میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ہر عروج کو زوال ہے!

ہر عروج کو زوال ہے!

ویب ڈیسک
بدھ, ۱۰ اپریل ۲۰۲۴

شیئر کریں

جاوید محمود
……….

امریکہ دنیا کا واحد سپر پاور کیسے بنا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس کے پیچھے اس کی مسلط کی ہوئی جنگوں میں جدید اسلحے کے استعمال کے ساتھ ساتھ انسانی جانوں کی لاشوں کے انبار کا بھرپور کردار ہے جس کی مدد سے آج امریکہ دنیا کاواحد سپر پاور ہے۔ تاریخ کے جھروکوں میں جھانک کر دیکھا جائے تو حقائق منظر عام پر آتے نظر آتے ہیں۔ نو تخلیق شدہ امریکی قوم کے اوائل میں برطانوی سلطنت کے ساتھ تنازع میں تھی یہ امریکہ کی طرف سے اعلان کردہ پانچ جنگوں میں سے پہلی جنگ تھی۔ 1812 کی جنگ میں قوم کو 1.78 بلین ڈالرز کی لاگت آئی۔ تقریباً 15 ہزار امریکی جنگ میں ہلاک ہوئے۔ امریکہ نے دوسری جنگ عظیم میں لڑتے ہوئے چار ٹرلین یا اپنی جی ڈی پی کا 36 فیصد سے زیادہ خرچ کیا۔ نازی جرمنی اٹلی اور جاپانی سلطنت کو شکست دینے کی لڑائی میں چار لاکھ سے زیادہ امریکی مارے گئے۔ مئی 1945 میں یورپی جنگ ختم ہوئی اور اگست میں ہیروشیما اور ناگا ساکی پر امریکہ کے ایٹمی بم گرائے جانے کے بعد جاپان نے ہتھیار ڈال دیے۔ امریکی تاریخ میں بہت سی ابتدائی جنگوں کے نتیجے میں امریکہ کو مزید زمین اور علاقے حاصل ہوئے۔ انسانی حقوق کے ٹھیکیداروں نے ملکوں پر قبضے کر کے اپنی طاقت کا لوہا منوایا ۔دو اپریل 1917 کو امریکہ نے جرمنی کے خلاف اعلان جنگ کیا۔ پہلی جنگ عظیم 19 ماہ بات ختم ہوئی جس میں ایک لاکھ 16 ہزار سے زیادہ فوجیوں کی جانیں گئیں ۔بالاخر اس تنازع پر امریکہ کو 381.8 بلین ڈالر کی لاگت آئی ویتنام کی جنگ 2019 میں 843.63 بلین ڈالرز کی لاگت آئی اس تنازع کے اختتام تک واشنگٹن ڈی سی میں ویتنام کے سابق فوجیوں کی یادگار پر 58 سے زیادہ ہلاک ہونے والے فوجیوں کے نام درج کیے گئے ہیں ۔واشنگٹن یونیورسٹی سمیت چار یونیورسٹیوں کی تحقیق کا اندازہ ہے کہ 2003 سے 2011 تک عراق جنگ کی وجہ سے پانچ لاکھ سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں ۔المیہ یہ ہے کہ اس بے بنیاد جنگ کے نتیجے میں بڑی طاقتوں نے انسانوں کو کیڑے مکوڑوں کی طرح مارنے کے بعد یہ اعتراف کیا کہ یہ جنگ غلط خفیہ معلومات فراہم کرنے کی وجہ سے ہوئی جس میں کہا گیا تھا کہ عراق بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار بنا رہا ہے سابق برطانوی وزیراعظم نے پریس کانفرنس میں معافی مانگتے ہوئے کہا تھا کہ ہمیں خفیہ داروں نے صحیح معلومات فراہم نہیں کی تھی عراق جنگ پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے چھ ٹرلین ڈالرز بارود میں جھونک دیے امریکہ نے نائن الیون کے حملوں کے جواب میں افغانستان پر جنگ مسلط کر دی اور ایسے جدید بموں کا استعمال کیا جس سے پہاڑ بھی لرز گئے۔ 2001سے جنگ کے خاتمے تک افغانستان میں 12,442 امریکی ہلاک ہوئے ۔براؤن یونیورسٹی کے امریکی محققین کا اندازہ ہے کہ اس عرصے کے دوران افغانستان میں مجموعی طور پر 70گنا زیادہ سے زیادہ لوگ مارے گئے جن میں 47000 سے زیادہ شہری بھی شامل ہیں جبکہ کل اموات ایک لاکھ 71ہزار 336پینٹاگون کا کہنا ہے کے افغانستان میں امریکی فوجی کاروائیوں پر 824.9بلین ڈالر لاگت آئی۔ محققین نے افغانستان اور پاکستان دونوں میں آپریشنز کی کل لاگت تقریبا 2.3 ٹرلین ڈالرز بتائی ہے ۔
امریکہ نے دنیا بھر میں جو پولیس مین کا کردار ادا کیا اسے امریکن عوام کی حمایت حاصل نہیں ہے ۔ اس کا رد عمل امریکن عوام کی طرف سے آنا شروع ہو گیا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ عراق جنگ سے قبل امریکی عوام نے نیویارک میں جنگ کی مخالفت میں بہت بڑا جلوس نکالا تھا جس میں 10 لاکھ سے زیادہ افراد نے شرکت کی تھی۔ امریکن عوام میں اب بیداری پائی جاتی ہے اور اب وہ اس کا اظہار کرتے ہیں کہ ان کے ٹیکس کی رقم جنگوں پر استعمال نہ کی جائے۔ دنیا ان حقائق سے واقف ہے کہ نائن الیون میں تین ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ امریکہ نے رد عمل میں عراق اور افغانستان کو کھنڈر میں بدل کر رکھ دیا۔ اس جنگ میں دیگر ممالک بھی متاثر ہوئے۔ ان میں پاکستان پہلے نمبر پہ آتا ہے۔ واضح رہے کہ دہشت گردی کی جنگ کے خلاف امریکہ نے کھربوں ڈالرز پانی کی طرح بہائے جبکہ اس جنگ میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ مارے گئے جن میں بڑی تعداد میں معصوم شہری بھی شامل تھے ۔طاقت کا نشہ عقل پر پردہ ڈال دیتا ہے۔ عالمی سطح پر امریکہ کی مسلط کی ہوئی جنگوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا ۔حد تو یہ ہے کہ امریکہ میں اس جابرانہ جنگی پالیسی کے خلاف رپورٹس اور کالم شائع ہو رہے ہیں ۔ان جنگوں نے امریکن معیشت کو تباہی کے کنارے لا کھڑا کیا ہے ۔اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکی مردم شماری بیورو کے مطابق 37.9 ملین امریکی غربت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جو کل آبادی کا11.6 فیصد ہیں۔ امریکہ اپنی منفی پالیسیوں کے نتیجے میں 31 ٹرلین سے زیادہ قرضوں میں دفن ہے ۔آخر کیا وجہ ہے کہ دنیا کے واحد سپر پاور کو قرض لینے کی نوبت کیوں آئی امریکہ سے باہر کے لوگوں کے لیے امریکہ کو ایسے ملک کے طور پر دیکھنا دشوار نظر اتا ہے جہاں لاکھوں بے گھر انتہائی غربت اور صحت کی معیاری سہولتوں کے بغیر زندگی گزار رہے ہیں ۔یہاں جس چیز پر لاکھوں خاندانوں کی بقا کا انحصار ہے ،وہ وفاقی سوشل سیکورٹی سسٹم اور میڈی کیئرخوراک اور رہائش کے لیے دیے جانے والے مفت کو پن اور اسی طرح کے تمام اسکولوں میں ضرورت مند بچوں کے لیے مفت ناشتہ اور کھانا ہے ۔عام انسان کے لیے یہی وہ فوائد ہیں جو ڈیفالٹ سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ امریکہ میں لاکھوں لوگ ان فوائد پر انحصار کرتے ہیں اور اگر حکومت توسیعی مدت تک اپنے بال ادا نہ کر سکی تو ان فوائد کے لیے ادائیگی متاثر ہو سکتی ہے اور سرکاری خدمات کی فراہمی میں خلل پڑ سکتا ہے یا وہ رک سکتی ہیں ۔
حکام کا اندازہ ہے کہ اگر ڈیفالٹ کی وجہ سے معیشت زوال کا شکار ہو گئی تو 80 لاکھ سے زیادہ لوگ اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو سکتے ہیں۔ سوشل سیکورٹی سے مستفید ہونے والے لاکھوں افراد سابق فوجی اور فوجیوں کے خاندان اپنی ماہانہ ادائیگیوں سے محروم ہو سکتے ہیں۔ اگر کام کرنے والوں کو حکومت سے تنخواہیں نہیں مل سکیں تو اہم وفاقی خدمات بشمول سرحدی اور فضائی ٹریفک کنٹرول میں خلل پڑ سکتا ہے ۔ معیشت بحران کا شکار ہو سکتی ہے۔ امریکی ایوان نمائندگان میں حکومتی اخراجات میں کمی کا بل منظور ہو گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر حکومت کی 314 کھرب ڈالر کی قانونی قرض لینے کی حد کو نہیں بڑھایا گیا یا اسے معطل کیا گیا تو اس کا نتیجہ مالی تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔ ایسی ادائیگیاں جن کے ذمے دار الحکومت ہے انہیں جاری رکھنے کے لیے رقم ادھار نہ لینے کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ کاروبار دیوالیہ ہو جائیں گے۔ مالیاتی منڈیاں کریش ہو جائیں اور ملک دیر پا معاشی پریشانیوں میں گر جائے۔ گزشتہ 30 برسوں کے دوران امریکہ نے کھربوں ڈالرز جنگوں میں جھونک دیے ہیں اور آج یہ حال ہے کہ امریکہ 31کھرب ڈالر سے زیادہ قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہے۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ ہر عروج کو زوال ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں