سندھ حکومت کے دعوے جھوٹ ثابت، ورلڈ بینک کااربوں کا پروجیکٹ برباد ہونے کا خدثہ
شیئر کریں
(رپورٹ۔اسلم شاہ)کراچی کے نالوں پر سیاست ، انتظامی امور میں اداروں کے مابین منصوبہ بندی نہ ہونے پر ورلڈ بینک کا اربوں روپے کا پروجیکٹ بربادہونے کا خدشہ ہے۔ بلدیہ عظمی کراچی کے 38 اور بلدیاتی اداروں کے 514 چھوٹے بڑ ے نالوں کا کنٹرول صوبائی حکومت نے زبردستی حاصل کررکھا ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے صرف تین نالوں کی صفائی کا ٹھیکہ وفاقی حکومت کے ذریعہ حاصل کیا تھا۔ اب تقریبا سو فیصد نالوں کی صفائی اور35بڑے نالوں سے 43ہزار کیوبک فٹ یعنی دولاکھ ٹن نالوں کا کچرا اٹھانے کا دعویٰ تو کیا جارہا ہے لیکن حالیہ بارش میں سندھ حکومت کے تمام تر بلندبانگ دعووں کے باوجود کراچی ڈوب گیا۔ گھروں میں پانی داخل ہونے سے ہزاروں خاندان برباد ہو چکے ہیں۔ وہ کروڑ وںروپے کے اثاثے اور قیمتی سامان سے محروم ہوچکے ہیں۔ اس کے باوجود صوبائی حکومت کے نت نئے تجربات کی کوشش جاری رکھنے پر شہریوں میں اضطراب اور تشویش پائی جاتی ہے، نالوں سے کچرا اُٹھانے اورٹھکانے لگانے پر اداروں میں باہمی مشاورت کے فقدان اور منصوبہ بندی میں کمی سے ورلڈ بینک کا پورا پروجیکٹ برباد ہونے کا خطرہ ہے۔ کراچی میں دو سرکاری لینڈ فل سائیڈ (جام چاکرو، گنڈپاس) کا کنٹرول بلدیہ عظمی کراچی سے چھین کرچار سال قبل سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کو دے دیا گیا تھا۔ سندھ حکومت کے بعض کرپٹ افسران نے کچرے پر اپنے انتظامی اختیار کے تحت دو حصوں میں ڈمپنگ سائیڈ ڈکلیئر کردی تھی۔ جام چاکرو سرجانی ٹاون کے علاوہ 100ایکٹر پر مشتمل ٹریٹمنٹ پلانٹ ون (TP-1) ہارون آبادشیرشاہ میں ازخود کچرا ڈالنے کا شاہی فرمان جاری کیا۔واضح رہے کہ TP-1کو اپ گریڈکیا جارہا ہے۔ یہ منصوبہ وفاق اور صوبائی حکومت کے 36؍ ارب روپے کے 50فیصد مساوی رقم سے تعمیر کیا جارہا ہے، جس کے اطراف گنجان آبادی اور واٹر بورڈ کے ملازمین کی رہائش گاہیں موجود ہے۔یہاں کچرا تلف کرنے سے پورے علاقوں میں تعفن پھیل گیا۔ اس پرورلڈ بینک پروجیکٹ کے ماہرین کے اعتراضات سامنے نہیں آسکے، پروجیکٹ کے کنسلٹنٹ ٹینکو انٹریشنل کے ماہرین کے اعتراضات سندھ حکومت اس کچرے کے ساتھ دفن کرچکی ہے، سپرٹینڈنٹ انجینئرکراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ منظور کھتری کا کہناتھا کہ ادارے نے کچرا تلف کرنے کی اجازت دی اور نہ اس بارے میں ادارہ ذمہ دار ہے ۔یہ سب پروجیکٹ ڈائریکٹر ایس تھری سے پوچھا جائے کہ انہوں نے کس اختیار سے اجازت نامہ جاری کیا ہے۔ پروجیکٹ ڈائریکٹر ایس تھری حنیف بلوچ نے نمائندہ جرأت کو بتایا کہ انہیں پروجیکٹ کے تعمیرہونے والے30فیصداراضی کا کنٹرول دیاگیا ہے، مکمل زمین بلدیہ عظمی کراچی اور کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی مشترکہ ہے۔ اجازت کا فیصلہ دونوں ادارے کے بڑے بتا سکتے ہیں، تاہم کچرے کو ہمارے کنڈیو ٹ لائن کے بیلٹ میں تلف کیا جارہا ہے جس کو صاف ہونے میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔ انہوں نے نمائندہ جرأت سے بات چیت کرتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ حالیہ بارشوں کے دوران ایس تھر ی TP-1/TP-IIIکے علاوہ لیاری ندی میں تعمیرکنڈیوٹ پر کام بند کردیا گیا ہے جب زمین اور علاقہ خشک ہوگا تو وہان دوبارہ کام شروع کردیا جائے گا۔اس بارے میں صوبائی سیکریٹری بلدیات روشن علی شیخ نے ایک انوکھی خواہش کا اظہار نمائندہ جرأت کے سامنے کیا کہ تلف ہونے والے کچرے کو کھاد اور گندے پانی کو زراعت کے لیے استعمال کیا جائے گا جس سے ادارے کو لاکھوں روپے آمدن کی توقع ہے، اس دوران وہ مذکورہ اراضی پر اجازت نامے کے سوال کو گول کرگئے ،اور بتایا کہ TP-1ہارون آباد پر نصف کچرا تلف کیا گیا ہے اور دیگر کچرا لینڈ فل سائیڈ جام چاکرومیں تلف کیا جارہا ہے ، اس کی مانٹیرنگ نیسپاک کے ذریعہ کی جارہی ہے اس حوالے سے تمام ادارے آن بوڈ ہیں اور کام کی رفتار تیزی سے جاری ہے۔ ماہرین کے مطابق سندھ حکومت نے ایک طرف وفاق کے پروجیکٹ ایس تھری کو خطرے میں ڈال دیا ہے اور دوسری طرف اپنے غلط فیصلوں اور لینڈ سائٹ کے غلط انتخاب سے ماحولیاتی آلودگی کا سنگین مسئلہ پیدا کردیا ہے۔