نیب میں اورنگی کے154شادی گھر وں،غیر قانونی تعمیرات کی تحقیقات
شیئر کریں
(رپورٹ۔ اسلم شاہ)قومی احتساب بیورو کراچی نے سب سے بڑی کچی آبادی اورنگی ٹاون میں 154 شادی گھروں اورفلاحی و تجارتی کے علاوہ نقشہ کے بغیر غیر قانونی زائدالمنزلہ تعمیرات کی تحقیقات شروع کردی۔ اس ضمن میں سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھاوٹی اور اورنگی پروجیکٹ کے افسران سے الگ الگ تفتیش کرکے ریکارڈ فائلیں تحویل میں لے لی گئی ہیں۔انتہائی ذمہ دار ذرائع کے مطابق اورنگی ٹاؤن کی غیر قانونی تعمیرات میں اربوں روپے کی وصولیوںکے الزامات ہیں، جس کے عوض زمین کی حیثیت تبدیل کیے بغیر مختلف عمارتیں تعمیر کرنے کی اجازت دی جاتی رہیں۔ ان غیر قانونی تعمیرات میں بلڈنگ کنٹرول کے افسران براہِ راست ملوث قرار دیے جارہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق قومی احتساب بیورو کراچی کی خصوصی ٹیم نے شہر کی سب سے بڑی کچی آبادی اورنگی ٹاون کے پروجیکٹ میں کام کرنے والے سابق ڈائریکٹر رضوان خان اور دیگر افسران سے تفتیش کی ہے اور اُن سے کئی پلاٹوں کے جعلی کاغذات بنوانے اورلیز کرانے کے الزامات پر سوالات کیے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق شک کے سب سے بڑے دائرے میں اورنگی پراجیکٹ کے بے تاج بادشاہ اور 14گریڈ کے کچی آبادی کے لینڈ سرویئر عقیل احمدکی کروڑوں روپے مالیت کی جائیدادوں کی تفصیلات بھی اکٹھی کی جارہی ہے۔واضح رہے کہ عقیل احمد سپریم کورٹ کے حکمنامہ کے برخلاف اٹھارہ سال سے ڈیپوٹیشن پر اس پروجیکٹ میں تعینات ہے۔ اور یہاں رضوان خان کے بعد سب سے مضبوط افسر تصور کیے جاتے ہیں۔ مذکورہ افسر اپنی مہارت اور جیب میں وسعت کے باعث اب تک نیب ، اینٹی کرپشن اور تحقیقاتی اداروں میں جاری درجنوں تحقیقات چپکے چپکے بندکراچکے ہیں۔ اس طریقے پر سابق پراجیکٹ ڈائریکٹر بھی اپنے خلاف انکوائری بند کراچکے ہیں۔ اس حوالے سے اورنگی ٹاؤن میں الاٹ ، لیز پلاٹوں کو دوبارہ فروخت کرنے کے متعدد مقدمات سندھ ہائیکورٹ میں زیر التواء ہیں۔ حالیہ شادی گھروں کی غیر قانونی الاٹمنٹس ، لیز اور اس پر ہونے والی غیر قانونی تعمیرات میں بلڈنگ کنٹرول کے افسران ملوث قرار دیے جاتے ہیں۔ جن میں اسٹیٹ ڈائریکٹر سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ریاض حسین کے ساتھ پروجیکٹ اورنگی کے افسران نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے ہیں۔جبکہ برساتی نالے کے گرین بیلٹ، کھیل میدان اور رفاعی پلاٹس پر چائنا کٹنگ اور غیر قانونی لیز کی گئی ہیں جہاں تعمیرات اب بھی جاری ہیں۔ اس گورکھ دھندے میں پی ڈی اور نگی براہ راست ملوث ہیں ۔اس حوالے سے ریکارڈ کے طور پر محفوظ بعض دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ لیز کے اس غیر قانونی عمل میں عبدالمنان اور عبدالحفیظ کے دستخطوں کے ذریعے لیز کی کارروائی شروع ہوئی ، اور رضوان خان نے لیز پر دستخط کیے ۔ جبکہ عقیل احمد تمام کاموں میں لین دین کا ذریعہ بنے رہے۔ جبکہ بلڈنگ انسپکٹر طلحہ نے ڈیمولیشن کے بعد سیل کیے جانے والے غیر قانونی شادی ہال،فیکٹری گودام، بینک، موبائل مارکیٹ نجی اسکول، نجی اسپتال، پیٹرول پمپ، تارا موبائل مال تار پاری مال سمیٹ دیگر پلاٹوں کو مختلف نذرانوں کے عوض ڈی سیل کرکے تعمیرات کی اجازت دی، یہ غیر قانونی کام بلدیہ عظمی کراچی اور سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی جانب سے مشترکہ طور پر کیا جاتارہا۔جرأت کو ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ قومی احتساب بیورو کی مذکورہ تحقیقات کو رکوانے کی کوششیںشروع ہوچکی ہیں ، سابق پروجیکٹ ڈائریکٹر، عقیل احمد سمیت دیگرافسران کا دعوی ہے کہ اینٹی کرپشن پولیس اور دیگر تحقیقاتی ادارے ہم سے ماہانہ بھتے وصول کررہے ہیں، اس لیے ہمارے خلاف کارروائی نہیں کرسکتے ۔ نیب کے افسران بھی اسی معاشرے کا حصہ ہے ان کو بھی جلد رام کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔