محکمہ تعلیم ، جانچ کمیٹی کو افسران سے 10 کروڑ وصولی کا ٹاسک
شیئر کریں
محکمہ تعلیم میں دیگر محکموں کی طرح عید سے قبل رمضان المبارک میں ہی اساتذہ سمیت دیگر ملازمین سے عیدی وصولی کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے رمضان مبارک کے آخری عشرے میں یہ کام بام عروج پر پہنچ گیا ہے ملازمین میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے ۔ تفصیلات کے مطابق صوبائی محکمہ تعلیم میں صوبے بھر کے تمام ڈاریکٹر ڈپٹی ڈاریکٹر، ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسران و ڈپٹی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسران سپرنٹنڈنٹ سمیت گریڈ 17سے گریڈ بی ایس 20 تک کے افسران کی قابلیت کی جانچ کیلئے انٹرویو کے غرض سے وزیر تعلیم کی سربراہی میں قائم کی جانے والی کمیٹیوں کی تشکیل دی گئی ہے ، محکمے کے افسران نے اس کو باقاعدہ عیدی کی وصولی کی مہم قرار دے دی ہے محکمہ کے ایک اعلی افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کمیٹیوں کی تشکیل اور انٹرویو سب ایک منظم پلاننگ اور ٹوپی ڈرامے کا حصہ ہے اصل مقصد ان افسران سے باقاعدہ طور پر عیدی کے نام پر بھاری رشوتوں کی وصولی ہے جس کی مجموعی رقم دس کروڑ روپے کے لگ بھگ بنتی ہے مذکورہ افسر جس نے نام نہ ظاھر کرنے والے کا کہنا ہے کہ محکمہ تعلیم میں اعلی عہدوں پر جو افسران تعینات ہیں انہی کی اکثریت نااہل ہے زیادہ تر کی بھرتیاں جعلی ہیں جبکہ نوے فیصد افراد سیاسی بنیادوں پر بھرتی کیے گئے ہیں جن میں اکثریت کی تعلیمی ڈگریاں بھی بوگس ہیں ان تمام حقائق سے اعلی افسران بھی بخوبی واقف ہیں ایسے افسران نے اپنی تعیناتی بھی رشوت دیکر حاصل کی ہے گریڈ 20 کے ڈاریکٹر کیلئے مبینہ طور پر 30لاکھ روپے جبکہ گریڈ 19 کے ڈی ای او افسران کیلئے 20سے 25لاکھ روپے وصول کیے جاتے ہیں جس کی تقسیم مبینہ طور پر سیکریٹری ڈپٹی سیکیریٹری وزیر تعلیم تک کی جاتی ہے موجودہ قائم کی جانے والی کمیٹی بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے مزکورہ افسران جو بیس لاکھ روپے دیکر آتے ہیں وہ یہ رقم اپنے ڈسٹرکٹ کے ملازمین سے ان کے جائز کاموں کیلئے بھی رشوت لیکر پورے کرتے ہیں ڈائریکٹر تعلیم کی طرح ڈی ای او بھی اپنے ضلع کا بادشاہ کہلاتا ہے اور ماہانہ بیس لاکھ سے زیادہ کماتا ہے مزکورہ افسر کا کہنا ہے کہ کراچی میں بھی تعینات زیادہ تر افسران کا تعلق اندرون سندھ سے ہے جن کو انگریزی میں موصول ہونے والے نوٹی فیکیش بھی پڑھنا نہیں آتے اندرون سندھ کے نوے فیصد تعلیمی افسران کراچی میں تعیناتی کیلئے سرگرم عمل رہتے ہیں ۔