نسخہ کیمیا
شیئر کریں
دامن پہ کوئی چھینٹ ، نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
جس وقت شاعر کے ذہن تخیل رسا نے یہ شعر تخلیق کیا تھا اس وقت سیاست عبادت تھی، تجارت نہیں حکمران عوام کی بھلائی اور خوشحالی کو اپنی کامیابی قرار دیتے تھے۔ برصغیر پر 8 سو سال تک اقلیت بلکہ بہت واضح اقلیت میں ہونے کے باوجود مسلمانوں کی حکمرانی اس امر کا ثبوت ہے کہ عوام حکمران کا مذہب، فقہ اور فرقہ نہیں لیکن اپنی خوشحالی اور پرسکون زندگی سے غرض رکھتے ہیں۔ پھر مسلمانوں کی حکمرانی ختم ہونے کے بعد جس گروہ نے برصغیر پر حکمرانی کی اس کی تعداد تو آبادی کے نصف فیصد سے بھی کم تھی۔ چند ہزار انگریز بحری جہازوں میں سوار ہو کر ہندوستان میں داخل ہوئے اس سے قطع نظر کہ انہوں نے کس طرح برصغیر کے اقتدار پر قبضہ کیا، یہ حقیقت ہے کہ اس دور میں بھی چند معاملات کے علاوہ انصاف کا بول بالا تھا۔ تقریباً 14 سو سال قبل شیر خدا علی المرتضیؓ نے فرمایا تھا کہ ”کفر کی حکومت تو چل سکتی ہے ظلم کی نہیں“ اور انگریزوں کے دورنے داماد رسول کے قول کو سچ ثابت کر دکھایا ،جب انگریزوں نے انصاف کا راستہ چھوڑا تو زوال ان کا مقدر بنا، وہ برطانیہ جس کی وسعتوں کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یونین جیک ہر وقت سورج کے سائے تلے رہتا ہے، اس طرح سے سکڑی ہے کہ اب وہی یونین جیک جو کبھی سورج کے سائے سے باہر نہ ہوتا تھا اب کئی کئی دن تک سورج کے درشن کو ترستا رہتا ہے، انصاف کے بغیر معاشرے میں امن خواب ہو سکتا ہے حقیقت نہیں۔
1947ءمیں جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو بے سروسامانی کا یہ عالم تھا کہ دفاتر میں پیپر پن اور کاربن پیپر تک دستیاب نہیں تھے۔ ایک مراسلہ لکھا جاتا اور پھر ضرورت کے مطابق اس کی دستی نقول تیار کی جاتی تھیں اور ببول کے کانٹے پیپر پن کا کام دیتے تھے، لیکن اس بے سروسامانی کے باوجود ملک بین الاقوامی سود خوروں سے محفوظ تھا۔ 1964ءتک پاکستان قرضہ لینے نہیں، دینے والا ملک تھا۔ پھر کرپشن کا ناسور پیدا ہوا، اس کے علاج کے لیے ایک محکمہ بنایا گیا جس کا نام اینٹی کرپشن رکھا گیا لیکن یہ اینٹی کرپشن انٹی کرپشن میں تبدیل ہو گیا اب یوں ہوتا ہے کہ” روتا ہے کیوں رشوت لے کر پھنس گیا ہے رشوت دے کر چھوٹ جا” یوں انٹی کرپشن بھی خوش اور کرپٹ بیوروکریسی بھی ۔
سنتے آئے ہیں کہ مچھلی ہمیشہ سر کی جانب سے سڑنا شروع ہوتی ہے اور کرپشن اور رشوت اس وقت پروان چڑھتی ہے جب سربراہان مملکت اور حکومت اس کا حصہ بنتے ہیں یا اس سے صرف نظر کرتے ہیں۔ فیس بک پر ایک تصویر دیکھی ،ایک بزرگ اس وقت کے سربراہ حکومت اور مملکت سے دست بستہ درخواست گزار ہے کہ فرزند نے تھرڈ کلاس میں بی اے کر لیا ہے مہربانی فرما کر کوئی ملازمت عنایت فرمائیں، اب سب جانتے ہیں کہ تھرڈ کلاس گریجویٹ کو سی ایس ایس کی ملازمت تو ملنے سے رہی، ہاں وہ جوان کسی دفتر میں کلرک بادشاہ بن جاتا اور ترقی کرتے کرتے آفس سپرنٹنڈنٹ کی معراج پا لیتا ہے۔ یہ بھی شنید ہے کہ اس جوان نے ایک محکمہ میں قلی بننے کی درخواست دی تھی اب اس درخواست کا کیا ہوا یہ تو وہ محکمہ اور درخواست گزار ہی جانتے ہیں لیکن جوان خوش قسمت تھا کہ اس وقت کے ایک صوبائی سربراہ کی نگاہ انتخاب کا مرکز بنا اور یوں کلرک بننے کے بجائے سب سے بڑے صوبے کا وزیرخزانہ بن گیا۔یوں ایک چھوٹی سی فاو¿نڈری کے مالک کا بیٹا صوبے کے خزانے کا مالک ومختار کیا بنا کہ فاو¿نڈری نے مختصر عرصہ میں ترقی کی وہ منازل طے کیں کہ زمانہ حیران ہے ۔جس ملک میں صنعتیں بندش کا شکار ہو رہی ہوں وہاں ایک فاو¿نڈری جو تین دہائیوں میں ڈیڑھ سو سے زائدصنعتی اداروں پر مشتمل ملک کا سب سے بڑا صنعتی گروپ بن چکی ہو ،جس کی صنعتوں میں ٹیکسٹائل ہی نہیں، نصف درجن سے زائد شوگر ملیں بھی موجود ہوں اور اثاثوں کی مالیت کروڑوں روپے نہیں پچاس کروڑ ڈالر سے زائد ہو ،جبکہ زرعی اثاثوں کی مالیت اس سے زیادہ ہو یوں کم وبیش یہ گروپ ایک ارب ڈالر کے اثاثوں کا مالک ہے۔ مجھ ناچیز کا اس گروپ کے سربراہ سے دست بستہ سوال ہے کہ ایسا کوئی ہنر وہ ہمیں نہیں دیگر صنعتی اداروں کے مالکوں کو بھی سکھا دیں کہ جس پر عمل کرنے سے ہر ماہ ایک فیکٹری کا اضافہ ہو۔ یوں چند مہینوں میں ملک سے غربت اور بے روزگاری کا خاتمہ ہو گا اور پھر’ میاں دے نعرے وجن گے‘ اور مخالفین ذلت ورسوائی کا شکار ہوںگے ۔