میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
تیسری عالمی جنگ کے آثار نمایاں ہورہے ہیں

تیسری عالمی جنگ کے آثار نمایاں ہورہے ہیں

منتظم
جمعرات, ۱۰ نومبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

جوناتھن مارشل
ایسا محسوس ہورہاہے کہ عالمی تنازعات اور مناقشوں کو پرامن طریقوں سے حل کرانے میں اقوام متحدہ کی مسلسل ناکامی اور بڑی عالمی طاقتوں کی باہمی رسہ کشی کی وجہ سے اب ایک تیسری عالمی جنگ کسی بھی وقت شروع ہوسکتی ہے۔تیسری عالمی جنگ دنیا کے کس خطے سے شروع ہوگی اس بارے میں حتمی طورپر تو ابھی کچھ نہیں کہاجاسکتا لیکن یہ جنگ امریکا سے کچھ فاصلے پر جنوبی چین کے سمندر میں بھی شروع ہوسکتی ہے ،بحیرہ بلقان بھی اس کا مرکز بن سکتاہے ، خلیج کا کوئی ملک یا شام بھی اس کاسبب اور مرکز بن سکتاہے جہاں امریکا اور اس کے روایتی حریف اور حلیف روزانہ اپنی فضائی اور بحری قوت کا مظاہرہ کرکے نہتے انسانوں کا تیتر بٹیر کی طرح شکار کرنے میں مصروف ہیں۔
امریکی حکام اپنے ملک کی سیکورٹی کوبہتر بنانے پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے اپنے ملک سے بہت دور فوجوں کی تعیناتی اور طاقت کے اظہار کے ذریعے دنیا کو دانستہ یا نادانستہ طورپر ایک نئی عالمی جنگ کی جانب دھکیل رہے ہیں۔اس حوالے سے روس بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے اور وہ امریکا اور اس کے اتحادیوں پر بار بار یہ واضح کرنے کی کوشش کررہاہے کہ وہ ان کی مخالف قوت کے طور پر ختم نہیں ہوا بلکہ اب پہلے سے زیادہ قوت کے ساتھ میدان میں موجود ہے۔
امریکا کی جانب سے شام میں نوفلائی زون کے قیام کی تجویز پر عمل کی صورت میں شام ہی تیسری عالمی جنگ کا مرکز بن سکتاہے کیونکہ روس شام میں بشارالاسد کے حلیف کے طورپر وہاں موجود ہے اور روس کے جنگی طیارے کبھی بھی امریکا کے بنائے ہوئے نو فلائی زون کو قبول نہیں کریں گے اور اس کی جان بوجھ کر خلاف ورزی کرنے کی کوشش کریں گے اور اگر نو فلائی زون پر پرواز کے دوران کسی روسی طیارے پر حملہ کرنے کی کوشش کی گئی تو یہ حملہ تیسری جنگ کا پیش خیمہ بن سکتاہے۔
امریکا سے چھیڑ چھاڑ بلکہ دو دوہاتھ کرنے کے لیے روس پوری طرح تیار نظر آتاہے بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ روس امریکا سے دو دو ہاتھ کرنے کے لیے بہانے کی تلاش میں ہے اور جان بوجھ کر ایسی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کررہاہے جس کے نتیجے میں امریکا روس کے خلاف کسی طرح کی جنگی کارروائی پر مجبور ہو اور روس اس کا جواب دینے کے نام پر فوری امریکا اور اس کے اتحادیوں پر دھاوا بول دے ، امریکا سے چھیڑ چھاڑ بلکہ چڑھ دوڑنے کے حوالے سے روس کی خواہش اور بیتابی کا اندازہ اس طرح لگایاجاسکتاہے کہ ستمبر میںروس کا ایک لڑاکا طیارہ بحیرہ اسود میں موجود امریکا کے ایک جاسوس بحری جہاز کے عین اوپر پہنچ گیاتھا اور اس نے امریکی جہاز سے صرف 10فٹ کی بلندی پر چکر لگانے شروع کردیے تھے لیکن امریکی جہاز کی طرف سے کوئی جوابی کارروائی نہ کیے جانے کے سبب روسی لڑاکا طیارہ مزید کسی کارروائی کے بغیر ہی واپس چلاگیا ۔6 ماہ قبل نیٹو کی جانب سے اپنی فوجی طاقت میں اضافے کے اعلان پر ردعمل کااظہار کرتے ہوئے روسی لڑاکا طیاروں نے بحیرہ بلقان میں فوجی مشقوں میں مصروف امریکا کے ایک تباہ کن بحری جہاز کی راہ روکنے کی کوشش کی تھی۔جس پر امریکا کے وزیر خارجہ جان کیری کو یہ بیان دینا پڑا تھا کہ امریکا کو روس کی اس طرح کی کارروائیوں کی صورت میں اس کاطیارہ مارگرانے کا حق حاصل ہے ۔جس پر روس نے جواب دیاتھا کہ امریکی جہاز بحیرہ بلقان میں اس کے بحری بیڑے کے انتہائی قریب مشقوں میں مصروف تھا اور روسی طیارہ معمول کی پرواز پر تھا اور اس پرواز کا اسے حق حاصل تھا۔اس کے چند دن بعد اسی علاقے میں روس کے ایک طیارے نے امریکا کے ایک نگراں طیارے کی راہ روکنے کی کوشش کی تھی۔امریکا کے محکمہ دفاع نے روسی طیاروں کے جارحانہ طرز عمل کی مذمت کرتے ہوئے متنبہ کیاتھا کہ روس کی اس طرح کی کارروائیوں سے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوسکتاہے۔ امریکا کے اس انتباہ کے جواب میں روس نے کہا کہ ایک نامعلوم طیارے کو مشکوک انداز میں روسی سرحدوں کی طرف بڑھتا دیکھ کر روسی طیاروں کو حرکت میں آنا پڑا تھا۔
دوسری طرف سال رواں کی پہلی ششماہی کے دوران امریکی بحریہ کو خلیج فارس میں کم از کم 19 مرتبہ ایران کے جنگی جہازوں سے مڈبھیڑ کاسامنا کرنا پڑا جبکہ گزشتہ سال یعنی 2015 کے دوران امریکا اور ایران کے بحری جنگی جہاز کم از کم 10 مرتبہ ایک دوسرے کے سامنے آچکے تھے جس سے دونوں ملکوں کے درمیان جھڑپوں کا خدشہ پیدا ہوگیاتھا۔اس حوالے سے سب سے زیادہ سنگین واقعہ رواں سال جنوری میں اس وقت پیش آیا جب ایران نے امریکی بحریہ کے 10 فوجیوں کو ایران کی سرحدی حدود میں داخل ہونے کے الزام میں گرفتار کرلیاتھا اور انھیں کم از کم 24گھنٹے تک زیر حراست رکھنے کے بعد دوبارہ ایرانی حدود میں داخل ہونے کی کوشش پر سنگین نتائج کے انتباہ کے ساتھ رہا کیاگیا۔امریکی انتظامیہ نے جو ایران کے ساتھ حالیہ جوہری معاہدے کے بعد ایران کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہے ایران کی اس کارروائی پر کسی شدید ردعمل کااظہار نہیں کیا کیونکہ امریکی انتظامیہ نے یہ محسوس کرلیاتھا کہ اس حوالے سے کوئی سخت جواب ایران کو روس کے اور زیادہ قریب اور امریکا سے دور کرنے کاسبب بن جائے گا۔
اکتوبر میں چین کی وزارت دفاع نے جنوبی چین کے سمندر میں چینی جزیرے کے قریب امریکا کے گائیڈڈ میزائل سے لیس بحری جہاز کے گشت پر شدید احتجاج کیاتھااور اپنی بحری حدود اور اپنی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے اس متنازع جزیرے اور اس کے ارد گرد اپنی فوجی قوت میں اضافہ کرنے کااعلان کردیاتھا۔اپنی سرحدی اور بحری حدود کی نگرانی کے لیے سیٹلائٹ سے مدد لینے کے بجائے براہ راست لڑاکا طیاروں کی پروازوں اور ایک دوسرے سے مڈبھیڑ کے یہ واقعات کسی بھی طرح اس دنیا کے اربوں انسانوں کے مفاد میں نہیں ہوسکتے، ان سے ظاہرہوتا ہے کہ دنیا تیزی کے ساتھ ایک اور عالمی جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے تاہم اب ہر بڑی طاقت یہ جنگ اپنی سرحدی حدود سے باہر بلکہ بہت دور لڑنے کی خواہاں ہے تاکہ جنگ کی صورت میں وہ خود اس کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہ سکے۔
اب جبکہ امریکا میں صدارتی انتخابات کامرحلہ ختم ہوچکاہے اور جلد ہی صدر کی تقریب حلف برداری بھی متوقع ہے امریکی انتظامیہ خاص طورپر محکمہ دفاع کو اس صورتحال پر سنجیدگی سے توجہ دینی چاہیے اور اس بات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ عراق میں مداخلت کے بعد سے امریکا مسلسل حالت جنگ میں ہے اور اپنی تمام تر فوجی قوت اور صلاحیتوں کے باوجود عراق اور افغانستان میں اس کے فوجی کوئی نمایاں کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں ، شام میں بھی امریکی فوجی ایک اعتبار سے ایک ایسے محاصرے میں آچکے ہیں جہاں سے بچ نکلنا ان کے لیے آسان نہیں ہے، اس لیے انھیں کسی بھی ایسی کارروائی سے گریز کرنا چاہیے جو تیسری عالمی جنگ کاپیش خیمہ ثابت ہو،امریکی حکام کو یہ بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ عراق ، افغانستان اور اس کے بعد اب شام میں فوجی کارروائیوںکے بعد امریکی معیشت شدید دباﺅ کاشکار ہے اوروہ کسی بھی فوجی محاذ آرائی کی متحمل نہیں ہوسکتی۔
توقع کی جاتی ہے کہ امریکا اور روس دونوں ہی بڑی طاقتوں کے رہنما کسی بھی فوجی محاذ آرائی سے گریز کریں گے اور اپنی طاقت فوجی محاذ آرائی پر ضائع کرنے اور بنی نوع انسان کوتباہ کاریوں میں دھکیلنے کے بجائے ان کی فلاح وبہبود کو یقینی بنانے کے لیے وسائل مہیا کرنے کی کوشش کریں گے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں