میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
خالصتان کے قیام کے لیے ریفرنڈم

خالصتان کے قیام کے لیے ریفرنڈم

ویب ڈیسک
جمعه, ۱۰ نومبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

نام نہاد امن کے علمبردار اور عوامی حقوق کے غاصب بھارت میں آزادی کی متعدد تحریکیں چل رہی ہیں۔ کشمیر ہو یا آسام اور یا پھر خالصتان، بھارت کسی کو بھی حقوق دینے کو تیار نہیں ہے۔ اب دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے جھوٹے دعویدار کو کون سمجھائے کہ عوام کو ان کے حقوق دینے سے مسائل حل ہوتے ہیں، ان کی جان لینے سے نہیں۔ بھارت میں جہاں ایک طرف کشمیر کے مسلمان بھارتی ظلم اور تشدد کا شکار ہیں تو وہیں ان مظالم سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے آسام اور خالصتان کی آزادی کی تحریکیں بھی چل رہی ہیں۔ عوام کو بنیادی حقوق دینے کے بجائے کچلنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا بھارت میں ایک بار پھر خالصتان تحریک عروج پر ہے۔
تحریک خالصتان سکھ قوم کی بھارتی پنجاب کو بھارت سے الگ کرکے آزاد سکھ ملک بنانے کی تحریک ہے۔ سکھ زیادہ تر بھارتی پنجاب میں آباد ہیں اور امرتسر میں ان کا صدر مقام ہے۔ 1980ء کی دہائی میں خالصتان کے حصول کی تحریک زوروں پر تھی جس کو بیرون ملک مقیم سکھوں کی مالی اور اخلاقی امداد حاصل تھی۔ 1984ء میں اس وقت کی بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کے حکم پر امرتسر میں واقع گولڈن ٹیمپل پر بھارتی پولیس سکھوں پر پل پڑی۔ 3 سے 8 جون تک ہونے والے’’ آپریشن بلیو اسٹار’’ میں بھارتی فوج کے دس ہزار سورما، سینکڑوں سیکیورٹی گارڈز، پیراشوٹ رجمنٹ، توپ خانہ یونٹس کے اہلکاروں سمیت پولیس ریزرو پولیس 175 سے 200 سکھوں پر ٹوٹ پڑی۔ بھارتی فوج نے اس آپریشن میں بے رحمی اور سفاکی سے آزادی کا مطالبہ کرنے والوں کو کچل ڈالا۔ اس دوران ہزاروں شہری بھی بھارتی ظلم و بربریت کی بھینٹ چڑھ گئے۔
آپریشن بلیو اسٹار میں بھارتی فوج کے حملے میںسکھ حریت پسندوں کی ہلاکتوں اور گولڈن ٹیمپل کو بھی تباہ کیے جانے کے حوالے سے امرتسر میں ایک یادگاری میوزیم قائم کیا گیا ہے۔چند ہفتے قبل گوردوارہ پربندھک کمیٹی امرتسر کے ہرمندر صاحب میں قائم کردہ اس میوزیم میں آزادی پسند سکھ رہنما جرنیل سنگھ بھنڈراں والا اور ان کے ساتھیوں کی تصاویر لگائی گئی ہیں۔
اسی حوالے سے اہم خبر یہ ہے کہ مشرقی پنجاب میں سکھوں کی آزادی کے لیے 2020ء میں ریفرنڈم کرانے کا اعلان کیا گیا ہے اور پنجاب کے تمام شہروں میں سکھوں کی آزاد ریاست خالصتان کے قیام کے لیے ریفرنڈم کے بڑے بڑے بینرز لگائے گئے ہیں۔ امریکااور کینیڈا میں مقیم سکھوں کی تنظیم”سکھ فار جسٹس” مشرقی پنجاب میں خالصتان ریاست کے قیام کے لیے ریفرنڈم کرا رہی ہے۔بھارت نے خالصتان تحریک کے حوالے سے کینیڈا اور امریکا سے بھی بات کی ہے، لیکن بھارت کو سکھوں کے خلاف ان ملکوں کی حمایت نہیں مل سکی ہے۔
پر دھان ورلڈمسلم سکھ فیڈریشن سردار منموہن سنگھ خالصہ نے کہا ہے کہ نریندر مودی موجودہ دور کا ہٹلر ہے۔ اس نے ہندوستان میں بسنے والی تمام اقلیتوں کا استحصا ل کر رکھا ہے ۔ایک سازش کے تحت گرو گرنتھ صاحب کی بے حرمتی کا سلسلہ شروع کر وا کے اس کی آڑ میں سکھوں پر ظلم و ستم کا نیا سلسلہ شروع ہونے جا رہا ہے ۔صرف خالصتان ہی سکھوں کے لیے واحد راستہ ہے،2020ء میں ہونیوالا سکھ ریفرنڈم خالصتان کے حصول کو یقینی بنائے گا۔ ہماری لڑائی ہندوستان کے لیے نہیں بلکہ خالصتان کے لیے ہے۔ہم غلام ہیں ۔ ہم نے آزاد ہونا ہے۔ 70سال پہلے کی گئی غلطی کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ گاندھی کی بات مان کر ذلیل اور رسوا ہو کر رہ گئے ہیں ۔ کاش کہ ہم قائد اعظم کی بات مان لیتے۔
امریکی شہر نیو یارک میں خالصہ کے یوم پیدائش کے موقع پر50 ہزار سے زائدسکھ مرد و خواتین نے تیسویں سکھ ڈے پریڈ میں حصہ لیا اور بھارت سے آزادی اور خود مختار سکھ ریاست خالصتان کا مطالبہ کرتے ہوئے مظاہرہ کیا۔مظاہرین کے آگے آگے ایک فلوٹ چل رہا تھا جس پر 1984 میں بھارتی فوج کی سکھوں کے مقدس مقام گولڈن ٹیمپل پر لشکر کشی کا منظر دکھایا جارہا تھا۔ مظاہرے میں سب سے نمایاں انسانی حقوق سے متعلق تنظیم ” سکھ فار جسٹس ” کے کارکن تھے جنہوں نے مخصوص قسم کی ٹی شرٹس پہن رکھی تھیں جن پر ریفرنڈم 2020 تحریر تھا۔انہوں نے پلے کارڈز بھی اٹھا رکھے تھے جن پر "پنجاب کو آزاد کرو” اور” انصاف آزادی ہے ” کے نعرے درج تھے۔
گردوارہ سکھ کلچرل سوسائٹی کے صدر کلدیپ سنگھ ڈھلوں نے کہا کہ 1984 میں گولڈن ٹیمپل کی تباہی اور سکھوں کی نسل کشی کے بعد سکھ برادری کے پاس ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اپنا خود مختار ملک حاصل کیا جائے۔ پنجاب کی آزادی کے لیے لاکھوں سکھ اپنی جانیں قربان کرچکے ہیں اور ہم ان کی قربانیاں ضائع نہیں جانے دیں گے۔سکھ فار جسٹس کے قانونی مشیر و اٹارنی گرپتونت سنگھ پنوں نے کہا کہ بھارت کو چاہیے کہ وہ پنجاب میں سکاٹ لینڈ کی طرز پر آزادی کے لیے ریفرنڈم کی اجازت دے۔ ان کی تنظیم 2020 میں غیر سرکاری سطح پر آزادی ریفرنڈم منعقد کرے گی جس کے نتائج کا جائزہ لیا جائے گا۔ اگر ضرورت محسوس ہوئی تو اقوام متحدہ سے مداخلت کی درخواست کریں گے تاکہ آزاد سکھ ریاست کے قیام کے لیے ریفرنڈم کا انعقاد ممکن بنایا جاسکے۔”
امریکا، کینیڈا، برطانیہ اور دیگر ملکوں میں مقیم تارکین وطن آج بھی خالصتان کے حق میں ہیں۔ بیرون ملک مقیم سکھوں کی تعداد 18 سے 30 ملین کے قریب ہے اور آج بھی پنجاب کے ساتھ ان کے روابط قائم ہیں۔ مغربی ذرائع ابلاغ عامہ کا کہنا ہے کہ گذشتہ کچھ عرصے سے مغربی ممالک میں آزاد سکھ ریاست "خالصتان” کے قیام کے حامی فعال ہو رہے ہیں۔ یورپ اور شمالی امریکا کے ملکوں میں سکھ انتہا پسند تنظیموں کے لیے چندہ جمع کرنے کی بھرپور مہمیں چلائی جا رہی ہیں۔جیسا کہ ہندوستان کے طاقت سے وابستہ اداروں نے بتایا ہے کہ ہندوستان اور اسی طرح بہت سے یورپی ملکوں میں ممنوعہ تنظیموں جیسے کہ ببّر خالصہ انٹرنیشنل اور خالصتان کمانڈو فورس نے اپنے مشن کے لیے نوجوان افراد بھرتی کر لیے ہیں۔ مغربی ملکوں میں بسنے والے نوجوانوں کو خاص طور پر کیے گئے انتظامات کے دوران رجحان پرور فلمیں جیسے کہ "آپریشن بلیو سٹار” دکھائی جاتی ہیں۔ یہ اس عسکری کارروائی کا کوڈ نیم تھا جو ہندوستانی فوج نے 1984 میں امرتسر میں گولڈن ٹمپل کے خلاف کیا تھا۔ اس کے علاوہ دیگر پروپیگنڈہ مواد بھی دکھایا، سنایا یا بانٹا جاتا ہے۔ پرچار کی اس مہم میں کم سے کم 50 سوشل نیٹ ورک سائٹوں اور 20 ویب سائٹوں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔
خالصتانی تحریک کے ذمے داران کا دعویٰ ہے کہ سکھ ازم دنیا کا پانچواں بڑا مذہب ہے۔ پوری دنیا میں اس کے ماننے والوں کی تعداد دوکروڑ 80 لاکھ ہے۔ دنیا میں اس قدر بڑی آبادی ہونے کے باوجود سکھوں کی تعداد بھارت کی آبادی کا محض 1.8فیصد ہے۔جن کا زیادہ تر حصہ پنجاب میں آباد ہے۔ خالصتان تحریک کے ذمہ داران اپنے وڑن اور اہداف میں بہت واضح ہیں۔ انھوں نے خالصتان کا مکمل نقشہ تیار کرلیاہے ۔ اس کے قیام کے بعد ممکنہ چیلنجز کا بھی انھیں احساس ہے اور ان کا حل بھی سوچ لیاہے۔ انہیں احساس ہے کہ خالصتان چہار اطراف سے خشکی میں گھرا ہوا ایک ملک ہوگا۔ ممکنہ مملکت خالصتان کے ساتھ سمندر نہیں لگتا۔ ایسے میں اس کی معیشت کا کیاہوگا؟ خالصتانی ذمہ داران کاخیال ہے کہ پنجاب ایک مضبوط معیشت کا حامل ملک ہوگا۔ سمندرکا کنارا کامیاب ریاست کی ضمانت نہیں بن سکتا اور سمندر کا کنارا نہ لگنے کا مطلب یہ نہیں ہوتاکہ وہ ریاست ناکام ہوگی۔ خالصتان کے قیام سے بھارت کا ریاست جموں و کشمیر پر قبضہ ازخود ختم ہوجائے گا کیونکہ بھارت اور مقبوضہ کشمیر کے درمیان واحد راستہ خالصتان سے ہی گزرتا ہے۔ اس وقت ریاست جموں وکشمیر میں موجود سکھ تحریک آزادی کشمیر کی حمایت کررہے ہیں جبکہ ممکنہ مملکت خالصتان میں مسلمان خالصتان تحریک کا ساتھ دے رہے ہیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں