عید مبارک
شیئر کریں
علی عمران جونیئر
دوستو، اٹھائیس ویں افطار کے بعد یوں ہی ٹہلتے ہوئے باباجی کے گھر پہنچ گئے، موصوف ڈرائنگ روم میں چائے کی چسکیاں لے رہے تھے، ہمیں دیکھا تو والہانہ استقبال کیا اور زوجہ ماجدہ کو آواز لگادی کہ ایک کپ چائے مزید ارسال کردیں، انہوں نے چائے کیلئے ہم سے پوچھنے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کی کیوں کہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہم بھی باباجی کی طرح چائے کو اشرف المشروبات مانتے ہیں۔۔ باتوں باتوں میں سرگوشیانہ انداز میں بتانے لگے۔۔آج میری پڑوسن دال پکا رہی تھی ،میں نے کھڑکی سے تین بار سیٹی ماری۔۔تو اس نے پریشر کوکر اتار لیا ۔۔نہ اس کی دال گلی اور نہ میری۔۔
رمضان المبارک میں کھڑکی توڑ مہنگائی رہی۔۔66فیصد پاکستانیوں نے رائے دی ہے کہ رات کا کھانا افطار کے ساتھ ترجیح دیتے ہیں جبکہ دیہات میں یہ شرح 68فیصد ہے، 32فیصد افطاری کے بعد بھی کھانا کھاتے ہیں۔گیلپ سروے کے مطابق ہر دس میں تقریباً 7پاکستانی رمضان میں رات کا کھانا افطاری کے ساتھ ہی کھاتے ہیں۔اور ہمارا شمار ان تین لوگوں میں ہوتا ہے جوافطار کے بعد کھانا بالکل نہیں کھاتے ہاں البتہ تراویح کے بعد ایک بار پھر افطار کا بچاکھچایعنی سموسے،پکوڑے، چاٹ وغیرہ کھاتے ہیں۔۔گیلپ سروے میں ملک بھر سے 2ہزارسے زائدافراد نے حصہ لیا، یہ سروے 18سے25مارچ 2024 کے درمیان کیا گیا۔ سروے میں66فیصد پاکستانیوں نے رمضان میں افطاری کے ساتھ ہی رات کا کھانا کھانے کو پہلی ترجیح قرار دیا، کہا کہ افطاری کے ساتھ کھانا کھانے سے سہولت ہوتی ہے اور ہاضمہ بھی درست رہتا ہے،البتہ 32فیصد نے افطاری کے بعد مختلف وقتوں میں دوبارہ رات کاکھانے کا بتایا۔ 02 فیصدنے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔ گیلپ پاکستان کے مطابق سروے میں افطاری اور رات کا کھاناایک ساتھ کھانے کا رجحان دیہی علاقوں میں زیاد ہ نظرآیا،دیہاتوں میں 68فیصدنے افطاری اور رات کا کھانا ایک ساتھ کھانے کا بتایاجبکہ29فیصد نے مختلف وقتوں میں رات کاکھانا کھانے کا کہا، 3فیصد نے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔گیلپ سروے کو اگر کچھ دیر کے لئے سائیڈ پر رکھ دیں تو مہنگائی کی وجہ سے یہ سب ہورہا ہے، اس بار عوام نے افطار کی عیاشی سے گریز کیااور سادگی کے ساتھ افطار کے وقت نارمل کھانے سے روزہ افطار کیا۔۔گیلپ کے ایک اور سروے کے مطابق ماہ مقدس میں 61 فیصد پاکستانیوں کی نیند پوری نہیں ہوتی۔۔۔سروے رپورٹ کے مطابق 61 فیصد پاکستانیوں نے رمضان میں نیند پوری نہ ہونے کو چیلنج قرار دیتے ہوئے کہا کہ افطار کے بعدسحری تک کم وقت بچتا ہے، صبح بھی جلدی اٹھنا ہوتا ہے لہٰذا نیند پوری نہیں ہوپاتی۔اس کے برعکس 37فیصد نے نیند مکمل کرنے کا بتایا اور کہا کہ کوئی پریشانی نہیں ہوتی(یہ ان لوگوں کا کہنا تھا جو بیروزگار تھے اور جنہیں رمضان کے دوران کام جوان کی موت ہے کا نعرہ بے حد پسند تھا)۔سروے میں نیند کی کمی کی سب سے زیادہ شکایت 64 فیصد خواتین نے کی جبکہ مردوں میں 58 فیصد نے رمضان میں نیند پوری نہ ہونے کا کہا۔
باباجی فرماتے ہیں کہ اگر آپ مرد ہیں تو شادی کرنے سے پہلے کم از کم ایک ماہ تک بلی پالیں، اگر آپ اس کو پالتو بنا لیتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کو جگہ جگہ گرے ہوئے بالوں کو دیکھنے کی عادت ہو چکی ہے۔۔دن ہو یا رات کا کوئی پہر آپ رونے کی ناقابل فہم اور عجیب و غریب آوازوں کے عادی ہو چکے ہیں،بلاوجہ غراہٹ،پاؤں گھسیٹ کر چلنے اور بغیر کسی جواز کے ہر چیز کو ناخنوں کے ساتھ کھرچنے پر آپ کو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔۔آپ کے چہرے کو بلاوجہ گھورتی رہے،یا خاموشی سے دیکھتی رہے تو آپ گُھرکی اور خاموش نگاہوں کا مطلب سمجھنے کے قابل ہوجاتے ہیں کہ بلی اب بھوکی ہے، پیاسی ہے، ناراض ہے یا پھر اداس ہے، اور آپ کو لگنے لگتا ہے کہ وہ اپنی آنکھوں سے یا حرکتوں سے جو کچھ بھی آپ کو بتا رہی ہے آپ بلی کی کہانی کو پوری طرح سے سمجھتے ہیں۔۔اگر آپ بلی کو دلجمعی سے پال لیتے ہیں تو آپ کو اپنی حالت کا بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے۔۔یعنی اس کا مطلب ہے کہ شادی کا جو پورا نظام ہے آپ اس کے لیے ہر طرح سے موزوں ہیں۔۔بسم اللہ کریں۔اور فوراً شادی کھڑکا دیں ۔۔اگر آپ خاتون ہیں تو شادی سے پہلے،کم از کم ایک عدد مرغ کو پالتو پرندے کی طرح ایک مہینے کے لیے پالیں۔۔اگر آپ کو ہر جگہ پر مرغ کی پھیلائی ہوئی گندگی، صاف فرش پر کیچڑ میں لتھڑے پنجوں کے نشان،بے وقت کی بانگیں،دانہ دنکا نہ ملنے پر یا پھر بلاوجہ اونچی آواز میں چیخ و پکار کو آرام و سکون سے سننے اور دیکھنے کی عادت ہوجاتی ہے۔۔بالخصوص جب پڑوس میں کسی مرغی کی کٹ کٹ کٹاک سن کر آپ کا مرغ دوڑ کر کھڑکی کے پاس کھڑا ہوجائے اور آپ کو غصہ کی بجائے اپنے مرغ پر پیار آئے۔۔تو آپ دیر نہ کریں اور بالکل آنکھیں بند کرکے شادی کرلیں، آپ کی شادی شدہ زندگی ان شاء اللہ کامیاب ہوگی۔اور بالفرض اگر آپ نئے نئے میاں بیوی ہیں اور اولاد ہونے کے بارے میں سوچ رہے ہیں، تو بچے پیدا کرنے سے پہلے آپ دونوں کو مل کر ایک بندر پالنا چاہیے۔۔لیکن ان سب سے ہٹ کر باباجی کو خودکیا پسند ہے؟ فرماتے ہیں۔۔شیر جیسی زندگی ہونی چاہیے۔بس صبح اٹھے۔ نہ دانت صاف کیے نہ منہ دھویا۔ ہرن کے پیچھے پانچ منٹ بھاگے۔ اسے پکڑا۔ کھایا۔ پانی پیا۔ ڈکار مارا اور پھر سارا دن کسی درخت کی چھاؤں میں بیٹھ کر سستاتے رہے۔ رات کو سو گئے۔نہ گھر کے کرایہ کی ٹینشن نہ بجلی کے بل کی۔نہ ہرن پکانے کے لیئے گھی یا تیل خریدنا پڑا نہ نمک نہ مرچ۔ نہ ٹوتھ پیسٹ کا خرچہ نہ صابن یا شیمپو کا۔پٹرول 500 روپے لیٹر ہو جائے شیر کی جانے جوتی۔نہ اس نے بچوں کو اسکول چھوڑنے جانا ہے نہ لینے۔ نہ اسکول کی فیسوں کی ٹینشن نہ بچوں کی تعلیم کی۔ بچے بڑے ہونے لگے تو انہیں بس اتنا سکھا دیا کہ ہرن کیسے پکڑنا ہے ڈیٹس اٹ۔۔ تعلیم مکمل۔کپڑوں کا بھی کوئی خرچہ نہیں۔ نہ عید پر نہ کسی شادی پر۔ بس جو کپڑے اللہ نے ایک بار پہنا کر بھیج دیئے انہی کے ساتھ پوری زندگی گزار لی۔ٹیپو سلطان ایسے ہی نہیں کہتے تھے کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سال کی زندگی سے بہتر ہے۔ بلکہ باباجی کہتے ہیں۔۔ شیر کی ایک دن کی زندگی انسانوں کی بھی سو سال کی زندگی سے بہتر ہے۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔سگریٹ نوشی انسان کے اندر خود اعتمادی پیدا کرتی ہے، ایک اسموکر کسی اجنبی سے بھی بلا جھجھک سگریٹ اور ماچس مانگ سکتا ہے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔ ایڈوانس عید مبارک۔۔