کھوئی منزل کاسراغ
شیئر کریں
سمیع اللہ ملک
بڑی شخصیات کو بھلانا آسان نہیں مگر ہم نے تو اس کام کو فن ہی بنا دیا ہے۔یوم اقبال25دسمبراور14/گست کے حوالے سے ہم جو کچھ کرتے رہتے ہیں وہ ہماری انفرادی اور اجتماعی ”فنی صلاحیتوں”کا بین ثبوت ہے۔ مگر ان ایام کے حوالے سے کیا کرتے ہیں؟ہم ان دنوں پر اقبال اور قائد اعظم کی بہت تعریف کرتے ہیں اور پاکستان کی قدر و قیمت کا زور و شور سے ذکر کرتے ہیں۔لیکن ہماری تعریف اور ہمارا زور و شور ہماری لاتعلقی اور روحانی، نفسیاتی، جذباتی اور ذہنی کاہلی کا پردہ ہے۔ ہم اقبال اور قائد اعظم کی تعریف اس لیے نہیں کرتے کہ ہم انہیں سمجھتے ہیں بلکہ ہم ان کی تعریف اس لیے کرتے ہیں کہ ہم انہیں سمجھنا نہیں چاہتے۔اس کا مطلب واضح ہے: تعریف کرو اور جان چھڑاؤ۔ مگر بڑی شخصیات جان بھی تو نہیں چھوڑتیں، چنانچہ اقبال اور قائد اعظم کا یوم پیدائش اور یوم وفات ہر سال آجاتا ہے اور،ارضِ وطن کایومِِ آزادی اورقراردادِپاکستان کی منطوری کادن بھی ہم سے پوچھتا ہے:”آپ کی تعریف؟”اور ہم اجتماعی طور پر اس کے جواب میں کہہ دیتے ہیں: ”آپ کے کیا کہنے؟آپ بہت بڑے اور بہت حسین و جمیل ہیں”۔اللہ اللہ خیر صلا۔ اور14/اگست پر ہمارا زور و شور؟اسے دیکھ کر ہمیں تو اسٹاک ایکسچینج کا زور شور یاد آجاتا ہے۔آپ غلط سمجھ رہے ہیں، یہ اسٹاک ایکسچینج کی مذمت نہیں، تعریف ہے۔ مگر ہم بڑی شخصیات کو کیوں سمجھنا نہیں چاہتے؟ماہِ اگست کے شروع میں عزیزم شاکرقریشی نے پرزوراصرارشروع کردیاکہ ہم نے فیصلہ کیاہے کہ اگست کاپورامہینہ پاکستان کوشعوری طورپرسمجھنے کیلئے گزارناچاہتے ہیں۔پاکستان کی تاریخی حقیقت،اس کے معرضِ وجودکے حقائق، مشاہیرانِ پاکستان کے ساتھ بطورپاکستانی شہری اپنی ذمہ داریوں،کوتاہیوں اورآئندہ کے لائحہ عمل پرسیرحاصل گفتگوکرناچاہتے ہیں بلکہ ایک ایساتجدیدِعہدکرناچاہتے ہیں جہاں روشن اورترقی یافتہ پاکستان کی طرف ہماراسفرنظربھی آئے۔اس سلسلے میں انہوں نے ہرہفتے دو لیکچرز کی ایک سیریزشروع کرنے کامطالبہ رکھ دیااورمجھے یہ تحریرکرتے ہوئے بڑی خوشی محسوس ہورہی ہے کہ اس مجلس میں تمام شریک افراد انتہائی بیدارذہن اورکچھ الگ سے کرنے کے مصمم ارادے کے مالک نظرآئے اور سوالات کی روشنی میں یہ سلسلہ بالآخراپنی منزل کاراستہ ڈھونڈتا ہواابھی تک رواں دواں ہے۔
دراصل شخصیات کا اپناہی ”سلے سلائے ”کا اصول رائج ہوتا ہے۔دکان سے سلا سلا یا سوٹ لیا اور پہن لیا۔ یہ سوٹ کہیں بہت ڈھیلا اور کہیں بہت چست ہوتا ہے ۔کسی کی آستین چھوٹی ہوتی ہے اور کسی کی بڑی۔ مگر ہم ایسی چیزوں کا برا نہیں مانتے۔ آستین لمبی ہو تو ہم اسے موڑ لیتے ہیں اور چھوٹی ہو تو کاندھوں کو تھوڑا سا سیکڑ لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ سوٹ ٹھیک ہمارے سائز کے مطابق ہے۔ مگر بڑی شخصیات سلے سلائے سوٹ کی طرح نہیں ہوتیں۔انہیں سمجھنے کے لیے کپڑے کو پورا ادھیڑنا اور پھر سینا پڑتا ہے۔یہ کام بھی آسان ہیں،مگر سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ ایسا کرتے ہوئے ہم خودبھی ادھڑ جاتے ہیں اور پھر اچانک ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہم تو بہت ناکافی ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ہر بڑی شخصیت ہم سے کہتی ہے :تمہاری نمورک گئی ہے۔آگے بڑھو اور نمو کی طرف چلو۔یہ اتنا تکلیف دہ عمل ہے کہ اچھے اچھے اس کی تاب نہیں لا سکتے،چنانچہ ہم صرف تعریف پر اکتفا کرتے ہیں۔ بہت زیادہ تعریف پر۔ مثلا ”اقبال ہے اقبال ہے، اقبال ہمارا”،”اے قائد اعظم ترا احسان ہے احسان”۔یہ سب اچھی باتیں ہیں ضروری باتیں ہیں۔ ان میں تھوڑی بہت محبت بھی ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ اقبال تو ہمارا ہے مگر ہم بھی اقبال کے ہیں یا نہیں؟اور قائد اعظم کے احسان میں جو حسن ہے وہ ہماری زندگی میں کہاں ہے؟ تو پھر ہمیں کیسے معلوم ہو کہ قائد اعظم کااحسان کیا ہے؟الفاظ کا کیا ہے، انہیں تو طوطے بھی رٹ لیتے ہیں۔ ہم میں اور طوطوں میں کوئی توفرق ہونا چاہئے۔ آخر ہم انسان اور اشرف المخلوقات ہونے کے دعویدار ہیں۔
انسانوں اور بالخصوص بڑی شخصیات کو سمجھنے کا ایک بہت آسان آلہ ہے۔اس کے ذریعے انسان کو سمجھنے کے لیے بہت معلومات یا علم درکار نہیں ہوتا ۔ اس کے لیے کسی اسکول، کالج یا یونیورسٹی کی سند درکار نہیں۔یہ آلہ معروف معنوں میں تقریبا مفت حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس آلے کو عرفِ عام میں محبت کہاجاتا ہے۔ یہ اتنا زبردست آلہ ہے کہ اس کے ذریعے صرف تصویر دیکھ کر بھی پوری شخصیت سمجھ میں آجاتی ہے۔ اقبال، قائد اعظم اور مولانا مودودی کی بعض تصاویر ایسی ہی ہیں جو تمام پردے اٹھا دیتی ہیں۔البتہ اس تفہیم میں اجمال ہوتاہے، تفصیل نہیں ہوتی۔ تاہم انسان غورکرتا رہے تو تفصیل بھی رفتہ رفتہ فراہم ہوتی جاتی ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ فی زمانہ اس آلے کا کال پڑ گیا ہے۔ ورنہ ساکت تصویریں بھی ہمیں بولتی ہوئی نظر آتیں۔
کیا قائد اعظم کی بعض تصویروں سے ان کی شخصیت کی اصل طاقت کا مرکز صاف جھلکتا نظر نہیں آتا؟ لیکن یہ مرکز کیا ہے؟ تنہائی اور گریز۔ایسی تنہائی اور ایسا گریز جو محفلیں اور انجمنیں تخلیق کرتا ہے اور ان کے درمیان ہو کر بھی تنہا نظر آتا ہے۔ لیکن یہ بانجھ تنہائی نہیں ہے۔ یہ تعلق اور لاتعلقی کا ،،نقطہ اتصال ،،ہے ۔ایک نایاب شے۔غالب نے کہا ہے:
ہے آدمی بجائے خود اک محشر خیال
ہم انجمن سمجھتے ہیں خلوت ہی کیوں نہ ہو
یہ تنہائی اور گریز کے سکے کا دوسرا رخ ہے انسان اور زندگی کو خیال کی سطح پر سمجھنا اہم ہے مگر اس سے بھی اہم انہیں تجربے کی سطح پر سمجھنا ہے۔ اس کے بغیر انسان، زندگی یہاں تک کہ بڑے تاریخی واقعات بھی پوری طرح ہماری گرفت میں نہیں آتے۔ہم اقبال، قائد اعظم اور اپنی تاریخ کی اصل سے بہت دور نکل آئے ہیں۔ہم نے چھوڑا تو کسی چیز کو نہیں مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ہاتھ میں بھی کچھ نہیں، سوائے معلومات اور علم کے دفتر کے۔ یہ سب بہت اہم ہے، بہت قیمتی ہے۔ مگر اس سے بہت زیادہ اہم تعلق کالمس ہے، محبت کی حرارت ہے، وہ حرارت جو معلومات کو علم اور علم کو محبت میں ڈھال کر اسے احساس بنا دیتی ہے۔ماہِ اگست کے حوالے سے بھلا اور کیا کہا جائے؟ پیچھے مڑکردیکھتاہوں تووہ ممالک جوہمارے ساتھ یاہمارے بعدآزادی کی نعمت سے بہرہ یاب ہوئے،وہ کہاں ہیں اورہم کہاں کھڑے ہیں؟ ندامت کے گھڑوں پانی میں شرابورہوں!اللہ سے دعاہے کہ یہ جوتجدیدعہدکاسلسلہ شروع ہواہے،اس میں سے کوئی مداواکارستہ پھوٹ نکلے اور ہم اپنی کھوئی منزل کاسراغ لگاتے ہوئے کم ازکم اپناصحیح رخ متعین کرلیں ۔آمین
پاگل ہو؟ کیوں نا حق کو سقراط بنو، خا مو ش ر ہو
تم بھی کو ئی منصور ہوجو سو لی پر چڑ ھو؟ خا موش ر ہو
گرم آنسو اور ٹھنڈی آہیں، من میں کیا کیا موسم ہیں
اس بگیا کے بھید نہ کھو لو، سیر کرو ، خا موش ر ہو
آنکھیں موندکنارے بیٹھو،من کے رکھوبندکواڑ
انشاجی!لودھاگہ لواورلب سی لو،خاموش رہو