سول اسپتال پرنجی طبی، رفاہی اداروں کے قبضے نظرانداز
شیئر کریں
سول اسپتال میں قبضہ مافیا سے ایم ایس سول اسپتال کی اسپتال میں واقع رہائش گاہ بھی محفوظ نہیں رہی۔ ایک سرکاری اسپتال میں مختلف نجی طبی اور رفاہی اداروں کے ہر طرف قبضے کو نظرانداز کرنے پر طبی حلقوں میں شدید تشویش پائی جاتی ہے۔ تفصیلات کے مطابق ایم ایس سول اسپتال ڈاکٹر توفیق کی رہائش گاہ کے باہر چھیپا ایمبولینس کا قبضہ ہو چکا ہے۔جبکہ اس سے متصل فٹ پاتھ پر دفاتر، بکروں کا ہال اور پکوان سینٹر قائم ہو گئے ہیں ۔ اس کے دوسرے جانب ایدھی ایمبولینس کا قبضہ دکھائی دیتا ہے۔
چھیپا ایمبولینس کی درجنوں گاڑیاں بھی وہاں کھڑی رہتی ہیں، جس کے باعث مریضوں کے آنے والی سڑک پر گاڑیوں اور افراد کا اژدہام ہوتا ہے ۔اس کے ساتھ ہی اعظم ایمبولینس اور میٹرو لیب بھی یہیں پر ڈیرہ ڈالے ہوئے ہیں۔آواز دستر خوان ، خواجہ غریب نواز دستر خوان ، کوئٹہ مشتاق دسترخوان، سیلانی دستر خوان، چھیپا دستر خوان بھی یہاں پر قائم کردیے گئے ہیں۔جسے دیکھ کر لگتا ہی نہیں کہ یہاں کوئی اسپتال بھی قائم ہے۔
اس کے علاوہ سندھ جنا ح میڈیکل یونیورسٹی لیبارٹری اینڈ بلڈ بینک ، ڈاکٹر عیسیٰ خان لیبارٹری اینڈ بلڈ بینک ، ڈاکٹر ضیاء الدین لیبارٹری اینڈ بلڈ بینک، آغا خان لیبارٹری اورسٹی لیبارٹری اینڈ بلڈ بینک بھی یہاں پر قائم ہیں۔ مریضوں کے ہمدرد طبی حلقے پریشان ہیں کہ اسپتال کی اپنی لیبارٹری ہونے کے باوجود غریبوں کے لیے قائم مفت علاج کے سرکاری اسپتال میں آخر کیوں مہنگے نجی اسپتال کی لیبارٹریز کے لیے گنجائشیں پید اکی گئی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق یہ مہنگی لیبارٹریز خود سول اسپتال کی ملی بھگت سے چل رہی ہیں۔
سول اسپتال کی انتظامیہ اپنی مفت لیبارٹری کی سہولت کے بجائے مریضوں کو نجی لیبارٹریز کی طرف دھکیل دیتی ہیں جو مریضوں کو ہر طرح سے بھنبھوڑتی ہیں۔ جس سے سول اسپتال کی انتظامیہ بھی اپنا کمیشن کھرا کرتی ہے۔ اس طرح ملک کی یہ مہنگی لیبارٹریز عملاً سول اسپتال میں داخل غریب اور مسکین مریضوں کے پیسوں پر چل رہی ہیں۔ کراچی کی یہ مہنگی لیبارٹریز کراچی کے غریب مریضوں پر دانت گاڑے ہوئی ہیں ۔ طبی حلقوں کے مطابق ان مہنگے اسپتالوں کی لیبارٹریز کو کمیونٹی سروس دینی چاہئے جس سے سول اسپتال کے غریب مریضوں کو فائدہ پہنچے مگر عملاً یہ ان غریب مریضوں کو ہی لوٹ رہی ہیں۔ اگر داخل مریضوں کے ریکارڈ کا جائزہ لیا جائے تو ان میں سے بیشتر مریضوں کے ریکارڈ میں دیگر پرائیویٹ لیبارٹریز کی رپورٹیں زیادہ ملیں گی۔ جو اس بات کاثبوت ہے کہ اس میں خود اسپتال کی انتظامیہ ملوث ہے۔