دارالامان سے بھی ’’امان‘‘ رخصت ہوئی
شیئر کریں
چونکہ ایک طویل عرصہ تک پاکستان پیپلزپارٹی کی باگ دوڑ بے نظیر بھٹو شہید کے پاس رہ چکی ہے۔شاید یہ ہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ جس کے باعث ماضی میں پاکستان پیپلزپارٹی نے ملک بھر میں خواتین کی سماجی ترقی اور بہبود کو یقینی بنانے کے لیے کئی فقیدالمثال اقدامات اُٹھائے۔ یادرہے کہ بے نظیر بھٹو شہید چونکہ خود بھی ایک خاتون تھی ،لہٰذا انہیں پاکستانی معاشرے میں خواتین کو درپیش مسائل و آلام کا زیادہ بہتر ادراک اور شعور حاصل تھا۔ بے نظیر بھٹو شہید نے پاکستان بھر میں خاص طور پر سندھ میں گھریلوتشددیا کسی دیگر سانحہ کا شکار ہونے والی بے گھر اور لاوارث خواتین کے لیئے مثالی سہولیات سے آراستہ دارلامان کے قیام میں ہمیشہ خصوصی دلچسپی لی۔مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ حالیہ دنوں سندھ حکومت کی عدم توجہ کی بناء پرصوبہ بھر میں قائم سرکاری سرپرستی میں چلنے والے دارالامان بڑی تیزی کے ساتھ اپنی افادیت کھوتے جارہے ہیں اور کافی عرصے سے تواتر کے ساتھ دارلامان میں مجبور و مقہور خواتین کے ساتھ مبینہ زیادتیوں کی خبریں سامنے آرہی ہیں ۔ایسی ہی ایک ہولناک اور دل ہلادینے والی خبرگزشتہ دنوں دارلامان سکھرکے متعلق میڈیا میں زیرگردش ہے کہ جس میں دارلامان سکھر میں پناہ لینے والی خاتون کے ساتھ مبینہ زیادتی کا انکشاف ہوا ہے۔
واضح رہے کہ متاثرہ خاتون نے سندھ ہائی کورٹ کراچی بینچ کو تحریری خط کے ذریعے زیادتی کے حوالے سے ایک درخواست دائر کی تھی۔جس پر فوری کارروائی کرتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ کراچی کے حکم پر سیشن جج سکھر نے انکوائی کی۔عدالتی انکوائری میں دارالامان میں رہائش پزیر 8 خواتین کے بیانات قلمبند کیے گئے ۔جس میں خواتین نے بتایا کہ متاثرہ خاتون کا دماغی توازن درست نہیں ہے اور خاتون کی اسی جسمانی معذوری کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے دارالامان کے کلرک نے کئی بار مذکورہ خاتون سے زیادتی کی۔جبکہ زیادتی کرنے والا دارلامان کا کلرک ہمارے احتجاج پر ہمیں جان سے مار نے کی دھمکیاں بھی دیتا تھا‘‘۔گو کہ سندھ ہائی کورٹ کراچی بینچ کے اُحکامات پر ملزم شریف مغل کو گرفتار کرکے سرکار کی مدعیت میں تھانہ سی سیکشن میں مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔ مگر اس سارے واقعے کا سب سے تاریک اور بھیانک پہلو یہ ہے کہ متاثرہ خاتون کو انصاف کے لیئے سندھ ہائی کورٹ کراچی سے رجوع کرنا پڑا ۔حالانکہ اُصولی طور پر خواتین کو حقوق فراہم کرنے کی دعو ی دار پاکستان پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت کی بنیادی ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ متاثرہ خاتون کے عدالت میں پہنچنے سے قبل ہی اُسے انصاف فراہم کرنے کے لیئے اپنی انتظامی طاقت کو استعمال کرتی۔
حیران کن بات تو یہ ہے کہ ابھی چند برس قبل ہی دارالامان و سیف ہاؤسز کو سندھ حکومت کی جانب سے محکمہ ترقی نسواں سندھ کے سپرد کردیا گیا تھا۔ اس سے قبل یہ دونوں ادارے محکمہ سماجی بہبود کے پاس ہواکرتے تھے۔صوبہ بھر کے دارلامان اور سیف ہاوسز کو محکمہ ترقی نسواں سندھ کے سپرد کرنے کی وجہ یہ بتائی گئی تھی ۔ اس طرح اِن اداروں کے انتظامی معاملات زیادہ بہتر اور شفاف ہوجائیں گے۔ بظاہر ایسا ہونا عین قرین قیاس لگتا بھی تھا کیونکہ صوبائی وزیر ترقی نسواں کا منصب سیدہ شہلا رضا کے پاس ہے اور اُن کی موجودگی میں سب ہی کو قوی یقین تھا کہ صوبہ سندھ میں قائم تمام دارلامان اور سیف ہاؤسز میں جلد ہی انقلابی بہتری دیکھنے میں آئی گی اور یہاں پناہ لینے والی خواتین زیادہ محفوظ اور پرسکون زندگی بسر کرسکیں گی۔ یاد رہے کہ سیدہ شہلا رضا نے دارلامان و سیف ہاؤ سز کو محکمہ نسواں سندھ کے سپرد کی جانے والی تقریب کے موقع پر اِس انضمام کو انتہائی خوش آئند قراردیتے ہوئے کہا تھا کہ’’ ہمارا عزم ہے کہ محکمہ ترقی نسواں میں شامل ہونے والے اداروں کو مکمل خوش اسلوبی سے چلائیں۔ویسے بھی ان اداروں کا آپسی تعلق بنتا ہے۔کیونکہ خواتین کے امور سے متعلق بیشتر مقدمات میں دونوں اداروں کے درمیان فاصلے سے کئی بار پریشانی کا سامنا رہتا تھا تاہم اب ان اداروں کے انضمام سے باہمی رابطہ مزید مضبوط ہوگا اور تمام کام بآسانی انجام تک پہنچانے میں ممکنہ انتظامی رکاوٹیں دور ہوجائیںگی ‘‘۔لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ محترمہ سیدہ شہلا رضا صاحبہ کا کوئی بھی دعوی سچ ثابت نہ ہوسکا اور سندھ میں دارلامان و سیف ہاؤسز کے انتظامی معاملات بہتر ہونے کے بجائے مزید ابتری کی جانب گامزن ہیں۔ جس کا ایک واضح ثبوت دارلامان سکھر میں خاتون کے ساتھ مبینہ زیادتی کا ہونے والاحالیہ افسوس ناک واقعہ ہے۔
شاید اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سندھ حکومت کے وزراء اپنی وزارتوں کے انتظامی معاملات بہتر کرنے کے بجائے اپنی سیاست چمکانے میں زیادہ مصروف ہیں ۔جبکہ پیپلزپارٹی کی اعلی قیادت کی توجہ کا بھی اصل مرکز صوبہ میں انتظامی ترقی کے بجائے سیاسی جوڑ توڑ ہی ہے۔اس حوالے سے گزشتہ دنوں سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی سندھ حکومت کی خوب سرزنش کی ہے۔دراصل سپریم کورٹ میں کورونا وائرس ازخودنوٹس کی سماعت کے دوران حکومت سندھ نے تعلیم، صحت اور دیگر شعبوں پر اخراجات سے متعلق اپنی رپورٹ جمع کرائی تھی۔جسے چیف جسٹس نے غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل سندھ سے کہا کہ ’’حکومت سندھ نے اپنی رپورٹ میں تعلیم، صحت اور دیگر شعبوں میں خطیر رقم کرنے کا ذکر کیا ہے، جتنے پیسے آپ نے خرچ کرنے کا بتایا ہے سندھ کو تو پیرس بن جانا چاہئے تھا، سندھ حکومت کی رپورٹ کے مطابق سندھ میں 2013 اور 2017 میں تعلیم پر2006 ملین امریکی ڈالر خرچ ہوئے، اس طرح تو سندھ کے تعلیمی اداروں کو ہارورڈ بن جانا چاہئے تھا، جتنا پیسہ خرچ کیا جا چکا ہے ،اَب تک تو سندھ میں اسکولوں کی صورت میں محلات تعمیر ہو جانے چاہئے تھے اور شرح تعلیم سو فیصد تک پہنچ جانی چاہئے تھی‘‘۔چیف جسٹس ،سپریم کورٹ آف پاکستان کے یہ ریمارکس سندھ حکومت کی انتظامی کارکردگی کا نوحہ ہیں۔ لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے پاکستان پیپلزپارٹی کو احساس ہی نہیں ہے کہ سندھ کی خلق ِ خدا ’’غائبانہ ‘‘ طور پر اُسے کیا کہتی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭