میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
امریکی ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی کی رپورٹ اور پاکستان

امریکی ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی کی رپورٹ اور پاکستان

منتظم
هفته, ۱۰ مارچ ۲۰۱۸

شیئر کریں

ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ جاری آپریشن سے پاکستان میں دہشت گردی اور فرقہ واریت کم ہوئی ہے، پاکستان سرحدی دہشت گردی کے خلاف اپنے آپریشنز جاری رکھے گا، آرمڈ سروسز کمیٹی میں پیش کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان افغان مغربی سرحد پر بارڈر مینجمنٹ کی کوششیں بھی جاری رکھے گا اور پاکستان کے اندر بھی دہشت گردی کے خلاف اس کی کاوشیں جاری رہیں گی، ان کوششوں سے دہشت گردی کی وارداتیں کم کرنے میں مدد ملے گی تاہم پاکستان امید رکھتا ہے کہ افغانستان میں موجود اس کے دشمن عناصر کے خلاف افغانستان اور امریکا بھی کارروائی کریں گے، رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کنٹرول لائن پر جاری جھڑپوں کی وجہ سے پاکستان اور بھارت میں کشیدگی بڑھنے کے امکانات ہیں، اور توقع یہی ہے کہ اس سال بھی دونوں ممالک کنٹرول لائن پر اپنی یہی پوزیشن برقرار رکھیں گے۔

امریکی ایجنسی کی رپورٹ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان نے نہ صرف دہشت گردی کے خلاف اپنی کارروائیاں جاری رکھی ہوئی ہیں بلکہ مستقبل میں بھی ایسا کیا جاتا رہے گا، پاکستان کا بھی یہی موقف ہے جو پاکستانی حکام وقتاً فوقتاً دہراتے بھی رہتے ہیں اور امریکا سے جن وفود نے حال ہی میں پاکستان کا دورہ کیا تھا ان پر بھی یہ حقیقت واضح کردی گئی ہے کہ پاکستان نے ہر قسم کے دہشت گردوں کے خلاف اپنی بلا امتیاز کارروائی جاری رکھی ہوئی ہے اور ایسی کارروائیوں ہی کا نتیجہ ہے کہ پاکستان کے اندر صورتِ حال پہلے کی نسبت بہت بہتر ہوگئی ہے، تاہم اب بھی دہشت گردی کی کارروائیاں کہیں نہ کہیں جاری ہیں خصوصاً بلوچستان میں پولیس کے افسروں اور اہل کاروں کو نشانہ بنایا جارہا ہے، گذشتہ ہفتوں میں کتنی ہی ایسی کارروائیاں ہوچکی ہیں جن میں اعلیٰ پولیس افسر اور بعض صورتوں میں ان کے ساتھ سفر کرنے والے ان کے اہل خانہ بھی نشانہ بن گئے، اندرون ملک ایسی کارروائیاں روکنے کے لیے پاکستانی فورسز کا آپریشن جاری ہے اور امریکی انٹیلی جنس ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان ایسے آپریشن جاری رکھنا چاہتا ہے۔

یہ بات پای? ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ پاکستان کے اندر بہت سی ایسی وارداتیں ہوئی ہیں جن میں افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں نے حصّہ لیا، ایسی تمام تر منصوبہ بندیاں بھی وہاں ہوئیں، وہیں سے دہشت گرد چل کر پاکستان آئے، پاکستان میں ان کے سہولت کاروں نے بس اڈے پر ان کا استقبال کیا، اپنی نگرانی میں انہیں کسی سہولت کا رکے ہاں ٹھہرایا اور پھر مطلوبہ مقام پر کارروائی کے لیے پہنچایا، ان کارروائیوں کو مانیٹر بھی کیا گیا اور جو ٹیلی فون سمیں استعمال کی گئیں وہ بھی افغان موبائل فون کمپنیوں کی تھیں، یہ تمام تر تفصیلات پاکستانی حکام نے افغان حکام تک پہنچائیں اور یہ توقع بھی رکھی کہ افغانستان میں ان پاکستان دشمن عناصر کے خلاف کارروائی کی جائے گی چونکہ امریکی اور نیٹو فورسز بھی افغانستان کے اندر موجود ہیں اس لیے ان سے بھی یہ توقع بے جا نہیں ہے کہ وہ بھی اس نیک کام میں شریک ہوں گی، دیکھا جائے تو یہ امریکی افواج کی بنیادی ذمے داری ہے کہ وہ افغانستان میں ان عناصر کا قلع قمع کریں جو وہاں کسی بھی جگہ یا پاکستان آکر دہشت گردی کرتے ہیں، چونکہ امریکی افواج تو اس خطے میں آئی ہی اس مقصد کے تحت ہیں کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کریں گی اس لیے جو کوئی بھی جہاں کہیں بھی، دہشت گردی کرتا ہے وہ امریکی افواج کا ہدف ہونا چاہئے اگر وہ ایسا نہیں کرتیں تو اس کا مطللب ہے کہ وہ خطّے میں اپنی آمد کے مقصد سے انصاف نہیں کررہیں، اپنے وطن کی سرزمین چھوڑ کر ہزاروں میل دور ایک سنگلاخ سر زمین میں آنے کا مقصد ہی دہشت گردی کا خاتمہ ہے اور اگر اس سے پہلو تہی یا احتراز کیا جاتا ہے تو پھر یہاں آنے کا مقصد ہی ختم ہوجاتا ہے۔

امریکی افواج یہ کہہ سکتی ہیں کہ انہوں نے اپنا مشن مکمل کرکے فرائض افغان فوج کو سونپ دئے ہیں اور اب جو امریکی فوج افغانستان میں تعینات ہے وہ صرف مقامی فورسز کی تربیت کا کام کررہی ہے، لیکن یہ پہلو پیش نظر رہنا چاہئے کہ اگر کابل یا افغانستان میں دہشت گردی قابو میں نہیں آرہی یا پھیلتی جارہی ہے تو انگلیاں صرف افغان فورسز کی صلاحیتوں پر ہی نہیں اٹھیں گی، امریکی افواج کے کردار پر بھی سوال اٹھائے جائیں گے، یہی وجہ ہے کہ انٹیلی جنس ایجنسی نے جو رپورٹ آرمڈ فورسز کمیٹی کے روبرو پیش کی ہے اس میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ پاکستان امریکی افواج سے یہ توقع رکھتا ہے کہ افغانستان میں ان پاکستان دشمن عناصر کے خلاف کارروائیاں کرے جو پاکستان آکر دہشت گردی کرتے ہیں۔

پاکستان دہشت گردی کے خاف اس جنگ کا حصّہ ہے جو بنیادی طور پر امریکا نے شروع کی تھی اس لیے یہ دیکھنا ہوگا کہ دونوں ملکوں نے اس جنگ کے اہداف کس حد تک حاصل کئے، پاکستان جو کررہا ہے اور جو کرنا چاہتا ہے اس کا اعتراف تو رپورٹ میں موجود ہے اور یہ واضح طور پر کہا گیا ہے کہ پاکستان کی کارروائیوں کی وجہ سے ’’دہشت گردی اور فرقہ واریت‘‘ کنٹرول ہوئی ہے، اس کامیابی کے بعد اگر کارروائیوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے تو لازمی بات ہے کہ اس ضمن میں مزید کامیابیاں حاصل ہوں گی، اگر امریکی افواج بھی ایسی کارروائیوں میں پاکستانی فورسز کی جانب دستِ تعاون دراز کرتی ہیں، تو امید یہی ہے کہ کامیابیوں کا دائرہ وسیع تر ہوگا، اس لیے امید یہ بھی ہے کہ انٹیلی جنس رپورٹ کی روشنی میں امریکا مزید اقدامات کرے گا، یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ امریکا اگر تمام تر کوششوں کے باوجود پاکستان سے یہ امید رکھتا ہے کہ پاکستان مزید اقدامات کرے گا تو کیا امریکا سے یہ امید نہیں رکھی جانی چاہئے؟

پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ تنِ تنہا لڑی ہے، دوست ملکوں نے اس کو سراہا بھی ہے اور ’’بے خبر‘‘ ملکوں کو بتایا بھی ہے کہ پاکستان کی کامیابیوں سے آنکھیں بند نہ کی جائیں اور جو لوگ اسے ’’گرے لسٹ‘‘ میں ڈالنے کے لیے کوشاں ہیں وہ بھی آنکھیں کھول کر اور غیر جانبداری کے ساتھ جائزہ لیں اور پاکستان کی مشکلات کا احساس بھی کریں، اس لیے اگر امریکا یہ کہتا ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی روکنے کے لیے مزید اقدامات کرنے چاہئیں تو پاکستان کی مشکلات کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے اور کم از کم ان لوگوں کو تو روکنا چاہئے جو افغانستان میں پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی منصوبہ بندی کرتے اور ان کے تربیت یافتہ افراد یہاں آکر کارروائیاں کرتے ہیں۔ (تجزیہ)


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں