’’بلے ، بلے‘‘۔۔
شیئر کریں
علی عمران جونیئر
دوستو، نیوزی لینڈ کے خلاف چوتھے ایک روزہ میچ میں کامیابی کے بعد پاکستان نے آئی سی سی ون ڈے رینکنگ میں پہلی پوزیشن حاصل کرلی۔ 2005 میں آئی سی سی رینکنگز کے باضابطہ اجراء کے بعد پاکستان پہلی مرتبہ آئی سی سی ون ڈے رینکنگ میں پہلی پوزیشن پر آیا ہے۔پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان پانچ میچز پر مشتمل ون ڈے سیریز کے آغاز سے قبل پاکستان کی رینکنگ پانچویں تھی، سیریز میں شاندار پرفارمنس کے ساتھ پاکستان نے نیوزی لینڈ کے خلاف اپنے ابتدائی چاروں میچز جیت کر پہلی پوزیشن حاصل کرلی ۔پاکستان فی الحال آسٹریلیا اور انڈیا کے خلاف ڈیسیمل پوائنٹس پر آگے ہے،تاہم مئی کے وسط میں ون ڈے رینکنگ کی سالانہ اپ ڈیٹ کے بعد رینکنگ میں رد و بدل ہوسکتا ہے۔چوتھے ون ڈے میں فتح کے بعد پاکستان کے مجموعی ریٹنگ پوائنٹس 113.483 ہوگئے ، آسٹریلیا کے ریٹنگ پوائنٹس 113.286 جبکہ انڈیا کے ریٹنگ پوائنٹس 112.638 ہیں۔آئی سی سی کی آفیشل ون ڈے رینکنگ جنوری 2005 میں شروع ہوئی، رینکنگ کے بانی، اعداد و شمار کے برطانوی ماہر ڈیوڈ کینڈکس کے تیار کردہ فارمولے کو پچھلی تاریخوں میں بھی اپلائی کیا گیا تھا تاکہ ماضی میں ٹیموں کی پوزیشنز کا اندازہ لگایا جاسکے۔اس فارمولے کو ماضی میں اپلائی کرتے ہوئے اگر دیکھا جائے تو پاکستان آخری مرتبہ اگست 1991 میں پہلی پوزیشن پر رہا تھا تاہم اس پوزیشن کی کوئی آفیشل حیثیت نہیں۔رینکنگ کے اجراء کے بعد سے پاکستان کی بہترین پوزیشن تیسری رہی ہے۔
قومی کرکٹ ٹیم پانچ مئی کو ون ڈے رینکنگ پر پہلے نمبر پر آئی، کیوں کہ چوتھا ون ڈے یہ اسی روز جیتی تھی، لیکن سات مئی کوہونے والے پانچویں ون ڈے میں گرین شرٹس ہار گئے،جس سے ہماری ٹیم پھر تیسرے نمبر پر آگئی اور آسٹریلیا پہلے نمبر پر آگیا۔ بلے کی بلے بلے صرف دو روز ہوسکی۔ ہم نے جب باباجی سے یہ اعدادوشمار شیئر کیے تو حسب عادت انہوں نے جیب سے سگریٹ کا پیکٹ نکالا، اس میں موجود تین سگریٹوں میں سے ایک باہر نکالی،سگریٹ کو آگے سے زبان سے گیلا کیا،فلٹر والی سائیڈ منہ میں لگائی، ماچس کی تیلی سے اسے سلگا کرلمبا سا کش بھرا۔۔پھر ترچھی نظروں سے ہمیں دیکھتے ہوئے تھوڑا سا مسکرائے اور کہنے لگے۔۔ بیٹا ٹیم پہلے نمبر پر کیا آئی اتنا شور مچادیا۔۔ہماری قومی ہاکی ٹیم سالہا سال پہلے نمبر پر رہی، لیکن آج اگر کسی نوجوان سے یہ پوچھ لو کہ ہاکی ٹیم نے آخری میچ کب جیتا تھا،کسی کو پتہ نہیں ہوگا۔یہی نہیں، اسکوائش میں ہمارے کھلاڑی کئی کئی برس لگاتا ر پہلے نمبر پر رہے اور اسکوائش کے حوالے سے تو معاملہ یہاں تک ہوگیا تھا کہ ہمارے کھلاڑیوں کے ہارنے کی خبر ہمیں چونکاتی تھی،ورنہ جیتنے کی خبروں کو تو عوام اہمیت ہی نہیں دیتی تھی۔۔
بیشک ہم کرکٹ کو ایک کھیل کے طور پہ ہی جانتے ہیں،لیکن یہ گیم اس سے بڑھ کے ہے۔کرکٹ کو رائل گیم بھی کہا جاتا ہے،اس کی وجہ یہ کہ لمبے عرصے تک کرکٹ انگلینڈ کی رائل فیملیز کے نوجوان ہی کھیلتے تھے، شاید اس لیے بھی کہ یہ ایک مہنگا کھیل ہے جس کے لیے وسائل کی بھی ضرورت پڑتی تھی،لیکن اس کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے وہ یہ کہ کرکٹ واحد گیم ہے جس میں فیصلہ سازی کا بہت زیادہ کردار ہے۔رائل فیملیز کے نوجوانوں کو کرکٹ اس لیے بھی کھلائی جاتی تھی تا کہ ان میں قائدانہ صلاحیت اجاگر ہو اور ان میں فیصلہ سازی کی قوت بڑھے۔ٹیسٹ میچ لمبے ہونے کی بھی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ حالات میں تغیر کے مطابق فیصلہ سازی کا عمل چلتا رہے۔اس کے علاوہ کرکٹ کا کھیل سخت محنت، جسمانی طاقت، برداشت، دباؤ کا سامنا کرنا، آخری دم تک لڑنا اور مشکل حالات میں ابھرنے کی قوت کو بھی بڑھاتا ہے۔خاص طور پر کرکٹ میں کپتان کا کردار باقی کھیلوں کی نسبت بہت وسیع ہے جب وہ عموما ایک لیڈر کا کردار ادا کر رہا ہوتا ہے۔اس لیے اپنے بچوں کو کرکٹ کھیلنے پہ راغب کرنا ان کی بہتر جسمانی اور ذہنی نشونما میں مددگارثابت ہوتا ہے۔
کرکٹ کے شوقین ہمارے دوست کے امتحانات ہورہے تھے اور المیہ یہ تھا کہ ورلڈ کپ کے میچز بھی ٹی وی پر آرہے تھے، پیپرز کے دنوں میں والدین نے سختی کی ہوئی تھی کہ خبردار،ٹی وی دیکھنا صحت کے لئے مضر ہے۔۔ ایک دن انہوں نے ہمت کرکے اپنی والدہ محترمہ سے پوچھ ہی لیا۔۔امی جان، پڑھ پڑھ کر تھک گیا ہوں، تھوڑی دیر ٹی وی دیکھ لوں۔۔امی نے جواب دیا۔۔دیکھ لو، لیکن ’’آن‘‘ نہیں کرنا۔۔کرکٹ ٹیسٹ میچ ہو رہا تھا ،اسٹیڈیم کے گیٹ پر ایک لڑکا پاس دکھا کر اندر جانے لگا تو گیٹ کیپر نے کہا۔۔یہ تمھارا پاس تو نہیں ہے۔۔ لڑکے نے جواب دیا۔۔یہ میرے والد صاحب کا ہے۔۔ گیٹ کیپر نے پوچھا۔۔ تو پھر والد صاحب کیوں نہیں آئے؟؟۔۔۔ لڑکے نے جواب دیا۔۔وہ بہت مصروف ہیں۔۔ گیٹ کیپر نے پوچھا۔۔کہاں مصروف ہیں؟ وہ کیا کر رہے ہیں؟۔ بچے نے جواب دیا۔۔’’وہ گھر پر اپنا پاس تلاش کر رہے ہیں‘‘۔شوہر نے بیوی کے سامنے بے تحاشا قہقہے لگاتے ہوئے کہا۔۔اپنے حمید صاحب کی بیگم بھی خوب ہیں۔۔ہم کرکٹ کے کوچ کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے۔۔ہماری گفتگو سن کر وہ یہ سمجھیں کہ کوچ کے چار پہیے ہوتے ہیں۔یہ کہہ کر وہ ایک بار پھر قہقہے لگانے لگے۔۔ان کی بیوی بھی قہقہے لگانے میں شریک ہو گئیں۔۔دونوں میاں بیوی جب دل کھول کر ہنس چکے تو بیوی نے سرگوشی کے انداز میں شوہر سے پوچھا۔۔ اچھا تو کرکٹ کے کوچ میں کتنے پہیے ہوتے ہیں۔
پاکستانی کرکٹ ٹیم کی ہمیشہ سے ناقابل بھروسہ والی کارکردگی رہی ہے۔کبھی کبھی تو اچانک حیران کردیتی ایسی کارکردگی دکھاتی ہے اور کبھی کبھی پریشان کردیتی ہے کہ ٹیم نے یہ کیسا گندا کھیلا۔ ایک وقت تھا کہ یہ ٹیم دعا اور دھکے سے چلتی تھی۔گزشتہ سال ہونے والے ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی مثالیں سامنے ہیں۔بھلا اس سے کیا توقعات اور امیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں اور اس سے خاک محبت کی جا سکتی ہے؟ لیکن ان سب کے باوجود کرکٹ اب ہمارا قومی کھیل بن چکا ہے۔دو کرکٹر آپس میں باتیں کرتے ہوئے۔پہلے نے دوسرے سے سوال کیا۔۔تمہارا سب سے زیادہ اسکور کیا رہا؟۔۔ دوسرے نے جواب دیا۔ 149، ناٹ آؤٹ۔پہلے نے جواب سن کر فوری کہا۔۔ارے، میرا سب سے زیادہ اسکور 154 ناٹ آؤٹ ہے۔ اچھا یہ بتاؤ باؤلنگ میں تمہارا ریکارڈ کیا رہا؟۔۔اس بار پہلے نے کہا۔۔اس دفعہ پہلے بتانے کی تمہاری باری ہے۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔گاڑی کی ونڈاسکرین سمجھ لیں آپ کا مستقبل ہے اور بیک ویو مرر آپ کا ماضی، اس لئے صرف آگے دھیان دیں اگر منزل تک پہنچنا ہے۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔