جہیز کا خاتمہ ممکن ہے!
شیئر کریں
تاریخ سے معلوم ہوتاہے کہ جہیزکی ابتد ا بھارت کے ’’ویشیہ‘‘نامی قبیلےسے ہوئی جواپنی بچیوں کورخصتی کے وقت تحائف دیاکرتے تھے
جہیزخالصتاایک ہندووانہ رسم ہے اس کامقصدرخصتی کے وقت لڑکی کواتنا کچھ دے دیناہے کہ وہ وراثت میں حصہ مانگ ہی نہ سکے
اسلام میں جہیزکی کوئی اصل نہیں‘یہ رسم اپنے اندرکئی مفاسدکوسموئے ہوئے ہے ‘بعض لو گ اس کی خاطرسودپرادھاربھی لے لیتے ہیں
عبدالصبورشاکر
جہیز۔۔۔ عربی زبان کا چار حرفی لفظ ہے۔ جس کا معنی ہے ’’تیاری کرنا‘‘۔ لیکن ہمارے معاشرے میں اس کا اطلاق اُس سامان پر ہوتا ہے جسے دلہن میکے گھر سے اپنے ساتھ لاتی ہے۔ اس رسم کی ابتداء کب ہوئی؟ کوئی نہیں جانتا۔ لیکن معلوم تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ ہندوستان کے ’’ویشیہ‘‘ نامی قبیلے سے اس کی ابتداء ہوئی۔ جو اپنی بچیوں کو رُخصتی کے وقت تحفے تحائف دیا کرتے تھے۔
یہ ایک خالص ہندوانہ رسم ہے جس کا مقصد رخصتی کے وقت بچی کو اتنا کچھ دے دیناہے کہ وہ وراثت میں اپنا حصہ نہ مانگ سکے۔ لیکن اسلام میں اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔ جہیز کی رسم کی وجہ سے کتنی بچیوں کے بالوں میں چاندی آ جاتی ہے۔ لیکن وہ پیا دیس نہیں سدھار پاتیں۔ اسلامی احکام کے مطابق جو نکاح جتنا زیادہ آسان ہوگا ، اتنا ہی بابرکت ہوگا۔ اس کے برعکس جتنی نمود و نمائش کی جائے گی اتنی ہی بے برکتی بھی ہوگی۔ چنانچہ کتنے ہی نکاح ایسے ہوئے کہ دلہن شادی کے چند دنوں بعد ہی طلاق کا داغ سجائے اپنے باپ کے گھر آ بیٹھی یا پھر اُس کی زندگی کا چراغ ہی گُل کر دیا گیا۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں ہر روز بائیس کے قریب عورتیں جہیز کی بناء پر قتل کر دی جاتی ہیں۔ اگر یہ رپورٹ صحیح ہو تو اس کے مطابق ہر سال اوسطا 7920عورتیں جہیز جیسی لعنت کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔ بی بی سی کی ہی ایک دوسری رپورٹ کے مطابق 2012سے 2014ء تک صرف تین سالوں میں پچیس ہزار کے قریب قتل ہوئے۔ ہیومن رائٹس کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف مارچ 2017ء کے ایک مہینے میں وطنِ عزیزپاکستان میں پندرہ سے زیادہ خواتین موت کی بھینٹ چڑھ گئیں۔
آخر لوگ اتنے بڑے نقصان کے باوجود کیوں جہیز کا لین دین کرتے ہیں؟ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ معاشرے میں اپنی عزت و وقار برقرار رکھنے کے لیے جہیز دینا، اپنے مال کی تشہیر کرنا، دولت کی نمود و نمائش ، شان و شوکت اور شہرت کا اعزاز حاصل کرنا وغیرہ ہے۔ بعض اوقات ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی بھی جہیز دیا جاتا ہے۔ کچھ لوگ تعاون، ہدیے اور صلہ رحمی کے لیے بھی جہیز دیتے ہیں۔ خواہ اس کے لیے انہیں قرض اور سود ہی کیوں نہ لینا پڑے۔
جہیز کی رسم کئی ایک مفاسد کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ مثلا: مال کا ضیاع، گھر کی تباہی، جنسی بے راہ روی، عورتوں کی حقِ وراثت سے محرومی، لڑکیوں کی کالابازاری، کثرت طلاق اور دلہن کی موت وغیرہ۔ اور یہ مفاسد کیوں نہ ہوں جبکہ جہیز کا مال اکثر اوقات خوش دلی سے دیا ہوا نہیں ہوتا اور ایسے مال کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ’’خبردار! کسی پر ظلم نہ کرو اور کان کھول کر سن لو! کسی کا مال (تمہارے لیے) حلال نہیں ہو سکتا، جب تک کہ وہ خوش دلی سے راضی نہ ہوجائے۔‘‘اور ایسے مال میں برکت نہیں ہوتی جس کی وجہ سے درج بالا مفاسد اکثر اوقات سامنے آتے رہتے ہیں۔
بعض لوگ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا حوالہ دے کر کہتے ہیں کہ ’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی فاطمہؓ کو جہیز عنایت فرمایا تھا۔ یہ استدلال درست نہیں ہے۔ کیونکہ آپ ﷺ نے حضرت فاطمہ کو جہیز نہیں دیا تھا بلکہ اپنی زیرِ کفالت حضرت علی رضی اللہ عنہ کو سامان عنایت فرمایاتھا جن کا کوئی گھر نہ تھا اور حضورﷺ ہی ان کے مربی تھے۔ آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے انہیں ذرہ بیچ کر سامان مہیا کرنے کی تاکید فرمائی۔
جہیز جیسی لعنت پر قابو پایا جا سکتا ہے اگر درج ذیل باتوں پر عمل کر لیا جائے۔ نمود و نمائش سے مکمل پرہیز کیا جائے۔ شادیوں کے دوران غرباء کی حالت بھی پیش نظر رہے۔ محض جہیز کے لیے قرض نہ لیا جائے۔ اگر دولہا ضرورت مند ہو تو اس کی ضرورت پوری کی جائے خواہ نقدی کی صورت میں ہو یا مکان اور پلاٹ کی صورت میں۔ رشتہ کرتے وقت مال و دولت کی بجائے دین داری کو ملحوظ خاطر رکھا جائے کیونکہ حدیث مبارکہ کی رُو سے دین داری والی شادی عنداللہ مقبول و ماجور ہوتی ہے۔ نیز اجتماعی طور پر جہیز سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ علماء کرام اور دانشور حضرات عوام میں شعور بیدار کریں۔ حکومت اس بارے میں ٹھوس قانون سازی کرے جس پر عمل درآمد بھی ہو۔ میڈیا کے ذریعے عوام کو جہیز کے مضمرات سے آگاہ کیا جائے اور اس لعنت سے دور رہنے کی تراکیب بتائی جائیں۔ تعلیمی نصاب میں اس موضوع پر مواد شامل کیا جائے۔ عوامی سطح پر خطبات و مواعظ اور پمفلٹوں کے ذریعے سے رائے عامہ ہموار کی جائے۔ نیز طلبہ کے مابین اس عنوان کو لے کر مضمون نویسی کے مقابلے کرائے جائیں تاکہ نوجوان نسل میں شعور بڑھے اور معاشرہ سے حرص و لالچ کے سائے ختم ہو سکیں۔