میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بھارتی عدالتی نظام پر مودی سرکار کا قبضہ

بھارتی عدالتی نظام پر مودی سرکار کا قبضہ

ویب ڈیسک
بدھ, ۱۰ اپریل ۲۰۲۴

شیئر کریں

ریاض احمدچودھری

ہندوستان میں دوہزار چودہ کے انتخابات کے بعد سے مودی کی شخصیت عروج جبکہ جمہوریت زوال کا شکار ہے۔ بھارت کے عدالتی نظام پر مودی سرکار کا قبضہ ہے۔ مودی سرکار نے ریاستی اداروں کے ذریعے اپنی انتہا پسندانہ پالیسیوں کو ہمیشہ کی طرح لاگو کروایا ہے۔ 2010 ء سے 2020 ء کے دوران بھارتی عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کی سالانہ تعداد میں دو اعشاریہ آٹھ فیصد اضافہ ہوا۔ بی جے پی حکومت نے صورتحال میں بہتری کے کوئی اقدامات نہ کیے جس کے باعث لوگ انصاف کے منتظر ہیں۔
ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کے مطابق 2015 میں بھارت میں قانون کی حکمرانی کا اسکور صفر اعشاریہ پانچ ایک تھا، دو ہزار تئیس میں یہ شرح مزید گر کر صفر اعشاریہ چار نو پر آگئی۔ مودی سرکار اپنے من پسند ججز کو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی مراعات دیتی رہی۔ مودی سرکار کی عدلیہ میں غیر معمولی مداخلت اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت جمہوری ریاست سے تبدیل ہو کر مودی رجیم بن چکا۔مودی کے اقتدار کے بعد سے عدالتوں کو آن لائن منتقل ہونے پر مجبور کیا گیا جس سے بھارتی عدالتی نظام بری طرح متاثر ہوا۔ 2014 کے منشور میں انٹلیکچوئل پراپرٹی رائٹس کے مقدمات کو نمٹانے اور ذخیرہ اندوزی اوربلیک مارکیٹنگ کو روکنے کے لیے مودی سرکار نے عدالتوں کے قیام کا بھی وعدہ کیا لیکن ایسی کوئی عدالتیں نہیں بنائی گئیں۔
عدلیہ میں عدالتوں اور ججوں کی تعداد کو دوگنا کرنے کا بھی وعدہ کیا گیا لیکن عدالتوں میں افسران کی کل منظور شدہ تعداد میں 2014 اور 2023 کے درمیان صرف 25 فیصد اضافہ ہوا۔ بھارتی تجزیہ کار کے مطابق بی جے پی حکومت کے دور میں بھارت میں قانون کی حکمرانی کا عمل بد سے بد ترین ہوتا چلا جا رہا ہے۔ 2019 کے منشور میں عوام کے لیے ”ماڈل پولیس ایکٹ” کے نفاذ کا وعدہ کیا گیا لیکن ایسا کوئی قانون نہیں بنایا گیا اور نہ ہی ایسا کوئی بل پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا۔
ہندوستان ٹائمز کا کہنا ہے کہ حکومت پر عدلیہ اور ایگزیکٹو کے درمیان گزشتہ دس برسوں میں تناؤ رہا ہے جسکے باعث حکومت کو عدالتی تقرریوں پر ویٹو کا استعمال کرنے کا موقع ملا ہے۔ اسکرول کی رپورٹ کے مطابق 2017 میں چیف جسٹس دیپک مشرا کے خلاف سپریم کورٹ کے چار ججوں نے پریس کانفرنس کی۔ چیف جسٹس دیپک مشرا کو مودی سرکار کی حمایت حاصل تھی جسکے باعث ججوں نے الزام لگایا کہ مشرا کو باہر سے کسی کے ذریعے کنٹرول کیا گیا تھا۔مودی سرکار اپنے من پسند ججز کو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی مراعات دیتی رہی ہے۔ بی جے پی حکومت نے رنجن گوگوئی سپریم کورٹ کے سابق جج کو عہدے سے سبکدوش ہونے کے فوراً بعد ہی راجیہ سبھا کا رکن بنایا دیا۔ بی جے پی حکومت نے سپریم کورٹ کے دو ججوں جسٹس پی ستھاشیوم اور ایس عبدالنذیر کو بھی ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد گورنر کے طور پر مقرر کیا تھا۔
سپریم کورٹ نے 2015 میں قومی جوڈیشل کمیشن کو عدلیہ کی آزادی میں مداخلت کی بنیاد پر ختم کر دیا تھا۔ 2014 اور 2019 کے دونوں منشوروں میں قانون کے طریقہ کار کو آسان بنانے کا وعدہ کیا گیا تھا۔2014 کے منشور میں پیچیدہ قانون سازی کو آسان بنانے کے ساتھ متضاد قوانین کو ہٹانے کا وعدہ بھی کیا گیا لیکن قانون میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی، مودی سرکار نے اپنے مزموم سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے عدلیہ کو بھی نہ چھوڑا۔ جہاں تک بھارتی جمہوریت کا سوال ہے تو دی ڈپلومیٹ کے مطابق عام انتخابات سے کچھ دن قبل ایک طرف اپوزیشن پارٹی کے لیڈر کو پارلیمنٹ سے بے دخل کردیا گیا تو دوسری جانب 146 ممبران کو سوال پوچھنے پر معطل کردیا گیا۔ بھارت میں موجودہ سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کانگریس کا بینک اکاؤنٹ فریز کردیا گیا۔ بھارت کی تاریخ میں پہلی مرتبہ فیڈرل ایجنسیز نے اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے دو وزرائے اعلیٰ کو بھی منی لانڈرنگ کے الزام میں گرفتار کرلیا۔ بھارتی جنتا پارٹی نے خفیہ انتخابی بانڈوں کے ذریعے ایک بلین ڈالر جمع کرلیے جسکا کوئی ریکارڈ بھی پیش نہیں کیا۔ انتخابی بانڈوں کا 48 فیصد محض بی جے پی نے اپنے نام کیا جو کہ 13 ہزار کروڑسے بھی زائد ہے جبکہ باقی کی چند رقم دیگر تمام جماعتوں کے حصے میں آئی۔ بھارتی ہائیکورٹ کے ایک موجودہ جج نے عدلیہ کی آزادی سے وفاداری ترک کرتے ہوئے بی جے پی میں شامل ہونے کے لیے استعفیٰ دے دیا۔ حکومت پر تنقید کرنے والے صحافیوں کو معمول کی تفتیش اور گرفتاری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اپوزیشن جماعتوں کے خلاف میڈیا میں سنگین اور تشویشناک مہم چلائی جارہی ہے۔ مودی سرکار اپوزیشن جماعتوں کے ارکان کو ڈرا دھمکا کر بی جے پی میں شمولیت اختیار کرنے پر بھی مجبور کررہی ہے۔ مودی سرکار فیڈرل ایجنسیز کے ذریعے اپوزیشن جماعتوں کو بے بنیاد الزامات میں پھنسا کر توڑ رہی ہے اور انکے انتخابی نشان اور وسائل پر بی جے پی کے حمایت یافتہ امیدوار قبضہ کررہے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی مودی سرکار کی غیر قانونی کاروائیوں پر خاموشی بھی عوام کا انتخابی عمل پر سے اعتماد ختم کررہی ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں