تبدیلی کا پیغام یہ ہے ۔۔
شیئر کریں
حمیداللہ بھٹی
رواں ماہ چارجولائی کومنعقد ہونے والے برطانوی انتخابات ایسی تبدیلی کا پیغام لیکر آئے جس سے کنزرویٹو کا چودہ سالہ اقتدار ختم ہو گیا ہے ۔لیبر پارٹی نے کُل 650 میں سے 412نشستیںجیت کر ایسی انتخابی فتح حاصل کی ہے کہ کسی جماعت کی محتاج نہیں رہی بلکہ بلا شرکت غیرے حکومت تشکیل دے سکتی ہے کیونکہ حکومت سازی کے لیے 326نشستیں درکار ہوتی ہیں گزشتہ عام انتخابات میں لیبر پارٹی کو202 نشستیں ہی لے سکی تھی ۔حالیہ عام انتخابات میں پانچ کروڑ سے زائد ووٹرز نے حقِ رائے دہی استعمال کیا۔ مزید خاص بات یہ کہ اراکین تو ایک طرف 9وزراء بھی دوبارہ منتخب ہونے میں ناکام رہے۔ اِس طرح انھوں نے اپنی ہی جماعت کا1997کاوہ ریکارڈ توڑ دیا جب سات وزراشکست کھاگئے گزشتہ الیکشن سے موجودہ انتخاب میں کنزرویٹوکو 244 نشستیں کم ملی ہیں، ویسے توہونے والے سروے لیبر پارٹی کی جیت کی طرف اِ شارہ کررہے تھے۔ اسی لیے جیت زیادہ حیران کُن نہیں موجودہ تبدیلی کا پیغام ہے کہ برطانیہ کے لوگ مضبوط اور مستحکم حکومت چاہتے ہیں۔
شکست کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے رشی سونک نے وزیرِ اعظم کا منصب چھوڑنے ، عوام سے معافی طلب کرتے ہوئے جماعتی عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے جبکہ شاہ چارلس سوم نے لیبرپارٹی کی شاندار فتح پر ملاقات کے دوران کیئرسٹامرکو وزیراعظم مقرر کرتے ہوئے انھیںحکومت بنانے کی دعوت دی جسے قبول کر لیا گیا۔ انتخابی نتائج میں برطانوی عوام کالیبر پارٹی کو بھاری اکثریت سے ووٹ دینا ظاہر کرتا ہے کہ لوگ تبدیلی اور سیاسی استحکام چاہتے ہیں ،آئے روزحکومتی ٹوٹ پھوٹ کو ناپسندکرتے ہیں۔ اب نئے وزیرِ اعظم نے نہ صرف اپنے اقدامات سے ثابت کرنا ہے کہ عوامی فیصلہ درست ہے بلکہ یہ بھی ثابت کرنا ہے کہ وہ کنزرویٹوسے زیادہ عوامی مسائل سمجھنے اور انھیں حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر وہ بھاری اکثریت کے باجودٹیکس کم رکھنے اورامیگریشن جیسے بڑے مسائل حل کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو امکان ہے کہ عوام کوئی نیا تجربہ کرنے کاسوچنے لگیں تبدیلی کا پیغام یہی ہے کہ عوامی مزاج کے منافی پالیسیوں سے پرہیز کیا جائے۔
برطانوی ووٹروں نے لبیرپارٹی کو فیصلہ کُن اکثریت دیکر اِس خواہش کا اظہار تو کردیا ہے کہ وہ ایک ایسی مضبوط حکومت کے خواہشمند ہیں جو ملک کو درپیش داخلی اور خارجی مسائل سے نکالنے کے لیے دلیرانہ فیصلے کر ے مگر ماہرین کوووٹ کاسٹ کرنے میں آنے والی گراوٹ کا پہلوکھٹک رہا ہے۔ ابتدائی تخمینے کے مطابق اِس بار ٹرن آئوٹ 59.9رہنے کا امکان ظاہر کیا گیا تھا جوگزشتہ دو دہائیوں میں سب سے کم ترہے ۔حالانکہ خراب حالات کے باوجود2019میںووٹ کاسٹ کرنے کی شرح 67.3رہی کمی کے اسباب معلوم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ووٹروں کو راغب کرنے کے ساتھ ووٹ کاسٹ کرنے کی اہمیت سے آگاہ کرنے کی سیاسی جماعتوں نے بروقت کوشش نہ کی تو یہ گراوٹ مزید بڑھ سکتی ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ ٹرن آئوٹ کم رہنے کی ایک اہم وجہ کنزرویٹوکے ووٹروں کی مایوسی ہے جس کی وجہ سے انھوں نے ووٹ ڈالنے کے عمل سے پہلو تہی کی شاید اسی لیے کہا جارہاہے کہ لیبرپارٹی جیتی نہیں بلکہ کنزرویٹوہاری ہے ویسے تو سیاستدان کبھی اپنی شکست خوشدلی سے تسلیم نہیں کرتے مگر برطانوی معاشرہ اِس حوالے سے فراخ دل ہے فتح مندہونے والے کو ہارنے والا بخوشی مبارکباد دیتااور شکست تسلیم کرتا ہے یہ خوبی برطانیہ کو دیگر جمہوری ممالک سے ممتاز کرتی ہے۔
بڑی جماعتوں میں ٹوٹ پھوٹ یا اندرونی رسہ کشی انہونی نہیں لیکن کنزرویٹونے بطور جماعت اقتدار کے دوران نہ صرف بُری کارکردگی کا مظاہرہ کیا ٹیکس اور امیگریشن جیسے مسائل حل کرنے کے لیے نتیجہ خیز اقدامات میں ناکام اور خارجی امور میں عوامی پسندکے منانی فیصلے کیے بلکہ یہ جماعت بدترین اندرونی رسہ کشی کا بھی شکاررہی جس سے ووٹر بدظن ہوتاگیا۔ اب بھی قرین قیاس یہی ہے کہ موجودہ حکومت خارجی محاذ پر کوئی بڑی تبدیلی نہیں لائے گی ۔روس کی طرف سے کسی قسم کا ابہام رکھے بغیر کہہ دیا گیا ہے کہ لیبرپارٹی کی جیت کے بعد بھی برطانیہ دشمن ملک ہی رہے گا مگر جارح قوتوں کو اسلحہ سپلائی اور پھراسرائیل میں اسلحہ سے بھرے جہاز کے اندر تصویر بنوانے جیسا عمل شایدنہ دہرایا جائے کیونکہ غزہ پر حملوں کے دوران اسرائیل بچوں ،بوڑھوںاورخواتین میںتمیز کیے بغیر ماررہا ہے۔ اِس پرملک میں بڑے بڑے مظاہرے بھی ہوئے۔ میئر لندن صادق خان کی دوبارہ جیت کی ایک وجہ مسلم ہونے کے ساتھ مظلوم فلسطینیوں کی حمایت ہے لیکن کنزر ویٹو قیادت عوامی غم وغصے کا ادراک کرنے میں ناکام رہی اور اب شکست کے لگے زخم سہلا رہی ہے۔ چاہے نئے وزیرِ اعظم کیئر سٹامرخارجہ پالیسی میں کوئی بڑی تبدیلی نہ لائیں۔ البتہ یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ رشی سوناک کی طرح جنونی انداز اختیار نہیں کریں گے ۔
کنزرویٹوکی شکست کے اسباب جانناکوئی مشکل نہیں۔اِس جماعت کواندرونی رسہ کشی لے بیٹھی ہے قیادت کی رسہ کشی کو ووٹروں نے اِس حد تک ناپسند کیا کہ اُنچاس روز وزیرِ اعظم کے منصب پر فائز رہنے والی ملک کی معروف سیاستدان لزٹرس کولیبرپارٹی کے ٹیری جیرمی نے باآسانی ہرادیا۔ بظاہر رشی سوناک اپنی نشست بچانے میں کامیاب ہوگئے ہیں لیکن یہ جیت بھی کب تک برقرار رہتی ہے یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا جب تک کنزرویٹواپنی اندرونی رسہ کشی اور خلفشارپر قابونہیں پانی تب تک اِس جماعت کا بدظن ووٹر راضی نہیں ہو سکتااور نہ اقتدار میں آنے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے ۔
رشی سوناک کی امیگریشن پالیسیاں بھی جماعت کوڈبونے کا باعث بنیں بھارت جیسے ممالک سے ترجیحی نوازشات لیکن ضرورت مند مہاجرین سے نارواسلوک نا پسند کیاگیاانتخاب سے چند روز قبل محض تارکینِ وطن کے مخالفین کی خوشنودی کے لیے رشی سوناک نے سیاسی پناہ کے خواہشمندکچھ افراد کو روانڈابھیجنے کا وعدہ کیا اورفنڈز بھی جاری کردیے۔ اِس فیصلے پرملک بھرمیں شدید تنقیدکی گئی لیکن یہ کہہ کر فیصلہ بدلنے سے انکار کردیاگیا کہ ایسے فیصلوں سے ہی لوگوں کو چھوٹی کشتیوں سے انگلش چینل عبورکرنے سے روکا جا سکتاہے ۔لیبرپارٹی نے برقت عوامی مزاج بھانپااور اقتدار ملنے کی صورت میں یہ منصوبہ ختم کرنے کا اعلان کیا۔ علاوہ ازیںکشمیر اور غزہ مسائل پر سفاکانہ رویہ مزید نفرت کا موجب بنا ۔اسی بناپر قبل ازوقت انتخابات کرانے کی چال بھی کامیاب نہ ہو سکی اور کنزرویٹو کے چودہ سالہ اقتدارکا سورج غروب ہو گیا۔ آٹھ برسوں میں پانچ وزرائے اعظم کی تبدیلی پر ایک طرف اگر ووٹروں کو تشویش تھی تو عالمی تنائو کے دوران برطانیہ کا جارح قوتوں کے ساتھ کھڑے ہونے کو ملکی مفادکے لیے خطرات بڑھانے کا باعث سمجھا گیاجس سے ووٹروں میںمزید پانچ برس ایسی جماعت کا اقتدار برداشت نہ کرنے کی سوچ پختہ ہوئی جو لیبر پارٹی کوبھاری اکثریت دلانے کا موجب بن گئی۔