پاک روس خوشگوارتعلقات
شیئر کریں
روسی وزیرِ خارجہ سرگئی لاروف کے دورہ پاکستان کے حوالے سے اسلام آباد اور ماسکو دونوں پُرجوش ہیں روسی وزارتِ خارجہ نے پریس بریفنگ پاکستان کو خارجہ پالیسی میں ایک اہم شراکت دار قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اقوامِ متحدہ اور اِس کے اِداروں میں دونوں ممالک کے مفید اور ثمر آور روابط ہیں شاہ محمود قریشی نے بھی اِس دورے کو دوطرفہ تعلقات کا نیا رُخ کہتے ہوئے واضح کیا ہے بتدریج وسعت اختیار کرتی قرابت داری ہمارے لیے بہت اہمیت کی حامل ہے مگر دونوں طر ف کے اچھے خیالات زمینی حقائق سے میل نہیں کھاتے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے دونوں ایکدوسرے کی طرف قدم بڑھاتے محتاط ہیں حالیہ دورہ ہی دیکھ لیں جو نو برس بعدممکن ہوا ہے ممکن ہے وجہ ماضی کی تلخیاں ہوں لیکن اب سرد جنگ کے کھلاڑی بدل رہے ہیں روس اور امریکا کی بجائے چین اور امریکا میں مقابلہ متوقع ہے جس کے لیے امریکا نے پیش قدمی کے طورپر مشرقِ وسطیٰ اور افغانستان کی بجائے اپنی تو جہ بحرالکاہل کی طرف مبذول کر لی ہے اِس لیے بادی النظرمیں پاکستان امریکا کے لیے غیر اہم ہورہا ہے جس کا اظہار گزشتہ دنوں امریکی سفیر کیمرون منٹر نے بھی کیا امریکا کی روس کی بجائے توجہ چین کی بڑھتی طاقت کنٹرول کرنے پر ہے اِس لیے پاک روس تعلقات کو وسعت دیتے ہوئے اگر ماضی کو بھلا کر آگے بڑھیں تو ذیادہ سود مند ہوگاکیونکہ عالمی تنازعات پر دونوں کا نکتہ نظر ایک ہے روس کے پاس تونائی کے بے پناہ زخائر ہیں وہ یورپ کو گیس فراہم کرتا ہے جبکہ پاکستان میں کم ہوتے زخائر کی وجہ سے صنعتی وگھریلو صارفین کو طلب کے مطابق گیس کی فراہمی مشکل ترہورہی ہے اِس شعبے میں دونوں ممالک کا تعاون ترقی و خوشحالی کا باعث بن سکتا ہے۔
سرد جنگ کے زمانے کے حریفوں میں تعاون کے امکانات کی تلاش جاری ہے چھ اپریل کو روسی وزیرِ خارجہ سرگئی لاروف کی پاکستان آمد اسی سلسلے کی کڑی ہے مگرقرابت داری کی رفتار سُست ہے 2012 میںروسی وزیرِ خارجہ نے پاکستان کادورہ کیا اُس کے بعداب سرگئی لاروف آئے پھر بھی یہ غیر معمولی اور خطے میں تشکیل پاتے نئے اتحاد کی نشاندہی ہے دونوں ملکوں کی طرف سے دورے کے حوالے سے کافی گرمجوشی کا اظہار ہو رہا ہے قریبی تعلقات کا مثبت اثرتجارتی شعبے میں بھی دیکھنے میں آرہا ہے جہاں گزشتہ برس سے چھالیس فیصد اضافہ دیکھنے میں آ اوریا باہمی تجارت کاحجم 790 ملین ڈالر ہو چکاہے لیکن روس کو برتری حاصل ہے ریلوے اور توانائی کے نظام میں بہتری لانے کے لیے دونوں ممالک میں گفتگو ہورہی ہے روسی سول ایئر کرافٹ کی فراہمی اور اسٹیل مل میں جدت لانے کا بھی جائزہ لیا جارہا ہے پھربھی حالات ذیادہ حوصلہ افزا نہیں کیونکہ دفاعی اور انسدادِ دہشت گردی سمیت کئی امور پر اتفاق کے باجود تعاون محدود ہے روسی وزیرِ خارجہ کی سویلین اور عسکری قیادت سے ہونے والی ملاقاتوں سے دوطرفہ تعلقات میں اضافے کی نئی راہیں تلاش کی جا سکتی ہے لیکن دونوں ملک ہنوزایک دوسرے سے محتاط ہیں جس کی وجوہات کئی ہو سکتی ہیں مگر بڑی وجہ شاید یہ ہے کہ پاکستان سے تعلقات بہتر بناتے ہوئے رو س بھارت کو ناراض نہیں کرنا چاہتا کیونکہ آج بھی وہ روسی اسلحے کا بڑا خریدار ہے روس عالمی برادری کا اہم ملک ہے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رُکنیت ہونے کے ناطے وہ مزید اہمیت اختیار کر جاتا ہے مسلہ کشمیرکے نہ حل ہونے ایک وجہ روس ہی ہے جو استصواب رائے کے حوالے سے پیش ہونے والی قراردادوں کو ویٹوکرتا رہا پاکستان نے بھی امریکی کیمپ کا حصہ بن کر روس کی مخالفت کی اب اگر دونوں ملک ماضی کی تلخیاں بھلا کر روشن مستقبل کے لیے مل کر کام کریں تو ترقی و خوشحالی کا سفر آسان ہو سکتا ہے ۔
افغانستان میں جاری مصالحتی امن کے حوالے سے دونوں ملکوں کی سوچ ایک ہے بلکہ ماسکو اِس حوالے سے پاکستانی کوششوں کی تحسین کرتا ہے پھربھی محلِ وقوع اور بدلتی دنیا کے تقاضوں کے مطابق جتنا قریب ہونا چاہیے تھا وہ صورتحال نہیں حالانکہ اٹھارہ مارچ کو افغان امن عمل کو کامیاب بنانے کے لیے ماسکو اجلا س کی کامیابی کے لیے پاکستان نے مخلصانہ کوشش کی ٹرائیکا اجلاس کی کامیابی میں پاکستان کا بڑاعمل دخل ہے پھر بھی کہہ سکتے ہیں کہ افغان امن عمل وسیع اور نتیجہ خیز بنانے کے لیے دونوں ممالک کو مزید کام کی ضرورت ہے جس کے لیے بھارتی کردار میں کمی ضروری ہے کیونکہ بھارت کو افغانستان میں کردار دینا امن عمل کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے خطے کو عدمِ استحکام کا شکار کرنے کی کی کسی کھلی چھوٹ کسی کے مفاد میں نہیں روس اور پاکستان میں ایک قدر اور مشترک ہے دونوں چین سے اچھے تعلقات رکھتے ہیں مگر شک وشبہ سے دیکھنے کی روش ترک کرنا ہوگی ۔
پاکستان ایک امن پسند ملک ہے وہ کسی کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتا روس نے بھی جارحانہ طرزِ عمل ترک کر دیا ہے آزربائیجان جنگ میں الگ الگ موقف کے باجود پاکستان کریمیا کے روس سے الحاق کو جائز تصور کرتا ہے جوسردجنگ کے دوران پیداہونے والی رنجشیں کم کرنے کی کوشش ہے روسی ناراضگی ختم کرنے میں پہل تو پاکستان نے کی جب 2012 میں وزیرِ خارجہ حنا ربانی کھر اور آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے روس کا دورہ کیا اسی سال صدر آصف علی زرداری کی طرف سے روسی صدر پیوٹن کو بھی دورے کی دعوت دی گئی جو قبول بھی ہو گئی مگر چند وجوہات کی بنا پرطے شدہ دورہ منسوخ ہوگیا لیکن روسی وزیرِ خارجہ نے پاکستان کا دورہ کیا جس کے دوران تعاون کے امکانات کا جائزہ لیا گیا اب نو برس کے وقفے کے بعد سرگئی لاروف کی آمد سے ماضی کی ناراضگی ختم ہوتی ہے یا نہیں حالات سے یہی تاثر ملتا ہے کہ دونوں ملک بغلگیر ہوتے ہوئے ہچکچاہٹ کا شکار ہیں حالانکہ بدلتے مفادات کے تناظر میں عالمی طاقتیں جب تعلقات کا رُخ بدل رہی ہے تو یکساں نکتہ نظر کے حامل روس وپاکستان کو بھی ماضی کی تلخیاں بھلا کر سنجیدگی سے ایک دوسرے کے قریب آنا چاہیے ۔
پاک روس مراسم اِتنے بھی خراب نہیں رہے بلکہ دوستانہ اور تعمیری ہیں اگر امریکا نے افغان معاہدے پر نظرثانی کا عندیہ دے رکھا ہے اور طالبان و حکومت کے مزاکرات میں تعطل ہے لیکن روس پاکستان سے مل کر امن کو یقینی بنانے کے لیے کوشاں ہے پاکستان نے اقوامِ متحدہ کے 75ویں اجلاس میں روس کی پیش کردہ تمام قراردادوں کی حمایت کی لیکن معاشی ،تجارتی اور دفاعی شعبوں میں تعلقات اُس نہج تک نہیں جودو قریبی شراکت دار ممالک میں ہونے چاہئیں دروزبا یعنی دوستی اور عربین مون سون مشقیں محدود تعاون کی عکاس ہیں حالانکہ پاکستان مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ تک رسائی کے لیے روس کی معاونت کر سکتا ہے لیکن روسی قیادت پر بھارتی اثرات میں کمی ضروری ہے عمران خان کی دعوت پر روسی صدر پیوٹن اگر پاکستان کا دورہ کرتے ہیں تو اِس سے دونوں ممالک کے تعلقات نئی بلندیوں تک پہنچ سکتے ہیں اور چین و روس قرابت داری میں پاکستان کا جگہ بنا نے میں کامیابی حاصل کر سکتاہے کیونکہ خراب معاشی حالت بہتر بنانے کے لیے قرضوں کی بجائے چین وروس کے تعاون سے معیشت میں بہتری آئے گی پاکستان کی سرزمین پر کھڑے ہوکر روسی وزیر خارجہ کا اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق بشمول کشمیر تنازعات کے حل پر اتفاق کرناکافی اہم پیش رفت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔