زبان کی سینیٹائزیشن۔۔
شیئر کریں
دوستو، خبر کے مطابق لاک ڈاؤن کی وجہ سے پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں گھریلو تشدد کے واقعات میں 25 فیصد جبکہ گلی محلوں کے لڑائی جھگڑوں میں 12 فیصد اضافہ ہوا ہے۔لاہور پولیس کی جانب سے لاک ڈاؤن کے دوران جرائم کی تقابلی جائزہ رپورٹ جاری کی گئی ہے جس کے مطابق شہر میں منظم یا پیشہ ور جرائم میں واضح کمی آئی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران لاہور شہر میں قتل کے کیسز میں 80 فیصد، ڈکیتی کی وارداتوں میں 39 فیصد، گاڑیاں چھیننے کی وارداتوں میں 30 فیصد اور چوری کی وارداتوں میں 29 فیصد کمی آئی ہے۔رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھریلو تشدد کے واقعات میں 25 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ گلی محلوں میں ہونے والے لڑائی جھگڑوں کی شرح 12 فیصد بڑھ گئی ہے۔
ویسے اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ گھریلو تشدد ہویاگلی محلے کے لڑائی جھگڑے۔۔ان سب کی ایک ہی وجہ بدزبانی ہے۔۔ سخت لہجے اور گندی زبان میں کوئی بھی بات کسی کو بھی آسانی سے ہضم نہیںہوتی ، یہی وجہ ہے گھریلو تشدد اور محلے کے لڑائی جھگڑوں میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔۔لاک ڈاؤن میں انسان ویسے ہی چڑچڑے پن کا شکار ہے اوپر سے رمضان المبارک کے روزے چل رہے ہیں، اس لیے دیکھنے میں آرہا ہے کہ عدم برداشت کے واقعات زیادہ رونما ہورہے ہیں۔۔ باباجی نے اسی لیے کیا خوب کہا ہے کہ۔۔زبان کی سنیٹائزیشن کے لیے بھی سنیٹائزر تیارکیے جائیں، کیونکہ یہ موقع محل دیکھے بغیر پھسل جاتی ہے۔۔باباجی کا کہنا ہے کہ جب سنیٹائزر سے ہاتھ صاف ہوسکتے ہیں تو زبان کیوں نہیں ہوسکتی؟؟ ویسے باباجی نے بات تو پتہ کی کرڈالی لیکن اسے ہم عقل والی بات نہیں کہہ سکتے ، کیوں کہ سنیٹائزر زبان پر لگاتے ہی لوگ ’’ٹن‘‘ ہوجائیں گے۔۔ یہ تو آپ سب کو پتہ ہی ہے کہ سنیٹائزر میں الکوحل ملایاجاتا ہے۔۔ ویسے ہمارے ایک مفتی نے الکوحل بھی حلال ہی قرار دے دی ہے، اب کرلوگل۔۔ مفتی صاحب کا موقف ہے کہ جب علمائے کرام پتی والے پان جائز سمجھتے ہیں تو پھر ہلکی طاقت والی الکوحل بھی حلال ہے۔۔ باباجی کے بعد ہمیں مفتی صاحب کی عقل کا ماتم کرنا پڑرہا ہے، الکوحل اور پتی والے پان میں زمین آسمان کا فرق ہے، پتی والا پان کھا کر آپ نے کسی کو ’’ٹن‘‘ دیکھا ہے؟؟ قوال صاحبان تو جب تک پتی والا پان نہ کھائیں ان کے گلے سے بھرپور قوالی نہیں نکلتی؟ لیکن الکوحل پینے والوں کے منہ سے بے تحاشا گالیاں نکلتی تو ہم نے کئی بار دیکھی ہیں۔۔
ویسے ہم سب کو لاک ڈاؤن کا شکرگزار ہونا چاہیئے، اس کی وجہ سے ملک میں چغلیوں کی کمی ہوگئی ہے، اب آپ پوچھیں گے وہ کیسے؟ تو بھائی لاک ڈاؤن کی وجہ سے عورتیں اکٹھی نہیں ہوپارہیں۔۔جہاں دو،تین خواتین اکٹھی ہوجاتی ہیں وہیں وہاں موجود نہ ہونے والیوں کی چغلیاں منہ بھربھر کرکرتی ہیں۔۔اکثر گھروں میں آپ لوگوں نے دیکھا ہوگا کہ مائیں اپنے بچوں کو باپ کا نام لے لے کر ڈراتی ہیں، بچوں کو کہتی ہیں کہ تُو ایسے نہیں مانے گا، رک جا شام کو تیرے پاپا (پیو) کو آنے دے ۔۔ بس یہی ایک خوف بچوں کو، وہ بھی کورونا وائرس نے ختم کردیا۔۔ اب باپ بیچارہ شام کو کیسے آئے گا ؟ چوبیس گھنٹے تو لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھر میں ہی پڑا چارپائی توڑتا رہتا ہے۔۔لاک ڈاؤن کی ایس او پیز کی وجہ سے نمازجمعہ کے مختصر سے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے مولوی صاحب فرمانے لگے۔۔ مسجد میں کورونا آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، ایک نمازی کھڑا ہوا اور کہنے لگا۔۔مولوی صاحب صرف یہ گارنٹی دیں کہ یہاں جوتے کوئی نہیں چرائیگا۔۔ویسا کورونا نے دیکھا جائے تو حقیقت میں زندگی ہی بدل ڈالی ہے، دنیا تبدیل کردی ہے، پہلے لوگ کہتے تھے کہ نیگیٹیو لوگوں سے دور رہو، اور اب کہتے ہیں پازیٹیو لوگوں سے دور رہو۔۔باباجی گزشتہ رات کی بیٹھک میں باتوں باتوں میں اچانک سے فرمانے لگے کہ۔۔ سب بول رہے ہیں کہ کورونا کی وجہ سے ملک تیس سال پیچھے چلاگیا ہے، میں پہلے ہی بتادوں، دوبارہ کالج نہیں جاؤں گا۔۔۔ا ب باباجی کو کیسے سمجھاتے کہ ہم کسی ٹائم مشین میں نہیں بیٹھے، تیس سال پیچھے جانے والی بات تو بطور محاورہ استعمال کی گئی تھی۔۔باباجی کا مزید فرمانا ہے کہ ۔۔ جن سے گھر نہیں بیٹھا جاتا،وہ گھر سے باہر نکل جاتے ہیں پھر ان سے کہیں پر بھی نہیں بیٹھا جاتا۔۔
بہت ہی اچھا قصہ سنانے جا رہا ہوں، اگر مسلسل محنت کی جائے تو انسان کامیاب ہوہی جاتا ہے۔۔ایک دفعہ کا ذکر ہے، ایک گاؤں میں ایک لڑکا رہتا تھا، بشیر۔۔ بہت نالائق اور نکھٹو طبیعت کا تھا۔اس کے اسکول میں استاد اور استانیاں اس سے نالاں رہتے تھے اور ساتھی مذاق اڑاتے تھے۔ایک دن، بشیر کی اماں اسکول آئیں اور استانی جی سے اپنے پیارے بیٹے کی پڑھائی پر بات کرنا چاہی۔استانی جی تو بھری بیٹھی تھیں۔ بشیر کی بے وقوفی اور پڑھائی میں غیر دلچسپی کی داستانیں بغیر لگی لپٹی رکھے، اس کی اماں کو سنا ڈالیں۔۔ کہ یہ اتنا نالائق ہے کہ اگر اس کا باپ زندہ ہوتا اور بینک کا مالک بھی ہوتا تب بھی اس کو نوکری پہ نہ رکھوا پاتا۔ بیوہ ماں پر سکتہ طاری ہو گیا۔ بغیر کچھ کہے، اپنے پیارے بیٹے کا ہاتھ پکڑا اور اسکول سے چلی گئی۔ نہ صرف اسکول، بلکہ وہ گاؤں بھی چھوڑ کر شہر چلی آئی۔وقت گزرتا گیا، گاؤں بڑھ کر قصبہ بن گیااور 25 سال گزر گئے۔ اسکول کی استانی جی کو دل میں شدید درد محسوس ہوا،اسپتال میں داخل کرایا لیکن درد بڑھتا رہا اور سب لوگوں نے، قریب بڑے شہر کے اچھے ہسپتال میں اوپن ہارٹ سرجری کا مشورہ دیا۔سب کے مشورے سے وہ شہر چلی آئیں اور سرجری کروالی۔ آپریشن کامیاب رہا اور انھیں کمرے میں لے جا یا گیا۔بے ہوشی کی ادویات کے زیر اثر، انھوں نے آنکھ کھولی تو سامنے ایک خوبصورت نوجوان مسکراتا نظر آیا۔اسے پہچاننے کی کوشش کرتے ہوتے یکدم انکا رنگ نیلا پڑنے لگا انھوں نے انگلی سے ڈاکٹر کی طرف اشارہ کرکے کچھ کہنا چاہا لیکن شاید مصنوعی آکسیجن بند ہو چکی تھی۔ڈاکٹر خوفزدہ اور پریشان ہو گیا اور اس نے آگے بڑھ کر انھیں سنبھالنے کی کوشش کی، لیکن استانی جی نے لمحوں میں ہی دم توڑ دیا۔ڈاکٹر کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ وہ پلٹا تو دیکھا کہ ہسپتال کے بھنگی، بشیر نے، وینٹی لیٹر کا پلگ نکال کر اپنے ویکیوم کلینر کا پلک لگا دیا تھا۔۔اب آپ اگر یہ سمجھ رہے تھے کہ خوبصورت ڈاکٹر وہی سادہ اور بے وقوف سا لڑکا، بشیر، تھا جس کی ماں نے اس کا ہا تھ پکڑ کر روتے ہوئے گاؤں چھوڑا تھا اور شہر آکر اس کو ڈاکٹر بنوا دیا تھا، تو پلیز جاگ جائیں۔ فلموں کے اثر سے باہر آجائیں،حقیقی زندگی میں بشیر،بشیر ہی رہتا ہے۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔زبان کی سنیٹائزیشن کے حوالے سے عرض ہے کہ۔۔ گفتگوایک ایسا عمل ہے جس کی وجہ سے انسان لوگوں کے دل میں اترجاتا ہے یا پھر دل سے اترجاتا ہے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔