پی ڈی ایم کا مستقبل دائو پر لگ گیا
شیئر کریں
(رپورٹ:شعیب مختار) پاکستان ڈیموکریٹک موؤمنٹ کا مستقبل داؤ پر لگ گیا پیپلز پارٹی کی تلخی اور ن لیگ میں جاری ٹوٹ پھوٹ نے11 اپوزیشن جماعتوں کو یوٹرن لینے پر مجبور کر دیا پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان بھی دو بڑی جماعتوں کو رام کرنے میں ناکام ہو گئے نواز شریف کا شکوہ بھی آصف زرداری کواپنی جانب متوجہ نہ کر سکا پی ڈی ایم کے 3 جلسے کھٹائی میں پڑ گئے۔تفصیلات کے مطابق پی ڈی ایم میں جاری رسہ کشی سے مستفید ہونے کے لیے پاکستان تحریک انصاف حالیہ دنوں سرگرم دکھائی دیتی ہے جس میں چیئر مین سینیٹ صادق سنجرانی بھی سیاسی جوڑ توڑ کے لیے پیش پیش دکھائی دیتے ہیں۔ پی ڈی ایم اتحاد نے دو بڑی جماعتوں کے تنظیمی ڈھانچے کو بھی ایک ماہ کے دورانیے میں شدیدٹوٹ پھوٹ کا شکار کر دیا ہے حالیہ دنوں اپو زیشن جماعتوں کا پی ڈی ایم کی صورت میں بنایا گیا سیاسی رومانس زمین بوس ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ بلاول بھٹو زردری کے نواز شریف سے متعلق بیانات پر مریم نواز پیپلز پارٹی پر شدید برہمی کا اظہار کررہی ہیں جبکہ ن لیگ بیانیے سے ناراض رہنماؤں کی پارٹی سے دوری اور پیپلز پارٹی میں شمولیت کی دعوت نے بھی مسلم لیگ ن میں دراڑیں پیدا کردی ہیں۔مسلم لیگ ن کے ہم خیال رہنما مریم نوازکو پی ڈی ایم سے علیحدگی اختیار کرنے پر خاصہ زور دے رہے ہیں جبکہ گلگت بلتستان کے انتخابات میں جاری سیاسی مہم جوئی بھی دونوں جماعتوں میں بڑے تنازعے کا باعث بن چکی ہے جس کے تحت بلاول بھٹو زردری کی گلگت آمد کے بعد مریم نواز کی گلگت میں پیپلز پارٹی کے آ بائی حلقوں میں آمد پر متعدد رہنماؤں کی جانب سے انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ پی ڈی ایم بیا نیے پر اتحادی جماعتوں میں پیدا ہونے والے تنازعات نے دو بڑی جماعتوں کے کارکنوں کو بھی راہیں جدا کرنے پر مجبور کر دیا ہے جس کے تحت کوئٹہ میں مسلم لیگ ن کے ثنا ئ اللہ زہری اور عبدالقادر بلوچ کی بغاوت کے بعد پیپلز پارٹی کے دادو کے مقامی رہنما رئیس لال خان لغاری نے بھی گذشتہ دنوں پی ٹی آ ئی رہنما لیاقت جتوئی سے ملاقات کے بعد 200کارکنان کے ساتھ پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی ہے اس ضمن میں پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی جانب سے گذشتہ روز پی ٹی آ ئی اور مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت سے رابطے کے بعد بلاول بھٹوکی گلگت بلتستان میں مریم نواز سے ملاقات طے کروانے پر زور دیا ہے جس میں دونوں جماعتوں کے علاقائی امیدوار بڑی رکاوٹ بنے دکھائی دیتے ہیں اور وہ دونوں شخصیات کی ملاقات پر حلقے کے ووٹرز کے ناراض ہونے کا اندیشہ ظاہر کر رہے ہیں تاہم انتخابی مہم میں منفی اثرات پڑنے کے باعث دونوں فریقین میں تاحال ملاقات نہیں ہو سکی ہے جس کے تحت دونوں جماعتوں کے مابین آ ئندہ چند روز میں برف نہ پگھلنے کے سبب اپوزیشن کے 22نومبر کو پشاور،30 نومبر کو ملتان اور 13 دسمبر کو لاہور کے جلسے کے تاریکی میں ڈوب جانے کے امکانات روشن ہیں۔