میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
مذہب پر ہاتھ صاف نہ کریں

مذہب پر ہاتھ صاف نہ کریں

منتظم
جمعرات, ۱۰ نومبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

احمد اعوان
Athense کے میلے میں ایک مصور کا شاہکار نصب کیا گیا اور لوگوں کی رائے مانگی گئی، مصور نے انگوروں کا ایک خوشہ بنایا جسے انسانی ہاتھ نے اپنی گرفت میں لے رکھا تھا۔ انگور اصل (Real) سے اس قدر مماثل (Similar) تھے کہ پرندے ان انگوروں پر چونچ مارنے کے لیے بار بار آرہے تھے۔ یونان میں اس شاہکار کے چرچے ہوگئے، ہر ایک مداح سرا تھا۔ دوسرے روز ایک شخص نے اس تصویر پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس تصویر میں ایک بہت بڑا نقص ہے، ہاتھ نقلی ہے، پرندوں نے نقلی ہاتھ کو پہچان لیا اگر یہ اصلی ہوتا تو پرندے کبھی انگور پر چونچ مارنے کی جرا¿ت نہ کرتے۔ جو مصور اصلی انگور بنا سکتا تھا وہ اصلی ہاتھ کیوں نہیں بنا سکا، یہ اس فن کا نقص ہے۔ اس تنقید نے یونان کو ہلا کر رکھ دیا۔ کئی روز تک اس نقاد کے چرچے رہے۔ دو ہی ہفتے گزرے تھے کہ ایک اور نقاد نے اس تنقید کا جواب دینے کا فیصلہ کیا۔ اس نے کہا کہ مصور نے تضادات کے ذریعے کمال فن کا مظاہرہ کیا ہے۔ نقلی ہاتھ اس کمال سے بنایا کہ پرندے اس سے واقف ہوگئے حالانکہ انسانی آنکھ بھی بہ ظاہر اس ہاتھ کو اصل سمجھ رہی ہے اگر پرندوں کے لیے اصلی ہاتھ کے مماثل ہاتھ بنایا جاتا تو لوگ انگوروں پر چونچیں مارنے کے حسین منظر سے محروم رہتے اور اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ پرندوں کی حسّی صلاحیتیں انسانوں سے نصف بہتر ہوتی ہیں۔ اس تصویر کے تضادات ہی اصل میں کمال فن ہیں۔ اس تنقید نے یونان میں زلزلہ پیدا کردیا۔ اگلے کئی ماہ اس کا غلغلہ برپا رہا۔ چند ماہ بعد ایک اور ناقد نے اس تنقید کے پرخچے اڑا دیے۔ اس نے کہا کہ ہاتھ بھی اصلی ہے اور انگور بھی اصلی ہیں مگر اصل بات یہ ہے کہ پرندوں نے یونان میں پہلے کبھی اتنے خوبصورت اور رسیلے انگور دیکھے نہیں اس لیے پرندے اپنی جان پر کھیل کر بھی ان کو حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس مدح نے تو یونان میں تہلکہ برپا کردیا۔ لوگ اس تشریح و توضیح و تاویل پر عش عش کر اٹھے۔ یہ مدح سرائی کئی سال تک ہوتی رہی۔ پھر ایک نئے محقق تشریف لائے انہوں نے تمام سابقہ تشریحات و توضیحات کو رد کردیا اور کہا کہ بہ ظاہر ہاتھ بھی اصلی ہے اور انگور بھی اصلی ہیں لیکن پرندوں نے چند پروازوں کے بعد اندازہ لگا لیا تھا کہ ان کے ساتھ دھوکا ہوا ہے۔ لہٰذا اب وہ مسلسل غصے میں انگوروں کے خوشوں پر چونچیں مار رہے ہیں، یہ پرندوں کا انتقام ہے۔ اس تنقید نے تو یونان کے در و دیوار کو لرزا کر رکھ دیا۔ اس تنقید پر ایک اور محقق نے فرمایا کہ اگر پرندوں کو معلوم ہوگیا تھا کہ یہ تصویر نقلی ہے تو وہ انتقاماً انسانی ہاتھ پر چونچیں مارتے وہ انگوروں پر کیوں چونچیں مار رہے ہیں؟ اس کا رد کرتے ہوئے ایک اور ناقد نے کہا انسانی ہاتھ بالکل مردہ لگتا ہے لہٰذا پرندے انسانی ہاتھ پر چونچیں نہیں مارتے لیکن انگوروں میں زندگی کے آثار نظر آتے ہیں لہٰذا وہ انگوروں پر وار کررہے ہیں۔ دھوکا معلوم ہونے کے باوجود پرندے دھوکا کھا رہے ہیں یہ اس شاہکار کا اصل کمال فن ہے۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ منشائے تصویر کون بتائے گا، یہ کون بتائے گا کہ مصور جس نے اس تصویر کو بنایا جو اس تصویر کا خالق ہے وہ کیا چاہتا تھا؟ یہ کون بتائے گا ؟مصور۔۔ یا نقاد؟ منشائے کلام کون بتائے گا ؟متکلم یا کوئی اور ؟ یا پھر اس کا نامزد کردہ فرد جس کو کلام کے خالق نے اجازت دی ہو کہ تم میرے کلام کی تشریح کرسکتے ہو؟ ایک ہی حقیقت کی ایک ہزار تشریحات ہوسکتی ہیں اور وہ صورت بھی پیش آسکتی ہے جسے علم منطق میں تاویل القول بمالا یرضی عنہ قائلہ یعنی قول کی ایسی تاویل کرنا جس سے متکلم خود راضی نہ ہو۔ چنانچہ کسی کلام کی کون سی تشریح درست ہے اس بات کا فیصلہ کیسے ہوگا؟ اب آجاتے ہیں منشائے مضمون کی طرف کہ اصل میں میں نے یہ مضمون کیوں تحریر کیا؟ ہم اور آپ اپنی عملی زندگی میں ایک عظیم تحفے اور اعلیٰ کلام بلکہ تمام کلاموں میں سے افضل ترین کلام کی تشریح کے معاملے میں بھی کچھ ایسا ہی کرتے ہیں جیسا یونانی اس شاہکار کے ساتھ کرتے رہے۔
ہم سب اپنی زندگی میں جو سلوک کلام اللہ کے ساتھ کرتے ہیں وہ شاید ہی کسی اور معاملے میں روا رکھتے ہوں۔ ہم بیمار ہوتے ہیں تو اپنے معالج (ڈاکٹر) کے پاس جاتے ہیں، پڑوسی سے نہیں پوچھتے کہ دل میں تکلیف ہے کیا کیا جائے۔ ہم کوئی کاروبار کرتے ہیں تو کسی ایسے آدمی کو تلاش کرتے ہیں جو سرمایہ کاری میں ہمیں مفید اور بہتر بلکہ بہترین مشورہ دے سکے۔ ہم کسی ایرے غیرے کا مشورہ مانتے بھی نہیں۔ بچوں کی شادی کا معاملہ ہو تو کسی بزرگ سے مشورہ کرتے ہیں کہ یہ زمانہ شناس ہے، اس پر بھی بھروسہ تب تک نہیں کرتے جب تک بالکل اطمینان نہ ہوجائے ،مگر ہم دینی معاملات میں اور کلام اللہ کی تشریح کے معاملے میں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ آپ چوکوں، چوراہوں، بازاروں، ہوٹلوں، ڈرائنگ رومز میں جاکر جھانک لیں تمام جگہ بے چارے مذہب اور کلام اللہ کی ایسی تشریحات بیان کی جارہی ہوتی ہیں جیسے کہ خطابت فرمانے والے موصوف نے عمر بھر صرف یہی محنت کی اور تمام زندگی کلام اللہ کی تعلیم حاصل کرنے میں صرف کردی ہو۔ اگر کسی کو احساس دلایا جائے کہ بھائی رحم کرو! تو فوراً یہ آیت سنا دیں گے کہ ”اور ہم نے قرآن کو آسان کردیا“ بس حجت تمام، کیوں بھائی؟ زندگی کے دیگر معاملات کو بھی اتنا آسان کریں نا! گاڑی خراب ہو تو تمام دوستوں کے درمیان بیٹھ کر پوچھ لیا کریں کہ کیا کرنا چاہیے۔ جو مشورہ معقول معلوم ہو فوراً عمل کریں۔ نہیں وہاں ایسا کبھی نہیں کرتے اس کے لیے پکا میکینک رکھا ہوا ہے، کسی دوسرے پر بھروسہ بھی نہیں کرتے۔ پھر کلام اللہ کی تشریح کے معاملے میں یہ ظلم کیوں؟ وقت گزارنے یا گپ شپ کے لیے صرف یہی موضوع بچ گیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ کلام اللہ اور کلام رسول اللہ کی تشریح و توضیح و توجیہہ و تفسیر صرف اللہ پاک کے نامزد رسول، اصحاب رسول، وہ لوگ جو براہ راست رسول کی زیر نگرانی ایمان کو حاصل کرنے والے ہیں اور دین کی روح سے آشنا صلحائے امت کریں گے یا کوئی بھی ایرا غیرا یہ کام کرے گا؟ ظاہر ہے فقہائے عابدین اس کی تشریح کریں گے اور تشریح بہرحال انسان کریں گے اور عقل کی مدد سے کریں گے تو خطا کا امکان ہمیشہ رہے گا۔ لہٰذا اس امکان کا ازالہ اسلامی علمیت، منہاج تہذیب و تاریخ میں اجماع سے کیا گیا ہے۔ افراد کی عقل انفرادی سطح پر غلطی کرسکتی ہے لیکن امت کے فقہائے عابدین کی اکثریت غلطی نہیں کرسکتی اور یہ اجماع عوام کا نہیں ہوگا بلکہ صرف علمائ، عابدین و ساجدین کا ہوگا۔ رسول نے فرمایا امت کا اجماع کسی غلط بات پر ممکن نہیں۔ حضرت علیؓ نے فرمایا اگر کسی شبہ میں گرفتار ہوجاﺅ اور قرآن و حدیث سے کوئی راستہ نہ نظر آتا ہو تو ”عبادت گزار“ فقہاءسے مشورہ کرو، خود اس میں کوئی خاص رائے قائم نہ کرو۔
اس امت میں جب بھی لوگوں نے رسالت مآب کے اس حکم سے انحراف کیا ٹھوکر کھائی، اسلامی سائنس، اسلامک اکنامکس، اسلامی جمہوری سیاست اور نکاح المیسار یعنی متعہ کے ذریعے اسلامی معاشرت کی تباہی و بربادی کے حیلے عہد حاضر میں اس کی زندہ مثالیں ہیں۔ اس لیے یہ بات آج بے حد ضروری ہے کہ ہم آج ہی سے اس بات کا عہد کریں کہ کسی بھی دینی معاملے میں کسی اتھارٹی یعنی کسی صاحب علم عالم کو تلاش کرکے اس سے رائے لیں گے۔ یہ رائے ٹی وی پروگرام اور اپنی نجی محفلوں سے ہرگز قبول نہ کریں گے۔ یہ دین اتنا سستا نہیں کہ اس کے ساتھ ہم ایسے مذاق کریں۔ حضرت امام مالک کے پاس ایک شخص کئی ہزار میل کا فاصلہ طے کرکے پہنچا اور 40 سوالات پوچھے، آپ نے صرف 8 کے جواب دیے اور باقی میں فرمایا مجھے نہیں معلوم۔ اس شخص نے کہا میں اتنا سفر کرکے آیا ہوں میں اب کہاں جاﺅں اور کون ہے اس وقت زمین پر جو آپ سے زیادہ صاحب علم ہو۔ آپ نے فرمایا مجھے آپ کے بقایا سوالات کے جوابات کا علم نہیں صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔ یہ طریقہ ہے ہمارے اکابرین امت کا، یہ نہیں کہ ہر سوال کا دستی جواب حاضر۔ اس لیے بحث اور رائے دینے کے لیے دنیا کے تمام علوم آپ پر قربان ۔۔بس مذہب پر نئی گاڑی سیکھنے کے مواقف ہاتھ صاف نہ کریں ،بہت مہربانی ہوگی۔
(نوٹ: اس مضمون کی تیاری میں میری مدد کرنے پر میں اپنے قابل صداحترام استاد محترم کا بے حد مشکور ہوں۔)


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں