میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
صدرجو بائیڈن کا نیا معاشی ریلیف پیکیج

صدرجو بائیڈن کا نیا معاشی ریلیف پیکیج

ویب ڈیسک
بدھ, ۱۰ مارچ ۲۰۲۱

شیئر کریں

(مہمان کالم)

جم ٹینکرسلی

ہماری بیمار معیشت کو ازسر نو بحال کرنے کے لیے صدر جو بائیڈن نے امریکا کے کم تنخواہ دار کارکنوں اور ان لوگوں کا رخ کیا ہے جو فی الحال کوئی کام کرنے کے قابل ہی نہیں ہیں۔ جو بائیڈن کا 1.9 ٹریلین ڈالر کا ریلیف پیکیج‘ جو سینیٹ سے پاس ہو چکا ہے‘ اگلے چند دنوں میں امریکی صدر کے دستخطوں کے لیے وائٹ ہائوس چلا جائے گا۔ یہ پیکیج کم آمدنی والے اور مڈل کلاس کی معاشی مدد کرنے کے علاوہ زیادہ آمدنی والوں کے لیے بھی ریلیف کا باعث بنے گا جنہیں اپنی ملازمتیں جاری رکھنے کا مو قع مل گیا اور وہ گزشتہ سال اپنی سیونگز کرنے میں کامیاب رہے۔ اس پیکیج میں، کورونا سے لڑنے کے لیے 415 بلین ڈالر دیے گئے ہیں جبکہ چھوٹے کاروبار کے لیے 440 بلین ڈالر کا اعلان کیا گیا ہے۔ یہاں پر یہ امر بھی واضح رہے کہ امریکا میں اب تک 5لاکھ 37ہزار سے زیادہ افراد کورونا وائرس کی وجہ سے ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ 2کروڑ 96 لاکھ کووڈ پازیٹو کیسز امریکا میں سامنے آ چکے ہیں۔

یہ ریلیف پیکیج صدر کے لیے سٹمولس پروپوزل سے بڑھ کر کوئی چیز ہے۔ یہ ان کی معاشی پالیسی کا اعلامیہ ہے جو پچھلے کئی برسوں سے ڈیموکریٹس اور لبرل ماہرین معاشیات کا اصولی ا?درش رہا ہے‘ وہ یہ کہ تیز رفتار معاشی ترقی کا حل نیچے سے اوپر کی طرف جائے گا۔ صدر جو بائیڈن کی پہلی اہم معاشی قانون سازی سے اس امر کی عکاسی ہوتی ہے کہ ان کی اپروچ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بالکل برعکس ہے جنہوں نے 2017ء میں سب سے پہلے کانگرس سے ٹیکسوں میں کمی کا پیکیج منظور کروایا تھا اور اس سے کارپوریشنوں اور متمول امریکی شہریوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا تھا۔

صدر جو بائیڈن نے جو امریکی ریسکیو پلان پیش کیا ہے‘ اس میں کم ا?مدنی والے طبقے کو براہِ راست فائدہ پہنچانا مقصود ہے نہ کہ ٹرمپ حکومت کی طرح بار بار سٹمولس چیک پاس کرانا حالانکہ یہ ریلیف پیکیج اس وقت شروع ہو گا جب معیشت اور کورونا کی ویکسین سے متعلق اعداد وشمار سے پتا چلتاہے کہ اب معیشت بڑے پیمانے پر اڑان بھرنے کے لیے تیار ہے۔ اس میں ساری توجہ بزنس کے بجائے لوگوں پر مرکوز ہے جس میں خاص طور پر خواتین اور اقلیتوں پر زیادہ فوکس ہے کیونکہ کووڈ کی وجہ سے جنم لینے والی کساد بازاری میں یہ دونوں گروپس سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ ریسرچرز کہتے ہیں کہ یہ غربت کے خلاف جنگ لڑنے والی نسل کے لیے موثر ترین قوانین ثابت ہو سکتے ہیں اور سوشل پالیسی کا اندازہ ہے کہ چونکہ اس میں کم آمدنی والے والدین کے لیے فراخدلانہ ٹیکس کریڈٹس میں توسیع دی گئی ہے جس کے نتیجے میں بالغ افراد کے لیے غربت کی شرح ایک چوتھا ئی سے زیادہ کم ہو جائے گی اور بچوں میں غربت کی شرح نصف سے کم رہ جائے گی۔

جب ہم صدرٹرمپ کے سٹمولس بلز کو دیکھتے ہیں تو نئی قانون سازی میں ایسی شقیں رکھی گئی ہیں جن کا مقصد کورونا وائرس کا سدباب کرنا ہے۔ اس ریلیف پیکیج میں کووڈ ٹیسٹ کرنے اور ویکسین کی تقسیم کے لیے بھی رقوم رکھی گئی ہیں مگر اس میں ایسی چیزیں بھی شامل کی گئی ہیں جو عرصے سے ڈیموکریٹس کی ترجیحات میں شامل تھیں اور ان کا اطلاق کم آمدنی والے طبقے پر ہو گا، خواہ وہ کووڈ سے مالی طور پر متاثر ہوئے ہوں یا نہیں۔ ٹیکس کریڈٹس کے علاوہ اس بل میں بچوں کی نگہداشت کے لیے سبسڈیز رکھی گئی ہیں اور افورڈ ایبل کیئر ایکٹ کے تحت اس میں اہلیت کے معیار کو وسیع کرنے کے علاوہ فوڈ سٹیمپس، رینٹل امداد اور بیروزگاری الائونسز میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے۔ جو بائیڈن کی معاشی ٹیم کہتی ہے کہ 1400 ڈالرز فی کس بیروزگار شخص کے لیے ایک معقول امداد ہے جبکہ پلان میں شامل سیفٹی نیٹ کے دیگر فوائد سے بھی معاشی ترقی کو فروغ ملے گا کیونکہ یہ رقم ان افرا دکے لیے ہے جنہیں اس وقت اپنے بلوں کی ادائیگی، گروسری کی خریداری اور مکانوں کے کرائے دینے کے لیے براہِ راست مدد کی ضروت ہے جبکہ زیادہ آمدنی والے افراد اس رقم کی بچت کر سکیں گے۔

بیشتر ماہرین معیشت کا خیال ہے کہ صارفین کے اخراجات میں اضافہ بزنس پروڈکشن اور ملازمین کی نئی بھرتی کا باعث بنے گا۔ امید ہے کہ اس سے 1980ء کے بعد ہماری معیشت تیز ترین سالانہ شرح نمو سے ترقی کرے گی۔ جو بائیڈن کے اس پیکیج سے کانگرس کے ریپبلکن ارکان ناراض ہیں جنہوں نے صدر پر زور دیا ہے کہ وہ کووڈ کی وجہ سے تباہ ہونے والے بزنس کو سپورٹ کرنے پر توجہ دیں اور جس قدر جلد ممکن ہو‘ ملک میں معاشی سرگرمیوں کا سلسلہ از سر نو بحال کرنے کے لیے اقدامات کریں۔ اس پر وال سٹریٹ جرنل اور سابق وزیر خزانہ لارنس سمرز نے بھی وارننگ جاری کی ہے جنہیں خدشہ ہے کہ معیشت میں اس قدر زیادہ فنڈز کی فراہمی سے امریکا میں خطرناک حد تک افراطِ زر پیدا ہو گا۔ بیشتر قدامت پسند اور سخت گیر مالیاتی حلقے اسے سرمائے کا ضیاع اور بغیر کسی ہدف کے منفی اثرات دینے والے اخراجا ت قرار دیتے ہیں جبکہ صدر جو بائیڈن اور ان کے اتحادیوں کی نظر میں یہ پیکیج اس وقت معیشت کی بحالی کی بنیاد ثابت ہو گا جب وسیع پیمانے پر ویکسین کی تقسیم امریکا کے حالات کو نارمل بنا دے گی۔ لیبر ڈیپارٹمنٹ کی چیف اکانومسٹ جینلی جونز کہتی ہیں ’’پسے ہوئے کارکنوں پر توجہ دے کر ہی اس امر کو یقینی بنایا جا سکتا ہے کہ ہم معاشرے کے تمام طبقات کو اوپر اٹھانے میں کامیاب ہو سکیں‘‘۔
جو بائیڈن کی طرح صدر ٹرمپ نے بھی سب سے پہلے جو قانون سازی کی تھی اس کی وجہ سے وفاقی قرضوں میں دو ٹریلین ڈالرز کا اضافہ ہو گیا تھا۔ صدر ٹرمپ کی طرح جو بائیڈن نے بھی پارلیمانی راستہ ہی اختیار کیا ہے اور اپوزیشن کی طرف سے اس بل کی مخالفت میں ایک بھی وو ٹ نہیں آیا اور بل متفقہ طور پر پاس ہو گیا۔ دونوں صدور نے اپنے اپنے معاشی پیکیج اس معیشت کی ترقی کے لیے دیے تھے جو ناقابل قبول حد تک سست روی کا شکار تھی۔ مگر جو بائیڈن کے برعکس صدر ٹرمپ نے اوپر سے نیچے آنے والی اپروچ کی پیروی کی تھی تاکہ معیشت کو نئی قوت ملے اور معاوضوں میں اضافہ ہو، انہوں نے کارپوریشنوں اور بزنس کے علاوہ کم اور زیادہ آمدنی والے افراد کے ٹیکس ریٹس میں بھی کمی کر دی تھی۔ ان کے مشیروں نے پیش گوئی کی تھی کہ اس طرح کے اقدامات کرنے سے بزنس میں سرمایہ کاری کی شرح میں تیزی سے سرمایہ کاری ہو گی جو ایک پائیدار معاشی بوم کا باعث بنے گی، جس کے نتیجے میں کم آمدنی والے اور مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے امریکی شہریوں کی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے کو ملے گا حالانکہ ٹرمپ حکومت کے پیش کردہ اس بل میں امیر طبقات کے لیے جن فوائد پر فوکس رکھا گیا تھا‘ ان کی شرح انتہائی غیر متناسب سمجھی جاتی ہے۔ ؎
(جاری ہے )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں