میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
چین امریکا تعلقات پر جنگ کے سائے

چین امریکا تعلقات پر جنگ کے سائے

ویب ڈیسک
اتوار, ۱۰ مئی ۲۰۲۰

شیئر کریں

کیا تاریخ کے ماتھے پر کوورنا وائرس،چین امریکا جنگ کا ایک اشارہ بننے جارہا ہے؟ آثار نمایاں ہیں۔امریکا نے چین مخالف ایک وسیع اور محیط تر ہائبرڈ جنگ کو کورونا وائرس سے منسلک کرکے تیز رفتار بنا دیا ہے۔ کچھ سرے پکڑتے ہیں۔
چین کی اعلیٰ انٹلیجنس کی جانب سے ایک رپورٹ صدر شی جن پنگ کو پیش کی گئی ہے، رپورٹ کورونا وائرس کے حوالے سے دنیا بھر میں چین کے خلاف اُبھارے گئے جذبات سے متعلق ہے اور امریکا کے ساتھ کسی بھی فوجی تنازع کے خطرے کو ظاہر کرتی ہے۔ رپورٹ کے ماحصل کے طور پر یہ لکھا گیا ہے کہ چین کے خلاف پائے جانے والے جذبات 1989ء میں تیان مین اسکوائر میں ہونے والے قتل عام سے بھی زیادہ شدید ہیں۔ تیان مین اسکوائر قتل عام کو جون چارواقعے کے علاوہ 89کی جمہوری تحریک بھی کہا جاتا ہے۔ یہ تحریک 15/ اپریل کو شروع ہوئی تھی اور ایک ماہ دو ہفتے جاری رہ کر 4/جون کو مارشل لاء کے نفاذ اور ہزاروں لوگوں کے قتل عام پر منتج ہوئی تھی۔افراطِ زر،کرپشن اور اقربا پروری کے خاتمے اور معاشی اصلاحات کے مطالبات سے مزین تحریک قتل عام کے انجام سے دوچار ہونے کے بعد جتنے خطرناک جذبات پیدا کرسکتی تھی، اُس سے کہیں زیادہ شدید جذبا ت درحقیقت چین کے خلاف مغربی دنیا میں اُبھار دیے گئے ہیں۔ رپورٹ اس کا پوری طرح احاطہ کرتی ہے۔ یہ چینی انٹیلیجنس یعنی منسٹری آف اسٹیٹ سیکورٹی(ایم ایس ایس) سے وابستہ ایک تھنک ٹینک”چائنا انسٹی ٹیوٹ آف کنٹیمپرری انٹرنیشنل ریلیشنز“کی جانب سے تیار کی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں جس بدترین منظر کی پیش بینی کی گئی ہے وہ کورناوائرس پھیلنے پر بیجنگ کے ابتدائی ردِ عمل کے تنازع میں امریکا اور چین کے مابین براہِ راست فوجی تصادم کے خطرے سے متعلق ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین پر وائرس پھیلانے کے علاوہ اس کے متعلق اصل معلومات چھپانے، ہلاکتوں کی تعداد میں ردوبدل کرنے اور کورونا وبا کے متاثرین کی مکمل تعداد مخفی رکھنے کے الزامات لگائے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ مسلسل چین پر الزام باری کررہی ہے۔ سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو کی اے بی سی ٹیلی ویژن سے گفتگو خطرے کی گھنٹی کی طرح لگ رہی ہے جس میں وہ حکمران کمیونسٹ پارٹی کو دنیا بھر میں کورونا وائرس پھیلنے کا براہ راست ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ ایک سے زائد مرتبہ دوٹوک طور پر کہہ چکے ہیں کہ ہم چین کو اس کا جوابدہ ٹہرائیں گے، اور یہ ایسے وقت پر کریں گے جو ہمارا اپنا طے کردہ ہو۔
امریکا اور برطانیا میں مختلف ذرائع ابلاغ کے ذریعے یہ مقدمہ تیار کیا جارہا ہے کہ عالمی عدالت میں چین کو کورونا وائر س کے حوالے سے ذمہ دار ٹہرا کر بھاری معاوضے وصول کیے جائیں۔ ظاہر ہے کہ یہ صورتِ حال بارِ دگر ایک جنگ کا موجب بن سکتی ہے۔ اس کا جواب چین بھی اپنے ذرائع ابلاغ سے دے رہا ہے۔ امریکا کی جانب سے چین کے خلاف جاری مختلف محاذوں کو چین نے جوابی طور پر للکارا ہے۔ چین کے سرکاری میڈیا نے گزشتہ روز بھرپور جوابی وار میں کہا ہے کہ امریکا اگر چین کے خلاف کورونا وائرس کے حوالے سے عالمی عدالت میں معاوضے کے لیے رجوع کرے گا تو پھر امریکاکو 1980 کے اواخر اور 1990ء کے اوائل میں ایڈز پھیلانے اور 1918ء میں ہسپانوی فلو پھیلانے کے طور پر جوابدہ بنانا چاہئے۔ چینی اخبار گلوبل ٹائمز نے 2008 ء کے بین الاقوامی مالیاتی بحران پر بھی انگلی اُٹھائی جو امریکا کی وجہ سے رونما ہوا اور جس میں بہت سے کاروباری ادارے تباہ اور ان گنت انفرادی کاروبار ختم ہوگئے تھے۔ اس تناظر میں یہ آواز بھی اُٹھ رہی ہے کہ امریکا کو گزشتہ برسوں میں شروع کی جانے والی جنگوں کا ذمہ دار بھی ٹہرا یا جانا چاہئے، جس میں لاکھوں بے گناہ زندگی کی بازی ہار بیٹھے اور اربوں کی املاک تباہ ہوئیں۔ چینی ذرائع ابلاغ نے امریکا کو خبردار کیا ہے کہ اگر اس طریقے سے امریکی کام کریں گے تو یہ ایک پنڈورا بکس کھولنے کے مترادف ہوگا۔ جس کے نتیجے میں دنیا میں ممالک کی خود مختاری کا کوئی مطلب باقی نہیں رہے گا اور ایڈز کا ہر مریض اپنے اپنے ملک میں امریکا کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرتے ہوئے معاوضے کا مطالبہ کررہا ہوگا۔ یہ باتیں ایک ایسے موقع پر سننے کو مل رہی ہیں جب مختلف امریکی ریاستوں نے چین کے خلاف قانونی مقدمات قائم کردیے ہیں،جس کی سماعت عالمی عدالت انصاف میں کی جائے گی۔ اس سے قبل اس طرح کے معاملات میں کامیابی کی کوئی مثال موجود نہیں۔ ریاستوں کو حاصل خودمختاری کا قانون اس قسم کے معاملات میں ایک ڈھال ہوتا ہے۔ کیا امریکا ایک نئی مثال قائم کرنے میں کامیاب ہوجائے گا؟
امریکا نے2016 ء میں ایک قانون منظور کیا تھا جس کے تحت امریکیوں کو نو گیارہ کے حملوں سے متعلق ہرجانے کے لیے سعودی عرب کی حکومت پر مقدمہ چلانے کی اجازت دی گئی تھی۔ کانگریس اسی طرح کی قانون سازی کی طرف پیش قدمی کررہی ہے، جس سے چین کے خلاف کارروائی کی راہ ہموار ہوگی۔ ریاست میسوری، عوامی جمہوریہ چین کے بجائے حکمران جماعت یعنی کمیونسٹ پارٹی پر مقدمہ چلانے کی تگ ودو میں ہے۔ ایسا شاید ممالک کو حاصل خود مختاری کے تحفظ کو پھلانگنے کے لیے سوچا گیا ہو۔ کیونکہ کمیونسٹ پارٹی عوامی جمہوریہ چین کا کوئی عضو یا سیاسی ذیلی حصہ نہیں، اور نہ ہی یہ عوامی جمہوریہ چین کہلاتی ہے، اس طرح وہ ممالک کے خودمختاری کے استثنیٰ کا تحفظ نہیں رکھتی۔ مگر یہ ایک مسئلہ پھر بھی رہے گا، کہ کسی حکومت کے بجائے ایک سیاسی جماعت کو کس بنیاد پر ذمہ داری کے دائرے میں ڈالا جائے گا۔ اس کشمکش میں واشنگٹن پوسٹ کی ایک خبر دامن توجہ کھینچتی ہے کہ ریپبلکن ہاؤس نے بیجنگ سے جغرافیائی سیاسی خطرے کے خلاف مربوط حکمتِ عملی کے لیے ایک چائنا ٹاسک فورس قائم کی ہے۔
یہ پورا پسِ منظر ہے جس میں چین کے سرکاری اخبار پیپلزڈیلی نے 3/مئی کو خبر دی کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور کانگریس کے ارکان کورونا وائرس کے مسئلے کو چین کے خلاف ایک سیاسی رنگ دے رہے ہیں۔ امریکا کورونا وبا سے نمٹنے کے لیے ایک درست طرزِ عمل اختیار کرنے کے بجائے اپنی اس مہم کے ذریعے دیگر ممالک میں بھی چین کو بدنام کررہا ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ دھوکا دہی پر مبنی اس مہم میں اسٹیبلشمنٹ اور ذرائع ابلاغ بھی پوری طرح شریک ہے جو واشنگٹن کی ناکامیوں کا الزام چین پر عائد کر رہے ہیں۔ چین کے پاس بھی کھینچنے کے لیے کافی رسیاں ہیں۔ امریکا میں ٹرمپ انتظامیہ پر کورونا بحران کو مسلسل نظر انداز کرنے کے الزامات لگ رہے ہیں، جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئیں۔ خود امریکا میں مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ کی توجہ سے محروم نہایت توانا آوازیں ایسی ہیں جو امریکا کی جانب سے چین کے خلاف حالیہ مہم پر سوال اُٹھا رہی ہیں۔مثلاً علم سیاسیات کے امریکی پروفیسر ٹام جنس برگ نے کہا کہ بیجنگ کے خلاف قانونی دعوے کا مقصد ”امریکی حکومت کی اپنی غلطیوں کو چھپانا ہے“۔ ساتھ ہی نومبر کے انتخابات میں کامیابی کے لیے ایک چال ہے۔ خو دٹرمپ یہ کہہ چکے ہیں کہ چین نے کورونا وائرس مجھے صدارتی انتخابات میں ہرانے کے لیے چھوڑا ہے۔اس پر چین کا ردِ عمل نہایت سادہ مگر پراثر ہے کہ امریکی صدر نے کورونا وائرس پر غفلت سے گیند ہاتھ سے گرادی ہے۔ اب وہ اس کا الزام چین پر عائد کررہے ہیں۔
یہ بات بجائے خود چین، امریکا جنگ کے خدشات میں اضافہ کرتی ہے۔کیونکہ امریکا ہمیشہ داخلی دباؤ کو جنگ کے امکان میں ڈھالنے کی تاریخ رکھتا ہے۔ جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے پروفیسر ڈیود اسٹیورڈ کا خیال ہے کہ چین پر مقدمہ چلانا شاید ممکن نہ ہوسکے۔ ایسی صورت میں امریکا کیا کرے گا؟بیجنگ کے پاس اس کا جواب ہے۔ شاید اسی لیے چین امریکا کے ساتھ ممکنہ جنگ کے کسی بھی خدشے سے نمٹنے کی انتہائی خاموشی سے تیاری کررہا ہے۔ امریکا اپنی چین مخالف ہائبرڈ جنگ کوکسی بھی وقت ایک گرم جنگ میں ڈھالنے کی پوری کوشش کرے گا۔ یہ امریکی تاریخ کا سب سے بڑا سبق ہے۔ مگر ایسی کوئی جنگ تیسری جنگ عظیم کا پیش خیمہ بھی بن سکتی ہے۔ اور یہ پہلو اس وقت سب فیصلوں کی راہ میں ایک رکا ؤٹ بن رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں