ایم ڈی اے، سہیل بابو کے خلاف اینٹی کرپشن حرکت میں آگیا
شیئر کریں
(رپورٹ: نجم انوار)ایم ڈی اے کے سب سے کرپٹ افسر کا ایک برانڈ بن کر متعارف ہونے والے مشکوک سندوں کے حامل افسر ، سابق ڈی جی سہیل عرف بابو سمیت متعدد افسران کے خلاف بدعنوانیوں کے دومقدمات درج ہو گئے ہیں۔ محکمہ اینٹی کرپشن کے ذریعے ہونے والی کارروائی میں مقدمہ 8/2023سرکاری خزانے سے غیر قانونی طور پر گاڑیاں خریدنے پر درج کیا گیا۔ جبکہ دوسرا مقدمہ 9/2023 تیسر ٹاؤن اسکیم45ایم ڈی اے کی 2019 ء کے پلاٹوں کی جعلی قرعہ ا ندازی اور سرکاری پلاٹوں کی بے رحمی سے ہونے والی بندر بانٹ پر درج ہوا ہے۔ واضح رہے کہ اکتوبر 2022 میں یاسین شر بلوچ نے ڈائریکٹر جنرل ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ایم ڈی اے میں بے ضابطگیوں کا نوٹس لیتے ہوئے سابق ڈائریکٹر جنرل سہیل احمد خان کے خلاف متعدد کرپشن کیس اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کو کاروائی کے لیے ارسال کیے تھے ۔ جس میں سر فہرست ایم ڈی اے کے سرکاری خرانے سے لگژری گاڑیاں خریدنے کا معاملہ تھا۔ محکمہ اینٹی کرپشن نے جب تحقیقات کا آغاز کیا تو انکشاف ہوا کہ سابق ڈی جی ایم ڈی اے سہیل احمد خان کی جانب سے ایم ڈی اے کے اکاونٹ سے دو گاڑیاں انڈس موٹرز سے بک کروائی گئی۔ حالانکہ گورنمنٹ آف سندھ کی طرف سے کسی بھی قسم کی نئی گاڑیوں کی خرید وفروخت پر پابندی عائد تھی۔ اس کے باوجود سہیل احمد خان ( سابق ڈی جی ) محمد وسیم (ڈائر یکٹر فنانس) ، شاہد حسن ( سابق ڈائریکٹر ٹاؤن پلاننگ ) اور ورک چارج ( ڈیلی ویجز ) کے ملازم عمیر گلزار نے سندھ گورنمنٹ کے احکامات ہوا میں اڑاتے ہوئے گاڑیوں کی بکنگ کروائی جس کی مالیت پونے دو کروڑ بتائی جارہی ہے ۔ محکمہ اینٹی کر پشن اسٹیبلشمنٹ نے تمام ثبوتوں کو یکجا کر کے ACC-1میں تمام ملزمان کی ایف آئی آر درج کرنے کی اجازت طلب کی ۔جس کی منظوری کے بعد ایف آئی آر نمبر 8/2023ملزمان بنام سہیل احمد خان ( سابق ڈی جی ایم ڈی اے ) محمد وسیم خان ( سابقہ ڈائر یکٹر فنانس) شاہد محسن ( سابق ڈائر یکٹر ٹاؤن پلاننگ )عمیر گلزار ( درک چارج/ ڈیلی ویجز ) کے نام درج کر دی گئی ہے ۔ جبکہ دوسری ایف آئی آر 9/2023 کے متن کے مطابق سیکٹر 47 اور سیکٹر 2 Aتیسر ٹاؤن میں سابق افسران نے اپنے من پسند لوگوں کو ہزارو ں پلاٹ الاٹ کیے۔ ان پلاٹس کی ای بیلٹنگ 19؍جولائی 2019 کو کی گئی جسے ایک پرائیوٹ سافٹ ویئر کمپنی کنٹٹ پلس کے ذریعے عمل میں لائی گئی۔ اس جعلی قرعہ اندازی کا سب سے بڑا ثبوت یہ تھا کہ اس میں جن کے نام پلاٹ کیے گئے اُن میں سے اکثر کے شناختی کارڈز کی مدت ہی ختم ہو چکی تھی۔ ایک ہی پے آرڈر پر اور ایک ہی بکنگ فارم پر پلاٹ الاٹ کیے گئے۔ اور بیشتر پلاٹ ایک ہی خاندان کے کئی کئی افراد کو الاٹ کیے گئے۔ جس کے واضح ثبوت اینٹی کرپشن نے اپنے پاس موجود ہونے کا مقدمے میں ذکر کیا۔ جس پرمحکمہ اینٹی کرپشن نے تمام ثبوتوں کی روشنی میں ACC-1 کو مقدمہ درج کرنے کی سفارش کی اور منظوری کے بعد سہیل احمد خان(سابق ایڈیشنل ڈی جی) ، ضیاء الدین صابر (سابق ڈائریکٹر فنانس) ، عتیق الرحمان (سابق کنٹریکٹ ملازم/ ڈپٹی ڈائریکٹرلینڈ)، محمد افضل (سابق ڈپٹی ڈائریکٹر اسٹیٹ )، عمیر گلزار(سابق ڈپٹی ڈائریکٹرفنانس)، محمد غیاث الدین (سابق کنٹریکٹ ملازم/ اسسٹنٹ ڈائریکٹر لینڈ)، محمد ذکی (ایم ایس، ای بیلٹَر)کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔مذکورہ مقدے میں اُن افراد کو بھی شامل کیا گیا جن پر پلاٹوں کی نوازش ہوئی ، جن میں سید ظفر اقبال ولد سید محمد عاشق ، محمد اقبال ولد محمد شفیع ، عظمت اللہ، سلیم ، تنویر اعجاز، عبدالصمد قریشی، وغیرہ وغیر ہ شامل ہیں۔ واضح رہے کہ سہیل احمد خان عرف بابو مخصوص سیاسی سرپرستیوں کے علاوہ ملک ریاض سے خصوصی تعلق کے باعث ایم ڈی اے پر خلاف ضابطہ راج کر نے والوں میں سب سے بدنام ترین افسر رہے ہیں۔ جن کے اسکینڈلز کی تعداد ناقابل شمار ہے۔