میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاکستان کوریڈلسٹ میں برقراررکھنے پربرطانوی عذرکمزورہے، شیریں مزاری

پاکستان کوریڈلسٹ میں برقراررکھنے پربرطانوی عذرکمزورہے، شیریں مزاری

ویب ڈیسک
منگل, ۱۰ اگست ۲۰۲۱

شیئر کریں

وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے پاکستان کو سفری پابندی کی فہرست ’ریڈ لسٹ‘ میں برقرار رکھنے کے لیے ’کمزور عذر‘ پر برطانیا کو تنقیدکا نشانہ بناتے ہوئے کہاہے کہ برطانوی حکومت نے پاکستان سے کبھی اعداد و شمار طلب نہیں کیے۔برطانیا بین الاقوامی سفر کیلئے ٹریفک لائٹ جیسا نظام چلاتا ہے جس میں سب سے کم خطرے کے ممالک قرنطینہ فری سفر کے لیے گرین لسٹ، درمیانے خطرے کے حامل ممالک کو زرد جبکہ سرخ فہرست میں شامل ممالک سے آنے والے مسافروں کو برطانیا آمد پر ہوٹل میں آئیسولیشن میں 10 روز گزارنے ہوں گے۔خیال رہے کہ پاکستان کو اپریل کے اوائل میں ریڈ لسٹ میں شامل کیا گیا تھا جبکہ بھارت کو ڈیلٹا قسم کے بڑھتے ہوئے کیسز کی وجہ سے 19 اپریل کو اس فہرست کا حصہ بنایا گیا تھا۔برطانوی حکومت کی جانب سے جاری حالیہ اپڈیٹ میں بھارت، بحرین، قطر اور متحدہ عرب امارات کو زرد فہرست میں شامل کردیا گیا تھا جبکہ پاکستان کو ریڈ لسٹ میں برقرار رکھا گیا تھا، اس اقدام پر برطانوی قانون سازوں نے بھی تنقید کی تھی۔ایک ٹوئٹ میں وفاقی وزیر انسانی حقوق نے انگریزی روزنامے دی نیوز کی ایک رپورٹ شیئر کی جس میں برطانوی حکام کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ ویکسینیشن اور ٹیسٹنگ کے اعداد و شمار کی وجہ سے پاکستان کو مذکورہ فہرست میں برقرار رکھا گیا۔شیریں مزاری نے کہا کہ برطانوی حکومت بھارت نواز افراد سے مغلوب ہے اور بھارت کی جانب سے عالمی وبا کووڈ سے نمٹنے میں مسلسل تباہیوں کے عالمی سطح پر رقم ہونے کے باوجود اسے زرد فہرست مین شامل کیا گیا اور پاکستان کو ریڈ لسٹ میں رکھا گیا اور پھر اپوزیشن ارکان پارلیمنٹ کے دباؤ پر کمزور عذر کہ پاکستان نے ڈیٹا شیئر نہیں کیا۔وفاقی وزیر نے کہا کہ برطانوی حکومت نے کبھی اعداد و شمار طلب نہیں کیے اور وہ عوامی سطح پر دستیاب ہیں’نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے پاس سب سے زیادہ مرکزی اور روزانہ اپڈیٹ کا ڈیٹا بیس سسٹم ہے۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس سے پہلے برطانوی حکومت نے الگ بہانہ بنایا تھا کہ بھارتی سے زیادہ پاکستانی مسافروں کے کورونا ٹیسٹ مثبت آرہے ہیں، اب ہدف بدل دیا۔رپورٹ کے مطابق پاکستانی نژاد برطانوی اراکین پارلیمنٹ نے وزیر منصوبہ بندی اسد عمر اور معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان کے ساتھ ایک ورچوئل اجلاس کیا تھا۔اجلاس کے دوران، اسلام آباد نے برطانوی حکومت کو ڈیٹا فراہم کیا تھا یا نہیں اس معاملے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔رپورٹ میں کہا گیا کہ اراکین پارلیمنٹ کے مطابق اسد عمر نے انہیں بتایا کہ اعداد و شمار این سی او سی کے فورمز پر سرِ عام دستیاب ہے جس میں ٹوئٹر اور یوٹیوب شامل ہے اور برطانوی حکام اس تک رسائی کرسکتے ہیں۔رپورٹ میں برطانوی اراکین کے حوالے سے کہا گیاکہ ان شیٹس کو دیکھ کر یہ واضح ہے کہ پاکستان کے پاس تازہ ترین ڈیٹا موجود ہے تاہم مجھے لگتا ہے کہ پاکستانی حکام کو برطانیا کی حکومت کے ساتھ اس کو شیئر کرنا چاہیے اور مؤثر لابنگ چلانی چاہیے تھی۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں