ایم کیو ایم پاکستان اور پاک سر زمین پارٹی
شیئر کریں
چند روز پیچھے جائیں تو ایم کیو ایم پاکستان اور پاک سر زمین پارٹی باہم دست و گریباں نظر آرہی تھیں ایک دوسرے پر الزام لگائے جارہے تھے اور سخت الفاظ کا تبادلہ بھی ہورہا تھا، اس شعلہ بار فضا میں کسی سامری نے کیا جادو کیا کہ کیفیت یہ ہوگئی ’’ دور دور جاندے اسیں نیڑے نیڑے آگئے‘‘ یہ اتحادی کوشش فطرت کے اشارے سمجھ کر کی گئی یا حالات کی نزاکت کا احساس کرنے کے بعد، اپنی جگہ بہت ہی بڑی سیاسی چال ہے، کیا وہ دن تھے جب فاروق ستار کو قلق تھا کہ ان کی پارٹی کے ارکانِ قومی اسمبلی کو توڑ کر پاک سر زمین پارٹی کے حوالے کیا جارہا ہے، انہوں نے لگے ہاتھوں یہ دھمکی بھی دے ڈالی تھی کہ اگر یہ سلسلہ بند نہ ہوا تو ہم اپنے تمام ارکانِ اسمبلی اور سینیٹروں سے استعفے دلوا دیں گے اور ایک اطلاع کے مطابق تحریری استعفے لے کر فاروق ستار نے اپنے پاس رکھ بھی لیے تھے لیکن انہیں آگے بھیجنے کی نوبت نہ آئی۔
اگراستعفے بھیج بھی دیے گئے ہوتے تو کون سے منظور ہوجانے تھے ، کیوںکہ قومی اسمبلی کے ا سپیکر سردار ایاز صادق اس سلسلے میں ایک ایسی درخشاں روایت قائم کرچکے ہیں جو بہت عرصے تک اس راستے میں روشنی بکھیرتی رہے گی اور یہ ٹیکنیک استعفے دینے والوں کے کام آتی رہے گی ،آپ کو یاد ہوگا 2014ء کے تاریخی اور تاریخ ساز دھرنے کے آغاز ہی میں تحریک انصاف کے ارکانِ قومی اسمبلی اپنی نشستوں سے مستعفی ہوگئے تھے۔ یہ استعفے ا سپیکر کے پاس پہنچ بھی گئے تھے اصولاً تو منظور ہوجانے چاہئے تھے، خصوصاً ایسی صورت میں جب اسمبلی بلڈنگ کے سامنے رکھے ہوئے کنٹینر پر کھڑے ہوکر عمران خان سلطان راہی کی یاد تازہ کیا کرتے تھے اور کہتے تھے اوئے ایاز صادق، تم کیوں ہمارے استعفے منظور نہیں کرتے، ہم چوروں ڈاکوؤں کے ایوان میں نہیں آئیں گے، ہمارے استعفے منظور کرو، لیکن سردار ایاز صادق گالیاں سن کر بے مزہ نہیں ہوتے تھے اور ان کا فرمان تھا کہ جب تک استعفے دینے والے ارکان ان کے پاس آکر فرداً فرداً اپنے استعفوں کی تصدیق نہیں کریں گے اور یہ یقین نہیں دلائیں گے کہ استعفے باقائمی ہوش و حواس اور برضا و رغبت کسی جبر و اکراہ کے بغیر دیے گئے ہیں اس وقت تک یہ منظور نہ ہوں گے۔
ایک دن یہ سانحہ ہوا بھی کہ تمام کے تمام مستعفی ارکان استعفوں کی تصدیق کے لیے ڈپٹی ا سپیکر کے چیمبر کے باہر جمع ہوگئے لیکن باہر ہی بیٹھ کر واپس چلے گئے، نہ استعفوں کی تصدیق کی نہ ڈپٹی ا سپیکر سے ملاقات اور کئی ماہ کے بعد اسمبلی میں اس حالت میں واپس آگئے کہ خواجہ آصف کو کہنا پڑا کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے۔ اس لیے جب فاروق ستار یہ اعلان کررہے تھے کہ ہمارے ارکان استعفے دے دیں گے تو ارکان کو یہ تسلی تھی کہ ہونا ہوانا کچھ نہیں پھر جو لوگ ایم کیو ایم کی سیاسی حرکات سے واقف ہیں انہیں معلوم ہے کہ یہ جماعت کسی بھی وقت کوئی بھی فیصلہ کرکے حیران کرسکتی ہے۔ ایک دن قومی اسمبلی کے الیکشن کا بائیکاٹ کرتی ہے اور دو دن بعد پورے جوش و جذبے سے سندھ اسمبلی کا الیکشن لڑ رہی ہوتی ہے، سو یہ فیصلہ بھی حیرت میں مبتلا کردینے والا ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے آپ کو بتاتے چلیں کہ فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال کو قریب لانے میں ایک ملاقات کا بھی بڑا کردار ہے جو گذشتہ شب ہوئی تھی لیکن احتیاط اتنی کی گئی تھی کہ یہ نہ تو پاک سر زمین پارٹی کے دفتر میں ہوئی اور نہ ہی ایم کیو ایم پاکستان کے دفتر میں، لیکن اس ملاقات کے نتیجے میں جو فسوں پھونکا گیا اس نے کام دکھا دیا اور دونوں جماعتوں نے طے کیا کہ وہ اگلے انتخابات ایک منشور اور ایک اتنخابی نشان کے تحت لڑیں گی۔ لیکن یہ نشان پتنگ ہوگا یا کچھ اور یہ ابھی طے نہیں ہوا ہے، ابھی یہ بھی حتمی نہیں کہ یہ دو جماعتوں کا سیاسی اتحاد ہوگا یا دونوں جماعتیں اپنا وجود ختم کرکے ایک جماعت بن جائیں گی۔ بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ یہ فیصلہ مہاجر ووٹ کو تقسیم ہونے سے روکنے کے لیے کیا گیا ہے۔
پیپلز پارٹی میں خواب دیکھنے کے حوالے سے مشہور ایک رہنما نے چند روز پہلے کہا تھا کہ اب مہاجروں کی قیادت دبئی سے آئے گی، دبئی میں اس وقت سابق صدر جنرل پرویز مشرف اور ان کے عہد میں سندھ کے گورنر بننے والے ڈاکٹر عشرت العباد رہتے ہیں، تو کیا آئندہ کسی وقت جنرل پرویز مشرف مہاجروں کی اس متحدہ جماعت یا اتحاد کی قیادت سنبھال لیں گے؟ بظاہر تو یہ مشکل کام ہے کیونکہ وہ تا حیات الیکشن نہیں لڑسکتے اس لیے ان کی قیادت کا بوجھ اٹھانے کا کوئی فائدہ نہیں، اگرچہ ان کی خواہش تو ہوگی کہ ایسا ہوجائے کیونکہ ان کی اپنی جماعت تو ٹیک آف نہیں کرسکی اور اس کی حیثیت یہ ہے ’’ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے‘‘ پھر جنرل پرویز مشرف کو بہت سی عدالتوں نے اشتہاری قرار دے رکھا ہے، وہ اس خوف سے واپس نہیں آتے کہ آئے تو گرفتار ہوجائیں گے اس لیے وہ تو دبئی میں بیٹھ کر تیل اور تیل کی دھار دیکھتے رہیں گے ۔ اس وقت تک جب تک حالات اس حد تک سازگار ہوجائیں کہ انہیں گرفتاری کا ڈر نہ رہے۔
جہاں تک ڈاکٹر عشرت العباد کا تعلق ہے جب وہ کراچی میں تھے اور مصطفیٰ کمال دبئی سے آکر اپنی پارٹی بنا چکے تھے تو انہوں نے بانی ایم کیو ایم کے ساتھ ساتھ ڈاکشر عشرت العباد کو بھی نشانے پر رکھا ہوا تھا یہاں تک کہ وہ انہیں رشوت العباد کہنے سے بھی نہیں چوکتے تھے لیکن کیا ایک دوسرے پر ذاتی الزامات کی بارش کرنے والے ایک ہی چھت کے نیچے بیٹھ کر اکٹھے کام کرسکیں گے؟ یہ ہے تو مشکل کام لیکن سامریوں کے لیے کیا مشکل ہے وہ اگر سونے کے بچھڑے سے آوازیں نکالنے کا بندوبست کرسکتے ہیں تو جیتے جاگتے انسانوں کو کرشمہ سازیاں کرنے پر آمادہ کیوں نہیں کرسکتے؟ ویسے جس انداز میں ایم کیو ایم اور پاک سر زمین پارٹی متحد ہوئی ہیں اس کے بعد عشرت العباد کی قیادت کے لیے گنجائش پیدا کرنا کیا مشکل ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا مہاجر ووٹ تقسیم نہیں ہوگا اور جن جماعتوں نے یہ سوچنا شروع کردیا تھا کہ بدلے ہوئے حالات میں وہ کراچی میں دوبارہ کم بیک کریں گے کیا ان کا یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوگا لیکن ابھی الیکشن تو بہت دور ہے اس وقت تک بہت سی محیر العقول تبدیلیاں ہوسکتی ہیں۔
(تجزیہ)