میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بھٹوکا احتساب۔۔۔۔آخر کب تک؟

بھٹوکا احتساب۔۔۔۔آخر کب تک؟

ویب ڈیسک
جمعه, ۱۰ نومبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

نعمان شیخ
آج ملک میں کچھ لوگ بھٹو اور ان کے خاندان کے احتساب کی بات کر رہے ہیں لیکن وہ بھول گئے کہ بھٹو کا احتساب متعصب ایوب خان اور جنرل ضیاء الحق نے بھی کیا لیکن نکلا کیا ۔بے نظیر بھٹو کا احتساب غلام اسحاق خان اور نواز شریف نے کیا۔سیف الرحمان عرف احتساب الرحمان نے کیا۔انجام سب کے سامنے ہے۔آصف علی زرداری کا احتساب ان ہی تینوں نے کیا،لیکن ہوا کیا ۔صدرغلام اسحاق خان کواپنی ہی کابینہ میں زرداری صاحب کو شامل کر کے ان سے حلف لینا پڑا۔احتساب الرحمان نے مشرف دور میں دبئی میں زرداری صاحب کے
پائوں پکڑ معافی مانگی۔زرداری صاحب نے احتساب کے نام پر 11سال ناکردہ گناہ میںجیل کاٹی۔کیا اب ایوب خان سے لے کر احتساب الرحمان تک ،عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ تک کا احتساب ہو گا۔کیاان کا احتساب نہیں ہونا چاہیے؟
اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ بھٹو صاحب کی دشمن کیوں ہوئی۔انھیں کڑے احتساب سے گذارا ،لیکن جب کچھ نہ ملا تو ان کے خون کی پیاسی ہوگئی اور پھر عدالتی قتل کراکر ہی اسے چین ملا۔ملک کے تمام طاقتور طبقے بھٹو دشمنی میں اتنے اندھے کیوں ہوگئے تھے،کیونکہ بھٹو نے سیاست میں أنے کے بعدسیاست کا رنگ ڈھنگ ہی بدل دیاتھا۔آج بھٹو کی وجہ سے ہی بڑے بڑے وڈیرے ،جاگیر دار اور سرمایہ دار غریبوں اور اپنے ہی ہاریوں کے در پر جاتے ہیں اور ووٹوں کی بھیک مانگتے ہیں۔یہی بھٹو کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔سرمایہ داروں، جاگیرداروں،وڈیروں اور ریاستی اداروں کو ہرگز یہ حق حاصل نہیں کہ وہ بھٹو کا احتساب کرے کیونکہ وہ عوام ہیں اور عوام خود احتسابی عمل سے گذرتے ہیں۔عوام ہی سب سے بڑے منصف ہیں۔عوام ہی سب سے بڑے محتسب ہیں۔
بھٹو صاحب جب سیاست میں آئے اس وقت ملک میں نہ آئین تھا،نہ سیاست تھی نہ جمہوریت تھی۔وہ بغیر ڈارھی والے ملا تھے۔سچے اور مخلص مسلمان تھے جو پرو اسلام،پرو عوام اور پرو پاکستانی تھے۔انھوں نے اسلامی تصور کے مطابق ملک میں فلاحی ریا ست کا تصور دیااور خاصی حد تک فلاحی ریاست قائم بھی کردی لیکن وہ اس کام میں مکمل طور پر اس لیے کامیاب نہیںکیونکہ سازشی عناصرنے انھیںحکومت کرنے کا بہت مختصر وقت دیا اس لیے وہ اپنی سوچ کو مکمل طور پرعملی جامع نہیں پہنا سکے ۔ملک میں موجود تمام چھوٹے بڑے کارخانوں کو بلاامتیاز قومی ملکیت میں لے کر مزدوروں کو ان کے جائز حقوق دیئے،انھیں معاشرے میں جینے کا ڈھنگ سکھایا۔ورنہ بھٹو سے پہلے مزدور سرمایہ داروں کے کارخانو ں میں جانوروں کی طرح کام کرتے تھے۔سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کر کے ملک میں چھوٹے بڑے تمام طبقوں کو ایک سطح پر لانے کی اسلامی سوچ کی پہلی دفعہ بنیاد رکھی۔اسکولوں کو قومیا کر تمام طبقوں میں یکساں نظام تعلیم نافذ کیا۔غریب کابچہ بھی اسی بینچ پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتا تھا جس پر امیر کا بچہ بیٹھتا تھا۔میٹرک تک تعلیم مفت کر دی اور کئی جگہوں پر کتابیں بھی مفت دی جاتی تھیں۔ہر بچے کو تعلیم دینا أئین کا بنیادی حصہ اور اسلام کااہم اصول ہے ،جسے بھٹو صاحب نے ملک میں نافذ کیا۔پہلی دفعہ ملک کو متفقہ آئین دیا ،اور اس کے بنیادی حصے پر عمل کر کے دکھایا۔
ملک کوایٹمی طاقت بنانے کے لیے وہ ڈاکڑ عبدلقدیرخان کو ہالینڈ سے لے کر آئے تھے۔اس مقصد کے لیے انھیںہر قسم کی مالی یا انتظامی سہولیات فراہم کی۔اس کے بعد ڈاکڑ صاحب بے فکری سے اپنا کام کرتے رہے ۔ایٹمی ریکٹر کے حصول لیے فرانس سے معاہدہ کیا جس پرامریکا شدید ناراض ہوگیا اور معاہدے کی منسوخی کے لیے ہر طرح کا دبائو ڈالا لیکن بھٹو نے ملک کے مفاد میںکسی قسم کا دبائو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔پہلے ایٹمی دھماکے کے بعد اس کے خالق ڈاکڑ عبدلقدیر صاحب نے ٹی وی پر اپنے پہلے بیان میں کہا تھا کہ ملک میں ایٹم بم بنانے کی بنیاد بھٹو صاحب نے رکھی تھی اور وہ محسن پاکستان ہیں۔
عرب ممالک بھٹو شہید کی طلسماتی شخصیت سے بہت متاثر تھے انھوں نے پاکستان کی معاشی ضروریات پورا کرنے کے لیے ہر طرح کا تعاون کیاجس کی وجہ سے ملک میں معاشی خوشحالی کا جو دور بھٹو صاحب کی شخصیت کی باعث آیا وہ آج بھی جاری و ساری ہے ۔بھٹو نے پہلی دفعہ عام آدمی کے لیے پاسپورٹ کا اجراء کیا جس کی بدولت پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ لاکھوں لوگ بیرونی ملک خصوصاً مشرق وسطیٰ ملازمتوں کے لیے گئے اور زرمبادلہ کا سمندر پاکستان کی طرف بہنے لگا یہ سمندر آج تک بہہ رہا ہے اور اس سیل دولت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے حتیٰ کہ 1999 میں جب بھٹو صاحب کا خواب ایٹم بم ایک دھماکے کی صورت میں کامیاب ہوا اور تمام دنیا نے پاکستان کی امداد بند کردی تب بھی زرمبادلہ کا یہی سمندر پاکستان کے مقدر کو سنوارنے کے لیے کافی تھا اور پاکستان معاشی بحران سے بخیریت گزر گیا۔
ملک کی اشرافیہ ،اسٹیبلشمنٹ اور طاقتور ادارے پہلے ہی بھٹوسے شدید خوف زدہ تھے،کیونکہ وہ غریب اور کچلے ہوئے عوام کو ان طبقات کے برابر لے آئے تھے۔ایٹمی معاہدے پر امریکا بھی شدید ناراض تھا ۔اس لیے ان سب نے مل کرملک میں فلاحی ریاست کی بنیاد رکھنے والے،تمام اسلامی ملکوں کو متحد کر کے اسلامی بلاک بنانے والے،ایٹمی طاقت کی بنیاد رکھنے والے محسن پاکستان کو جنرل ضیاء الحق کی مدد سے پہلے اقتدار سے محروم کیا،پھر کڑے احتساب سے گذار،لیکن ایک پائی کی بھی کرپشن ثابت نہیں کر سکے۔جب کچھ نہ ملا تو دشمنی میںاتنے اندھے ہوگئے کہ ان کاعدالتی قتل کرادیا،لیکن یہ فیصلہ خود عدلیہ کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے کیونکہ اس کیس کو آج تک ملک کی کسی عدالت میں ریفرنس کے طور پرپیش نہیں کیا گیا۔کیا یہ خود عدلیہ کا فرض نہیں ہے کہ اپنا خود احتساب کرے اور اپنے اس سیاہ فیصلے کو ختم کر کے اپنے اوپر لگی اس کالک کو مٹائے۔جسٹس نسیم حسن شاہ نے خود تسلیم کیا کہ ہے اس فیصلے سے انصاف کا خون ہوا ہے۔
شہید ذوالفقار علی بھٹو کے بدترین مخالفین بھی آج یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ’’بھٹو سے سیاسی اختلافات تو ہو سکتے ہیں لیکنــ ان پر کرپشن کے الزامات نہیں لگاسکتے ‘‘۔بھٹو دور کے اس وقت کے نقاد مجیب الرحمن شامی آج ہر جگہ یہ بات کہتے ہیں کہ وہ کرپٹ نہیں تھے ہم سے یہ غلطی ہوئی کہ قومی اتحاد کی تحریک میں ان کی حمایت میں بھٹو کی شدید مخالفت کی لیکن آج ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہم نے بہت بڑی غلطی کی اور اس ملک کے سب سے بڑے عوامی لیڈر اورسیاسی دماغ کو ضائع کر دیا۔
(جاری ہے )


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں