میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
رافیل طیاروں کے معاہدے میں رشوت خوری

رافیل طیاروں کے معاہدے میں رشوت خوری

ویب ڈیسک
منگل, ۱۰ اگست ۲۰۲۱

شیئر کریں

(مہمان کالم)

کنال پروہت

بھارت نے فرانس سے 36 رافیل لڑاکا طیاروں کی خریدی کے لیے 59000 کروڑ روپوں کا جو معاہدہ کیا ہے، پریشانیوں کا باعث اور ایک مشتبہ معاہدہ بن گیا ہے اور اس کی جو شرائط ہیں، وہ یقینا بھارتی فضائیہ کے لیے نقصان دہ ہیں‘‘۔ یہ ’’شیرپا‘‘ (SHERPA) نامی اس غیرسرکاری تنظیم کا خیال ہے جو ماہرین پر مشتمل ہے اور جو عالمی سطح پر دولت کے غیرقانونی بہائوکا پتا چلاتی ہے۔ رافیل طیاروں کی ڈیل سے متعلق اس کی تحقیقات سے جو حقائق برآمد ہوئے انہی حقائق کی بنیاد پر فرانس میں عدالتی تحقیقات شروع کی گئی ہیں۔ واضح رہے کہ بھارت نے فرانسیسی کمپنی ڈسالٹ ایوی ایشن سے 59 ہزار کروڑ (7.5 بلین یورو) کی ایک ڈیل کی اور فی الوقت یہ ڈیل متنازع بن گئی ہے۔ اس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ عالمی سطح پر ایک منظم پیمانے پر کی گئی اور کی جارہی بدعنوانی کا شکار ہوئی ہے۔ اس ڈیل کی شرائط بھی بھارت کے بہتر مفاد میں نہیں ہیں بلکہ بھارتی فضائیہ کے دقیانوسی ا?لاتِ حربی کی تجدید کے لیے بھی یہ نقصان دہ ہے۔ اس ڈیل میں‘ کہا جاتا ہے کہ‘ بدعنوانیوں کا ارتکاب کیا گیا ہے۔ مثال کے طو رپر فرانس کی ایک غیرسرکاری تنظیم نے شکایت کی تھی کہ بھارت اور ڈسالٹ ایوی ایشن کے درمیان طے پائے معاہدے میں بدعنوانیوں کا ارتکاب کیا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فرانس میں ساری ڈیلز کی آزادانہ عدالتی تحقیقات کا حکم دے دیا گیا۔ آپ کو بتادیں کہ شیرپا پیرس سے کام کرتی ہے اور وہ 2018ء سے اس کیس کو آگے بڑھا رہی ہے۔ اس نے 2018ء میں ڈسالٹ ایوی ایشن کے خلاف فرانس کے قومی فنانشل پراسیکیوٹر سے رجوع کر کے شکایت درج کروائی تھی اور اپنی شکایت میں کہا تھا کہ بھارت کے ساتھ رافیل لڑاکا طیاروں کی خریداری سے متعلق معاہدے میں بدعنوانی کی گئی ہے۔ بعد میں Sherpa نے اپریل 2021ء میں فرانس کے قومی پراسیکیوٹر کو ایک تازہ شکایت درج کروائی جس کے بعد پراسیکیوٹر نے معاہدے کی تحقیقات کے لیے ایک جج کا تقرر کیا۔ اپنی شکایت میں Sherpa نے بھارت کے ساتھ طے پائے معاہدہ میں مبینہ کرپشن، اقربا پروری، جانبداری اور مختلف مالی جرائم کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
شیرپا کے وکالتی و تنازعات سے نمٹنے والے عہدیدار کا دو سیشنز میں ای میل کے ذریعے انٹرویو لیا گیا ہے۔ یہ عہدیدار رقم کے غیرقانونی بہائو جیسے واقعات سے نمٹتے ہیں؛ چنانچہ شیرپا کی عہدیدار چانپر مینوسز نے بتایا کہ ڈیل کے پریشان کن حقائق میں سب سے اہم یہ ہے کہ ڈیل کے آخری لمحات میں اچانک درمیانی شخص یا ڈیل کروانے والے ادارے کو بدل دیا گیا، ساتھ ہی بھارت میں اپوزیشن اور میڈیا نے رافیل ڈیل میں بدعنوانی اقربا پروری کے الزامات عائد کیے جس کے نتیجے میں ہی سارے معاملے کی تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا گیا اور شیرپا نے اس کیس کو ا?گے بڑھانے کا فیصلہ کیا کیونکہ اسے پتا تھا کہ اس ڈیل کے ذریعے ایسے فریق (درمیانی شخص) کو فائدہ پہنچایا جارہا ہے جس کا وہ مستحق نہیں۔ شیرپا کو اس بات پر حیرت تھی کہ 80 سالہ ایک قدیم قومی کمپنی بھارت ایرونا ٹکس لمیٹڈ جیسے تاریخی آپریٹر کو ایک طرف کردیا گیا اور اس کے مقام پر ایک پرائیوٹ گروپ‘ ریلائنس گروپ کو لایا گیا‘ جسے ایرونا ٹیکل شعبے میں کسی قسم کا کوئی تجربہ نہیں تھا اور ریلائنس کے بارے میں سب سے اہم بات یہ تھی کہ وہ اس وقت معاشی مشکلات کا سامنا کررہی تھی۔ اس کے علاوہ ریلائنس اْس شخص کی ملکیت ہے جو بھارتی وزیراعظم کا بہت قریبی سمجھا جاتا ہے۔ یہ تمام باتیں اس قسم کے مقدمات لڑنے والے فرانسیسی وکیل Mensous نے بتائیں۔
جہاں تک شیرپا کا سوال ہے‘ یہ تقریباً دو دہائیوں سے کام کررہی ہے اور اس سے ایسے قانونی ماہرین وابستہ ہیں جو عالمی سطح پر اقتصادی جرائم اور غیرقانونی معاشی بہائوکا پتا چلاتے ہیں۔ یہ ایسی تنظیم ہے جسے اپنے اکثر مشنز میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ اس نے بے شمار اہم مقدمات جیتے ہیں۔ شیرپا کے لیے خانگی عطیہ دہندگان اور سوئٹزرلینڈ کی ایک فائونڈیشن فنڈز فراہم کرتی ہے، اس فائونڈیشن کا نام چارلس لیوپولڈ مائر فائونڈیشن فار ہیومن کائنڈ (FPH) ہے جو سارے یورپ میں چلائی جانے والی مہذب سماج کی تحریکوں کے لیے فنڈز فراہم کرتی ہے۔ مثال کے طور پر 2020ء میں شام کے سابق نائب صدر رفعت الاسد کو منی لانڈرنگ کے الزامات میں پیرس کی ایک عدالت نے چار سال قید کی سزا سنائی تھی۔ اس کے لیے شیرپا نے 6 سال طویل مہم چلائی تھی۔ سال 2018ء میں پیرس کی ایک عدالت نے فرانس کی بڑی کمپنیوں میں سے ایک سیمنٹ میجر لقارجے کو ایک مقدمہ میں شامل کیا تھا۔ اس پر دہشت گرد نیٹ ورکس کو فنڈز فراہم کرنے کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔ شیرپا نے لقارجے کے ملازمین کی جانب سے اس گروپ کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا اور دو برسوں تک یہ مقدمہ چلتا رہا۔ اب شیرپا نے اپنی توجہ بھارت کی نریندر مودی حکومت اور ڈسالٹ ایوی ایشن کے درمیان 36 رافیل لڑاکا طیاروں کی خرید و فروخت سے متعلق طے پانے والے معاہدے پر مرکوز کردی ہے۔ اس معاہدے پر 2015ء میں دستخط کیے گئے تھے۔یہ ڈیل ابتدا ہی سے تنازعات کا شکار رہی ہے‘ جس وقت ڈسالٹ نے سرکاری ادارے HAL کے بجائے ریلائنس ڈیفنس کو اپنے مقامی مینوفیکچرنگ پارٹنر کی حیثیت سے منتخب کیا۔ ایک فرانسیسی تحقیقاتی ویب سائٹ میڈیا پارٹ نے ستمبر 2018ء میں ایک رپورٹ شائع کی جس میں اس نے لکھا تھا کہ ریلائنس ڈیفنس معاہدے سے صرف 12 دن قبل ہی وجود میں ا?ئی تھی اور اسے لڑاکا طیارے تیار کرنے کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ بہرحال اکتوبر 2018ء میں میڈیا پارٹ کو اس کی تحقیقات کے دوران ڈسالٹ کے داخلی دستاویزات تک رسائی حاصل ہوئی جس میں انیل امبانی کی فرم ریلائنس ڈیفنس کو دیے گئے کنٹریکٹ کو‘ اگر وہ رافیل لڑاکا طیاروں کا آرڈر حاصل کرنا چاہتے ہیں‘ ایک ایسا معاوضہ قرار یا گیا جو لازمی ہے۔
بھارتی اپوزیشن‘ خاص طور پر سابق صدر کانگریس راہول گاندھی نے الزام عائد کیا ہے کہ یہ ڈیل کرپشن کا واضح کیس ہے اور یہ رشوت کنٹریکٹ میں لی گئی۔ راہول گاندھی نے رافیل ڈیل کی تحقیقات کے لیے ایک مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے تحقیقات کا بھی مطالبہ کیا؛ تاہم وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت نے ڈیل میں کسی بھی قسم کی بدعنوانی کی تردید کی اور تحقیقات کرانے کا مطالبہ مسترد کردیا۔ 2018ء میں پارلیمنٹ اجلاس کے دوران اپنے خطاب میں مودی نے رافیل لڑاکا طیاروں کی ڈیل کو دو کمپنیوں کے درمیان نہیں بلکہ دو ملکوں کے درمیان معاہدہ قرار دیا تھاجس میں‘ بقول ان کے‘ مکمل شفافیت کا مظاہرہ کیا گیا۔ Mensous کا کہنا تھا کہ مودی کا ردعمل قطعی طور پر قابل فہم نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومتی معاہدہ درحقیقت ایک ایسا فریم ورک تھا جس نے دو پرائیوٹ اداروں کے درمیان ڈیل کو ممکن بنایا، ورنہ ڈسالٹ ایوی ایشن اور ریلائنس کے تجارتی تعلقات کا ثبوت ختم ہوجاتا۔ یہ ڈیل اس لیے بھی تنازعات کا شکار ہوئی کیونکہ 2012ء میں جو حقیقی رافیل ڈیل تھی، ان منصوبوں کو بھی تبدیل کیا گیا۔ بھارت نے دراصل 126 لڑاکا طیاروں کے لیے ٹینڈر طلب کیے تھے جن میں سے 108 طیارے بھارت میں تیار کیے جانے تھے اور HAL اسے اَسمبل کروانے والی تھی، لیکن مودی حکومت نے ان ٹینڈرز کو منسوخ کردیا اور تازہ ٹینڈرز جاری کیے بغیر ڈسالٹ کو 36 لڑاکا طیاروں کی تیاری کا کنٹریکٹ دے دیا اور یہ تمام کے تمام طیارے فرانس میں بنائے جانے والے ہیں۔ اس طرح قیمتیں بھی پہلے کی قیمتوں سے300 فیصد زیادہ مقررکی گئیں۔ Mensous نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ نئی ڈیل بھارت کے مفاد میں نہیں ہے۔ بہرحال شیرپا جیسی عالمی تنظیم رافیل ڈیل میں ہوئی بے قاعدگیوں کو بے نقاب کرنے اور مجرموںکو کیفرِکردار تک پہنچانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ انیل امبانی کی ریلائنس ڈیفنس کو ڈسالٹ کا مقامی پارٹنر کیوں بنایا گیا۔ بھارت کے قومی ادارے کو اس کام سے کیوں ہٹایا گیا اور کس کے اشارے پر ہٹایا گیا۔ شیرپا ان تمام حقائق کو منظر عام پر لائے گی لیکن ہوسکتا ہے کہ اس کے لیے کچھ برس درکار ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں