے عوامی مسلم لیگ کو صرف 2 نشستوں پر شکست ہوئی تھی جن میں سے ایک پر نورالامین اور دوسری پر چکمہ قبیلہ (ایک ہندو قبیلہ)کے سردار راجہ تری دیو رائے کامیاب ہوئے تھے ۔مغربی پاکستان (سندھ ،پنجاب،شمال مغربی سرحدی صوبہ اور بلوچستان)میں ملا جلا رجحان رہا تھا۔ سندھ اور پنجاب میں پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کی تھی تو شمال مغربی سرحدی صوبہ (کے پی کے)اور بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی (اب عوامی نیشنل پارٹی) اور جمعیت علماءاسلام (مفتی محمود) نے کامیابی سمیٹی تھی ۔بلوچستان سے پیپلز پارٹی کو ایک بھی نشست نہیں ملی تھی ،مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے اپنے کسی بھی امیدوار کو ایک سے زائد نشست پر ٹکٹ نہیں دیا تھا لیکن مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو نے چار نشستوں پر حصہ لیا اور ایک نشست پر شکست سے دوچار بھی ہوئے ۔7 دن بعد پانچوں صوبوں میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہوئے۔ سندھ اور پنجاب میں پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کی تو شمال مغربی سرحدی صوبے اور بلوچستان میں عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علماءاسلام کو کامیابی حاصل ہوئی۔مشرقی پاکستان میں اگرچہ عوامی مسلم لیگ نے غالب اکثریت حاصل کی تھی لیکن جماعت اسلامی نے بھی اتنی نشستوں پر کامیابی حاصل کر لی تھی کہ ایوان میں فعال اپوزیشن کا کردار ادا کر سکتی تھی ،یہاں یہ ذکر بے جا نہ ہو گا کہ عوامی مسلم لیگ نے قومی اور صوبائی اسمبلی کے لیے پانچوں صوبوں میں امیدوار نامزد کیے تھے ۔سندھ میں جی ایم سید نے عوامی مسلم لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا تھا لیکن پیپلز پارٹی نے مشرقی پاکستان میں امیدوار ہی نامزد نہیں کیے تھے، عوامی مسلم لیگ کے علاوہ جماعت اسلامی ہی دوسری پارٹی تھی جس نے ملک کے دونوں بازوﺅں اور پانچوں صوبوں میں انتخابات میں حصہ لیا تھا ۔
ان انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہیں کیا گیا یوں مسلم اکثریت کی بنیاد پر حاصل ہونے والی مملکت کو انتخابات کے نتیجے میںشدید دھچکا پہنچا ۔یہ انتخابات سے مقررہ مدت میں دستور سازی اورعبوری عرصہ میں کاروباری مملکت چلانے کے لیے حکومت کے قیام کے لیے منعقد ہوئے تھے۔دستور سازی کے بعد دستور کے مطابق طرز حکومت کا فیصلہ ہونا تھا جس کی بنیاد پر نئے انتخابات ضروری ہوتے لیکن ابھی سے اقتدار میں وہ گل کھلائے گئے کہ ملک دو لخت ہو گیا۔ ان انتخابات کے نتائج کے بعد اس وقت کے صدر یحیٰ خان نے جنوری ،فروری اور مارچ 1971 میں لاڑکانہ میں کئی مرتبہ شکار کھیلا اس "شکار” میں چلنے والی گولیوں سے خرگوش اور سور تو مرے ہوں یا نہ مرے ہوں، وطن عزیز کا سینہ ضرور چھلنی ہو گیا۔
مارچ 1971 میں ڈھاکا میں بلایا گیا قومی اسمبلی کا اجلاس کیا ملتوی ہوا ،پورے مشرقی پاکستان میں آگ بھڑک اُٹھی۔25 مارچ1971 کو ڈھاکا کے پلٹن میدان میں جلسہ عام سے قبل عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمان پر شدید دباو¿ تھا کہ وہ اس جلسہ میں بنگلادیش کے قیام کا اعلان کر دیںلیکن شیخ مجیب الرحمان نے یہ اعلان نہ کیا جس کے نتیجہ میں بھارتی ایما پر پورے مشرقی پاکستان میں آگ اور خون کا کھیل شروع ہو گیا اور فوجی آپریشن نے سلگتی چنگاری کو شعلہ جوالابنا دیا۔
مشرقی پاکستان پر بھارتی جارحیت تو مارچ 1971 سے بہت پہلے شروع ہو چکی تھی جس کا اعتراف بھارتی جنرلوں نے اپنی کتابوں میں کیا ہے کہ مکتی باھنی دراصل بھارتی فوج کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ جوان تھے جو بنگال سے تعلق رکھتے تھے۔ مارچ سے نومبر کے اواخر تک خانہ جنگی کے نام پر بھارتی درندوں نے مشرقی پاکستان میں آگ لگائے رکھی اور 27 نومبر کو بھارتی فوج نے اعلانیہ طور پر بین الاقوامی سرحد عبور کر لی ۔ہوائی حملے وہ اس سے قبل ہی شروع کر چکا تھا۔3 دسمبر کو بھارت نے مغربی پاکستان پر بھی جارحیت کا ارتکاب کر دیا۔ اقوام متحدہ کی سیکوریٹی کونسل کا اجلاس ہوا 10 دسمبر کو، سپر پاورز کی ایماءسے پولینڈ نے جنگ بندی کی قرارداد پیش کی ۔یہ متحدہ پاکستان کو بچانے کی ایک ایسی کوشش تھی کہ جس کے نتیجے میں سقوط ڈھاکا کے سانحہ کو ٹالا جا سکتا تھا لیکن یحیی خان کے پسندیدہ ڈپٹی وزیر اعظم اور وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کو اس نازک موقع پر ” فلو” ہو گیا اور یوں ” فلو” کے نتیجے میں ان کی ناک سے بہنے والی رطوبت میں ملک ڈوب گیا ۔یہ قرارداد بھارتی وزیر خارجہ سردار سورن سنگھ قبول کر چکا تھا اوربھارتی جنرل جگجیت سنگھ اروڑا نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ جب اُسے بھارتی وزیر خارجہ کی جانب سے پولینڈ کی قرارداد جنگ بندی قبول کرنے کی اطلاع ملی تو اس کے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی تھی لیکن 10 دسمبر سے 16 دسمبر تک ذوالفقار علی بھٹو کا ” فلو” ٹھیک نہ ہوا۔ اگر ذوالفقار علی بھٹو کو اپنے اقتدار سے زیادہ وطن عزیز ہوتا تو ” فلو” کوئی جان لیوا بیماری نہیں ہے اگر ” فلو” نہ ہوتا تو تاریخ سویلین مارشل لاءایڈمنسٹریٹرکے عجوبے سے کیسے آشنا ہوتی اور 20 دسمبر 1971 کو ذوالفقار علی بھٹو نے یحیی خان کو چلتا کر کے اپنے منصوبے کے مطابق اقتدار پر قبضہ کر لیا ۔
دسمبر1978 میں روس نے افغانستان میں اپنی فوجیں داخل کیں جس کے نتیجہ میں جہاں افغانستان میں اُٹھ کھڑے ہونے والے گروہوں نے مزاحمت شروع کر دی ،وہیں ایک بڑی تعداد میں افغانستان سے مہاجرین کی آمد کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا اور ایک وقت میں پاکستان میں افغان مہاجرین کی تعداد پچاس لاکھ سے تجاوز کر گئی جو افغان آبادی کا ایک تہائی حصہ تھی ۔ان افغانوں کی ایک بڑی تعداد نے تو پاکستانی شناختی کارڈ بنوا کر بلواسطہ پاکستانی شہریت بھی حاصل کر لی ہے ۔
27 دسمبر 2007 کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت نے ایک بار پھر ملک کو ہلا کر رکھ دیا ،48گھٹنے سے زائد عرصہ تک ملک میں کسی حکومت کا وجود نظر نہیں آ رہا تھا۔
پھر 13 دسمبر 2013کی شام سے ہی بری خبروں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔پہلی خبر جو تقریباًرات کے ساڑھے سات بجے ملی کہ بنگلا دیش کی سپریم کورٹ نے 1971میں پاکستان کی حمایت کے ”مجرم“ عبدالقادر ملا کی نظر ثانی کی درخواست ناقابل سماعت کہہ کر مسترد کر دی ہے۔ نظر ثانی کی درخواست کو ناقابل سماعت قرار دینا قانون کی تاریخ کا عجوبہ ہے اور یہ فیصلہ عمومی عدالتی وقت ختم ہونے کے بعد سنایا گیا تھا، سپریم کورٹ تو کسی وقت بھی فیصلہ سنا سکتی ہے لیکن ٹربیونلز اور دیگر عدالتیں ،عدالتی اوقات کارکی پابند ہوتی ہیں ،پھر خبر آئی کہ سزائے موت سنانے والے”نام نہاد وار کرائم ٹربیونل ” نے عبدالقادر ملا کے بلیک وارنٹ جاری کر دیے ہیں ۔سپریم کورٹ نے عدالتی وقت ختم ہو نے کے بعد فیصلہ سنایا، ٹربیونل نے اس کے بعد بلیک وارنٹ جاری کیے لیکن عبدالقادر ملا سے ان کے اہلخانہ کی آخری ملاقات ان فیصلوں سے پہلے ہی کرا دی گئی تھی اور پھر ساڑھے نو بجے خبر آگئی کہ عبدالقادر ملا کو پھانسی دے دی گئی ہے ۔راقم کی پوری رات اس کرب میں گزری کہ عبدالقادر ملا نے اس وقت کا سامنا کس طرح کیا ہو گا ۔کیا ان کے قدم تو نہ لڑکھڑا گئے ہونگے کہیںانہوں نے جبر کے سامنے سر تو نہ جھکا دیا ہو گا ،راقم نے عبدالقادر ملا کو دیکھا بھی نہیں تھا نہ ہی کوئی بظاہر ایسا تعلق موجود تھا کہ جو بے سکونی کی وجہ بنتا لیکن کلمہ اور پاکستان سے تعلق نے ہمیں بھائی بنا لیا تھا، ہجرت کے موقع پر ہونے والی مواخات کی طرح کہ جس میں انصارومہاجرین ایک دوسرے کے بھائی بن گئے اور یہ رشتہ ایسا تھا کہ جو ماںجائے سے بڑ ھ کر تھا ۔
13 دسمبر 2013 کو لگنے والے زخم ابھی مندمل نہیں ہوئے تھے، درد کی ٹیسیں ابھی کم نہ ہوئی تھی کہ 16 دسمبر 2014 کو ایک اور قیامت گزر گئی ، بزدل دشمن نے ایک بار پھر اپنے لے پالکوں کے ذریعے معصوم بچوں کی جانوں سے کھلواڑ کیا تھا۔ آرمی پبلک اسکول پشاور کے معصوم بچوں اور اساتذہ کے خون سے ہولی کھیلی گئی تھی۔ کم وبیش 150 طلباءواساتذہ تدریس علم اور تحصیل علم کی راہ میں شہید ہوگئے ۔یہ ایسی درندگی تھی کہ جس پر ہر انسان کا دل کرچی کرچی تھا لیکن اپنے ہی دھرم کی نچلی ذات والوں کو انسان نہ سمجھنے والے اس پر بھی بغلیں بجا رہے تھے، گزشتہ عرصہ کے دوران سرحدوں پر مسلسل جارحیت دشمن کے عزائم بے نقاب کر رہی ہے کہ دشمن ایک بار پھر دسمبر کو پاکستان کے لیے ستمگر بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ہمیں اتفاق واتحاد اور ہوش وحواس کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں